Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

قناعت کی حقیقت اور اس کا حصول

قناعت کی حقیقت اور اس کا حصول! از:حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم! *ہر خواہش پوری نہیں ہوسکتی* قناعت حاصل کرنے کے لئ...




قناعت کی حقیقت اور اس کا حصول!
از:حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم!

*ہر خواہش پوری نہیں ہوسکتی*

قناعت حاصل کرنے کے لئے آدمی کو یہ سوچنا چاہئے کہ دل میں خواہشات تو بے شمار پیدا ہوتی رہتی ہیں کہ ایسا بن جائوں ، مجھے اتنی دولت حاصل ہوجائے، مجھے کوٹھی اور بنگلہ حاصل ہوجائے، کاریں مل جائیں ، یہ سب خواہشات تو دل میں پیدا ہوتی رہتی ہیں ، لیکن اس روئے زمین پر کون سا انسان ایسا ہے جس کی ہر خواہش پوری ہوجاتی ہو ؟ کوئی ہے ؟ نہیں ۔ چاہے بڑے سے بڑا بادشاہ ہو ، چاہے بڑے سے بڑا ولی ہو ، بڑے سے بڑا صوفی ہو ، بزرگ ہو، عالم ہو ۔ کوئی نہیں ہے جس کی ہر خواہش پوری ہوجاتی ہو ، یہ تو دنیا ہے، جس کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ اس میں تمہاری کچھ خواہشات پوری ہوں گی ، اور کچھ نہیں ہوں گی، جب ہر خواہش پوری نہیں ہوگی تو اب دو صورتیں ہیں ، ایک یہ کہ یا تو ساری زندگی خواہش پوری نہ ہونے پر کڑھتے رہو ، اور یہ شکوہ شکایت کرتے رہو کہ میری فلاں خواہش پوری نہیں ہوئی، میں فلاں چیز چاہ رہا تھا، وہ نہیں ملی، ساری زندگی اس حسرت اور افسوس میں گزار دو۔ اس لئے کہ تقدیر سے زیادہ تو تمہیں کبھی کوئی چیز نہیں مل سکتی ، چاہے رو چاہے فریاد کرو، چاہے کڑھتے رہو ، اور لوگوں کے سامنے شکوے کرتے رہو ، ملے گا وہی جو تقدیر میں لکھا ہے۔ 

*اللہ کے فیصلے پر راضی ہوجاؤ*

دوسری صورت یہ ہے کہ جو کچھ مل رہا ہے اس کو ہنسی خوشی قبول کرلو ، اوراللہ کے فیصلے پر راضی ہوجائو ، اور قناعت اختیار کرلو، بس یہی دو صورتیں ہیں ، لہٰذا اللہ جل شانہ کی تقدیر پر اور اس کی تقسیم پر راضی ہوجائو کہ تمہیں جتنا کچھ دیا ہے، تمہارے لئے وہ ہی مناسب ہے۔ البتہ جائز اور حلال طریقوں سے تدبیر کرنا منع نہیں ، لیکن تدبیر کرنے کے بعد جو مل گیا ، اس پر خوش ہوجائو کہ ہاں ! میرا حق اتنا ہی تھا، جو مجھے میرے اللہ نے دیا، اب اس سے زیادہ کی ہوس میں مبتلا ہو کر خود بھی پریشان ہونا اور دوسروں کو بھی پریشان کرنا ، اور اس کے لئے جائز اور ناجائز طریقے استعمال کرنا یہ وہ بلا ہے جس میں آج پوری دنیا مبتلا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس جملے کے ذریعے اس سے بچانے کی کوشش فرمارہے ہیں ۔

*جائز اور حلال طریقے سے اعتدال سے کماؤ*

پہلی بات یہ ہے کہ دولت اور پیسے کے حاصل کرنے کے لئے ناجائز اور حرام تدبیر نہ ہو ، بلکہ جو طریقہ بھی پیسے کمانے کا اختیار کرو وہ حلال اور جائز ہونا چاہئے ، اور جو کچھ ملے اس پر قناعت اختیار کرو۔ دوسری بات یہ ہے کہ جائز اور حلال طریقوں کو بھی اعتدال کے ساتھ اختیار کرو، یہ نہیں کہ صبح سے لیکر شام تک بس پیسے کمانے میں منہمک ہے، اور دنیا کی دوڑ دھوپ میں لگا ہوا ہے، سب کچھ مل جانے کے باوجود خواہش یہ ہے کہ اور مل جائے، اس دنیا کی حرص و ہوس اتنی زیادہ ہوگئی ہے کہ ہر وقت دل و دماغ پر دنیا کی فکر سوار ہے ۔ ایک مؤمن کے اندر یہ چیز مطلوب نہیں ، چاہے وہ جائز اور حلال طریقے سے کررہا ہو، اس لئے کہ جائز اور حلال طریقوں کے اندر بھی اعتدال مطلوب ہے، یہ نہ ہو کہ دنیا کو اپنے اوپر اس طرح سوار کرلیا کہ اب خواب بھی اس کے آرہے ہیں ، بقول شخصے کہ جس تاجر کے دماغ پر دنیا سوار ہوتی ہے، جب وہ رات کو بستر پر لیٹتا ہے تو آسمان کے ستارے بھی اس کو آپس میں تجارت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ، یہ حالت اچھی نہیں ۔ 

*تجارت کو ترقی دینا قناعت کے خلاف نہیں*

یہاں میں ایک اور وضاحت کردوں ، وہ یہ کہ لوگ بعض اوقات ’’قناعت ‘‘ کا مطلب یہ سمجھ بیٹھتے ہیں ، اور اس ساری گفتگو کا یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جو شخص تاجر ہے اس کو آگے تجارت بڑھانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے ، قناعت کا مقصد یہ نہیں ، میں نے تین الفاظ استعمال کیے 
ایک یہ کہ مال کمانے کا طریقہ جائز ہو 
دوسرے وہ مال حلال ہو 
تیسرے یہ کہ اعتدال کے ساتھ ہو 
اس لئے حضور اقد س صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اَجْمِلُوْا فِیْ الطَّلَبِ وَتَوَکَّلُوْا عَلَیْہِ‘‘لہٰذا اعتدال کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کمانے کو اپنے اوپر سوار نہ کرو، مال کے خادم نہ بنو ، اب اگر ایک شخص جائز طریقے سے اور اعتدال کے ساتھ اپنے کارو بار کو بڑھا رہا ہے، تو شریعت نے اس پر نہ صرف یہ کہ پابندی عائد نہیں کی، بلکہ یہ عمل قناعت کے بھی منافی نہیں۔* لیکن اگر کوئی شخص اپنے کاروبار کو ناجائز اور حرام طریقے سے بڑھارہا ہے وہ تو بالکل ہی حرام ہے دوسرا یہ کہ اگر چہ ناجائز کا ارتکاب نہیں ہورہا ہے لیکن اعتدال سے بڑھا ہوا ہے اس لئے کہ دن رات مال بڑھا نے کے علاوہ کوئی اور فکر ہی نہیں ہے ، یا اس کارو بار کے نتیجے میں دوسروں کے حقوق پامال ہورہے ہیں ، یہ بھی اعتدال سے بڑھنے میں داخل ہے، تیسرے یہ کہ آدمی اس کاروبار میں ایسا مشغول ہوگیا ہے کہ اب اس کو کسی دینی محفل میں جانے کی فرصت نہیں ،د ین کی بات سیکھنے کی فرصت نہیں ، کسی اللہ والے کے پاس جاکر بیٹھنے کی فرصت نہیں ، یہ بھی اعتدال سے خارج ہے، اور قناعت کے خلاف ہے۔ 
*بہر حال! اعتدال کے ساتھ ، جائز طریقے سے دنیا کماؤ ، اور جو ملے اس پر راضی رہو ، بس اسی کا نام قناعت ہے، اس دنیا میں قناعت کے علاوہ راحت حاصل کرنے کا کوئی اور طریقہ نہیں ، اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ہم سب کو قناعت کی دولت عطا فرمائے،آمین۔*

- کتاب: اصلاحی خطبات،جلد16،صفحہ 110
- مجموعۂ بیانات: حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب
بسلسلہ: معارفِ عثمانی
-اسے آگے شئیر فرماکر صدقۂ جاریہ کے مستحق بنیں۔