Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

میرے شوہر اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ سکتے

*سوال* میرے شوہر اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ سکتے۔ غصے کے دوران، وہ دروازے پر لاتیں مارتے ہیں، چیختے ہیں، میری تذلیل کرتے ہیں اور دھمکیاں دیتے...

*سوال*
میرے شوہر اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ سکتے۔ غصے کے دوران، وہ دروازے پر لاتیں مارتے ہیں، چیختے ہیں، میری تذلیل کرتے ہیں اور دھمکیاں دیتے ہیں۔ ایک بار جب وہ پرسکون ہوجائیں تو مجھے ایسا ظاہرکرنا ہوتا ہے جیسے سب کچھ ٹھیک ہے۔ مجھے ان کی معافی لازمی قبول کرنی ہوتی ہے۔ وہ اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ میں تسلیم کروں کہ اس سب میں کچھ قصور میرا بھی ہے۔ تاہم، اچھے موڈ میں وہ مہربان اور دیکھ بھال کرنے والے ہیں۔ میں اس تمام صورت ِحال کے اپنے اور اپنےبچوں پر پڑنے والے ذہنی اثرات کے بارے میں فکر مند ہوں۔
*جواب*

*جائزہ*
ہمارے اس دور میں غصہ اور طیش بہت عام ہو گیا ہے۔ یہ خراب تعلقات اور تشدد کی طرف لے جاتا ہے۔ اس کا تعلق اسلام سے جاہل ہونے سے ہے، لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ اسلام نے غصے پر قابو پانے کا کیا طریقہ بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر عوامل بھی ہو سکتے ہیں جو غصے کو جنم دیتے ہیں۔ رشتوں ناطوں میں حل نہ ہونے والے مسائل، ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے متعلق دباؤ ، نیزذمہ داریوں کو پورا کرنے میں ناکامی پر مایوسی اوراس جدید دور کی زندگی کے تقاضوں کوپورا کرتے کرتے تھک جانے کا احساس، یہ سب غصے اور جلد طیش میں آ جانے کے عوامل ہو سکتے ہیں۔ اوربعض صورتوں میں دائمی بیماری اور ادویات بھی غصے کا سبب ہو سکتی ہیں۔

1*۔ غصے اورطیش کے بارے میں اسلام کی بصیرت*

غصے کے حالت میں بے قابو ہو جانا مضبوط آدمی کی علامت نہیں ہے۔ یہ ایک کمزور شخصیت کی نشانی ہے کہ جو اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ سکتا۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت غصے پر قابو پانے کی طاقت دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَاذْكُر رَّبَّكَ إِذَا نَسِيتَ ’’اور اپنے رب کو یاد کرو جب تم بھول جاؤ‘‘ (الکہف 18:24)۔ عکرمہ نے بیان کیا، إذا غضبت "یعنی جب تمہیں غصہ آجائے"۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ مجھے نصیحت فرمائیے۔ آپ ﷺنے فرمایا لَا تَغْضَبُ "غصہ نہ کرو"۔ اس نے کئی بار اپنا سوال دہرایا اورآپ ﷺ نے ہر بار کہا: لَا تَغْضَبُ "غصہ نہ کرو۔" (بخاری)
ناراض آدمی کو چاہئے کہ وہ اللہ کی پناہ مانگے۔ سلیمان بن صرد ؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺکے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ دو آدمی آپس میں غیبت کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک کا چہرہ سرخ تھا اور اس کی گردن کی رگیں پھولی ہوئی تھیں۔ رسول اللہﷺنے فرمایا: ”إِنِّي لَأَعْلَمُ كَلِمَةً لَوْ قَالَهَا ذَهَبَ عَنْهُ مَا يَجِدُ لَوْ قَالَ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ الشَّيْطَانِ ذَاِنِ عَلَيْهِ مِنْ الشَّيْطَانِ ذِنْہُ "میں وہ کلمہ جانتا ہوں کہ اگر وہ یہ کہے گا تو جو وہ محسوس کر رہا ہے ،جاتا رہے گا۔ اگر اس نے کہا کہ میں شیطان سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں تو جو کچھ وہ محسوس کررہا ہے (یعنی اس کا غصہ) دور ہو جائے گا‘‘(بخاری)۔
ایک مسلمان کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ غصہ ایک آگ ہے جو اس کے قابو میں ہے۔ اسے بجھایا جا سکتا ہے۔ ابن مفلح حنبلی نے کہا:وقال علی بن أبي طالب رضی اللہ عنہ : إنما يعرف الحلم ساعة الغضب ، وكان يقول : أول الغضب جنون ، وآخره ندم ، ولا يقوم الغضب بذلِّ الاعتذار ، وربما كان العطب ( أي الهلاك ) في الغضب”علی ابن ابی طالبؓ نے فرمایا کہ ایک شخص کتنا صبر کرنے والا ہے یہ اس وقت ہی معلوم ہو تا ہے جب وہ غصے کی حالت میں ہو۔ اور فرمایا کرتے تھے کہ غصہ کی ابتدا دیوانگی ہے اور اس کی انتہا ندامت ہے اور غصہ کو عاجزی سے معافی مانگنے سے جائز نہیں بنایا جا سکتا۔ غصہ مشکلات کودعوت دیتا ہے‘‘(الآداب شریعۃ)۔
ابنِ مفلح نے مزید کہا: وقيل للشعبي : لأي شيء يكون السريع الغضب سريع الفيئة ، ويكون بطيء الغضب بطيء الفيئة ؟ قال : لأن الغضب كالنار فأسرعها وقوداً أسرعها خموداً "شعبی سے کہا گیا کہ غصہ کرنے میں جلدی کرنے والا پرسکون ہونے میں بھی جلدی کیوں ہے، اور جو غصہ کرنے میں سست ہے وہ پرسکون ہونے میں کیوں سست ہے؟" انہوں نے کہا، 'غصہ آگ کی طرح ہے جو آگ جلد بھڑک جاتی ہے اسے بجھانا بھی آسان ہوتاہے‘‘۔

*2۔ اسلام ناراض آدمی کو غصے میں خاموش رہنے کا حکم دیتا ہے*

غصے والے کوطویل دیرتک غصے کے عالم میں نہ رہنے دیں۔ اس کے نتیجے میں غصے کی آگ کا آلاؤ بھڑکتا رہے گا۔ اسے خاموش ہونے دیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: إذا غَضِبَ أحدُكم فليَسْكُتْ "جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو وہ خاموش ہو جائے" (اسے امام احمد نے اپنی مسند میں روایت کیا ہے)۔

غصہ کرنے والا خود پر قابو کھو دیتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی ناشکری اور کفر کے کلمات بھی کہہ دیتا ہے۔ وہ لعنت طعن کر سکتا ہے۔ وہ طلاق کا لفظ منہ سے نکال سکتا ہے، جو اس کا گھر تباہ کرسکتا ہے۔ وہ بہتان لگا سکتا ہے جس کے نتیجے میں دوسروں کی اس کے ساتھ دشمنی اور نفرت پیدا ہو سکتی ہے۔ وہ غیبت اور چغل خوری کرتاہے۔ دوسروں کو نیچا دکھانے اور ان کی ساکھ پر ضرب لگانے کے لیے مسلسل محاذ کھول سکتا ہے۔ وہ تعلقات کو توڑنے کے لیے سخت الفاظ کہہ سکتا ہے۔ مختصر یہ کہ خاموش رہنا ہی وہ حل ہے جو ان تمام گناہوں سے بچنے میں اس کی مدد کرتا ہے۔

غصہ میں آنے والے شخص کے ساتھی کو بھی خاموش ہو جانا چاہیے۔ غصے کے دوران استدلال کرنا مناسب نہیں ہے۔ غصہ کے عالم میں ایک شخص ایسے ہے کہ اس نے اپنی عقل کا اگر تمام نہیں توکچھ حصہ کھو دیا ہو، اور وہ عقلی دلیل کو ایک چیلنج اور توہین کے طور پر دیکھتا ہے۔

*3۔ غصہ کرنے والے کو چاہیے کہ اپنے آپ کو اس صورت حال سے نکال لے، جیسا کہ اسلام نے اسے بیٹھ جانے یا لیٹنے کا حکم دیا ہے*

اس سے پہلے کہ غصہ ایک شخص کو اپنی آگ میں بھسم کر دے، اسے اس اشتعال انگیز صورتحال سے اپنے آپ کودور کرلینا چاہیے۔ اسے اپنے آپ کو اس وقت تک الگ تھلگ رکھنا چاہئے جب تک کہ وہ ٹھنڈا ہو کر اپنے ہوش و حواس میں پوری طرح واپس نہ آ جائے۔ غصے کی صورت حال سے دور ہونے کی وجہ سے اس کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔
اس کا ساتھی بھی اشتعال کو کم کرنے کے لیے خود کو غصے میں مبتلا شخص سے دور کر سکتا ہے۔
پھر طیش میں آنے والے شخص کو چاہئے کہ وہ سنتِ نبوی کے مطابق عمل کرے۔ ابوذرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فرمایا: إِذَا غَضِبَ أَحَدُكُمْ وَهُوَ قَائِمٌ فَلْيَجْلِسْ فَإِنْ ذَهَبَ عَنْهُ الْغَضَبُ وَإِلا فَلْيَضْطَجِعْ "جب تم میں سے کوئی شخص طیش کے عالم میں کھڑا ہو تو وہ بیٹھ جائے۔ پھر بھی اس کا غصہ دور نہ ہو تو وہ لیٹ جائے" ابوداؤد نے اس حدیث کوروایت کیا ہے۔ علامہ خطابیؓ نے ابوداؤد کی شرح میں کہا: القائم متهيء للحركة والبطش والقاعد دونه في هذا المعنى ، والمضطجع ممنوع منهما ، فيشبه أن يكون النبي صلى الله عليه وسلم إنما أمره بالقعود والاضطجاع لئلا يبدر منه في حال قيامه وقعوده بادرة يندم عليها فيما بعد . والله أعلم "جو کھڑا ہے وہ حرکت میں آنے اور حملہ کرنے کے لیے تیار ہے اور جو بیٹھا ہے وہ اس لحاظ سے اس سے کم ہے اور جو لیٹا ہوا ہے وہ ان دونوں کاموں سے دور ہے۔ آپ ﷺ نے غصے میں مبتلا شخص کو بیٹھنے اور لیٹنے کا حکم اس لیے دیا تاکہ وہ کھڑے اور بیٹھے کوئی ایسی حرکت نہ کرے جس سے بعد میں اسے پچھتاوا ہو۔ واللہ اعلم (سنن ابی داؤد، معالم السنان)

*4۔ یاد رکھیں کہ غصہ بیوی کے ساتھ بُرے ساتھ کے گناہ کا باعث بن سکتا ہے*

شوہر کا غصہ اسے بری صحبت کے گناہ کی طرف دھکیل سکتا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے شوہر کو خاص طور پر یہ کہہ کر حکم دیا ہے کہ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ’’اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرو‘‘۔( سورہ النساء 4:19)۔
غصہ شوہر کو اپنی بیوی میں موجود اچھائیوں کو نظر انداز کرنے کا سبب بن سکتا ہے، اور یہ امر بُرا ساتھی بننے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک صحیح حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا : لا يفرَك مؤمنٌ مؤمنةً إن سخِطَ منْها خُلقًا رضِيَ منْها آخرَ"مومن مرد ایک مومن عورت (یعنی بیوی)سے بغض نہ رکھے۔ اگر وہ اس کی ایک خصوصیت کو ناپسند کرتا ہے تو کوئی دوسری خصوصیت اسے راضی کردے گی" (تفسیر ابنِ کثیر میں روایت ہے)۔

*5۔ خاندان پر غصے کے برے نتائج مرتب ہوتے ہیں*

شوہر کو اس طرزعمل کے اخروی نتائج کے بارے میں نصیحت کی جائے۔ اس سے آخرت میں اس بارے میں سوال کیا جائے گا کہ اس نے ان لوگوں کے ساتھ کیاکِیا جن پر وہ ذمہ دار تھا، نہ کہ صرف اس کے اپنے ذاتی طرز عمل کے بارے میں۔ جو شخص اپنے غصے پر قابو نہیں رکھ سکتا وہ اپنے بچوں کے لیے ایک بری مثال چھوڑے گا۔ بچے ایسے رویے کو اس طرح سمجھیں کریں گے کہ گویا یہ معمول کی چیزہے۔ جس کے نتیجے میں ان کی ازدواجی زندگی پر بھی برا اثر پڑے گا۔

*6۔ غصہ ایک دائمی حالت نہیں ہے، کہ جس سے چھٹکارا ممکن نہ ہویا جس کی تلافی نہ ہو سکے*

جب انسان اپنے غصے کا غلام بن جاتا ہے تو وہ اکثر ایک اور جال میں پھنس جاتا ہے جسے شیطان مردود نے بچھایا ہے۔ ناراض شوہر یہ سوچنا شروع کر دیتاہے کہ اس کے لیے اب کوئی راستہ نہیں ہے۔ وہ دوباراتقویٰ اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی طرف واپسی کی راہ اختیار نہیں کر سکتا۔ وہ معافی کی التجا کرتا اور پھر اپنی بری صحبت اور غصے کو دہرانے لگتا ہے۔
زندگی کا کوئی بھی مقام ایسا نہیں کہ جس سے اللہ کی طرف واپسی نہ ہو سکتی ہو، ماسوائے کہ جب جان حلق تک پہنچ جائے۔ اس لیے شوہر کو چاہیے کہ وہ توبہ، گناہوں سے بچنے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی طرف پہلا چھوٹا قدم اٹھائے۔ وہ یہ تسلیم کرے کہ غصے کے ذریعے برا ساتھی بننا گناہ ہے نہ کہ عذر۔

*7۔ اگر مخلصانہ نصیحت سے تقویٰ بحال نہ ہو؟*

شریعت کی کھلم کھلا خلاف ورزی اسلام میں ایک سنگین معاملہ ہے۔ خلافت میں یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو عدلیہ کے حوالے کیا جاتا ہے۔ اگر شوہر غصے کی بنا پر برا ساتھی بننے سے باز نہ آئے تو جوڑے کو چاہیے کہ وہ کسی تیسرے ایسے فریق کے ذریعے مصالحت کی کوشش کرے، جو علم اور تقویٰ کا حامل ہو۔
مصالحت کے اس عمل میں یہ بات سامنے آسکتی ہے کہ شوہر کے اس غصے کی کوئی معقول وجہ بھی ہو سکتی ہے، جبکہ یہ برے ساتھ کا جواز پھر بھی نہیں ہے۔ اس طرح کی مصالحت کے ذریعے ہی ازدواجی زندگی میں فریقین کو درپیش مسائل کا پتہ چل سکتا ہے۔ تب ہی میاں بیوی میں سے کسی کی بھی کوتاہیوں کے بارے میں جانا جا سکتا ہے اور ان کا علاج کیا جا سکتا ہے۔ 
دیگر عوامل جیسے کہ بیماری، ادویات، آرام، خوراک اور لائف سٹائل کی جانچ کے لیے ماہرین صحت کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔