Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

مال ودولت کی رغبت

🌼 *میرا آقا میرا مال* 🌼 گلی میں دو بچوں کی گفتگو تھی ایک کے پاس آج تیسرا نیا سائیکل آیا تھا ۔اور وہ خاص طور پر دکھارہا تھا ۔دوسرے نے پوچ...

🌼 *میرا آقا میرا مال* 🌼
گلی میں دو بچوں کی گفتگو تھی ایک کے پاس آج تیسرا نیا سائیکل آیا تھا ۔اور وہ خاص طور پر دکھارہا تھا ۔دوسرے نے پوچھا یار یہ نیاکیوں لیا۔جبکہ دو پہلے سے تمھارے پاس ہیں اور وہ پرانے بھی نہیں۔
پہلے کے جواب سےعجیب کیفیت ہوئی۔کہنے لگا میرے ابا دن رات کماتے کس لئے ہیں؟اسی لئے تو کماتے ہیں   کہ ہمارے شوق پورے کریں ۔ 


فخریہ بولا اس کے بعد ایک اور پسند کر کے آیا ہوں۔دیکھنا وہ بھی جلد ہی لے لوں گا ۔اس دوران کئی بچے ان کے گرد جمع ہو چکے تھے۔جن کی حسرت بھری نگاہیں۔۔۔ گویا کئ المیے جنم لینے کو تھے۔

ایسے میں توجہ دوسرے بچے کے تاثرات نے اپنی طرف موڑی مرعوبیت کے بجائے افسوس کے ساتھ وہ ایک سوال کرتے پلٹ آیا تمھارے ابا کے پیسوں کا کیا صرف یہی ایک مصرف ہے؟؟؟


اللہ ان کی آنکھیں کھول دیں کہ انھیں پتہ چلے دنیا میں خرچ کی اور بھی کئی جگہیں ہیں۔ کہ مال کا حصول اور
 خرچ دونوں کی حدود متعین ہیں۔ یہ وہ بچہ تھا جو محلے بھر میں ہر ایک کا معاون بنا رہتا تھا
وہ تو پلٹ گیا لیکن میرے سوچنے کے نیۓ در وا کر گیا ۔


 *کہ ہم بے مقصد یت کے اس مقام پر پہنچ چکے کہ سواۓ فخر جتانے ،شو* مارنے،فرنیچر اور پردے تبدیل کرنے،ایک سے دوسرا اور دوسرے سے تیسرا گھر بنانے،گاڑیوں کے ماڈل بدلنے کے مال کا کوئی مصرف ہی نہیں رہا۔ اردگرد کی خبر نہیں جہاں دو وقت کی روٹی کے لالے ہیں ۔لاکھوں کو چھت میسر نہیں۔
گزشتہ بارش میں پڑوس میں کئی گھروں کے بچے امی کے گھر تھے جن کے والدین پوری رات گھر سے پانی بالٹیوں میں بھر کر باہر نکالتے رہے۔ اس حال میں کہ چھت کے گرنے کا خدشہ سوا تھا۔


 *ایسے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ* *محترمہ یاد آئیں جب عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں اسلامی مملکت کو وسعت* *ملی تو لوگوں کے لیے* *وظائف مقرر کیے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی* *زوجہ محترمہ نے وجہ دریافت کی۔پھر فوراً ہی مال کو صدقہ کرنے کا کہا۔* *اور آئندہ کے لئے مال کی* *فراوانی سے ڈر گئیں* ۔


 *حضرت فاطمتہ رضی اللہ عنھا کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال اور خادمہ کے بجائے تسبیحات* *کی تر غیب دی* ۔
 *آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے لئے فقر کو پسند* *فرمایا* ۔ اپنی ضرورت پر دوسروں کو ترجیع دی۔ کل کی فکر سے آزاد رہنے کا عملی درس دیا۔


 *کسی قوم کے خرچ سے اس کے آئندہ کے عزائم کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ایک گھرانے کے خرچ کا انداز بتاتاہے کہ* *اس کے لوگوں نے مستقبل میں کس مقام پرجانے کا ارادہ باندھا* ہے ۔

ایک دینی ادارے کی پرنسپل جو تعلیم و تربیت کے اعلیٰ مقاصد کے ساتھ نئی نسل کی تربیت میں مصروف ہیں۔پوچھا پہلے فیس نہیں تھی اب کیوں اتنی رکھی کہ بچیاں داخلہ نہ کروا پائیں۔کہنے لگیں کیا بتاؤں کہ لوگ باوجودکوشش کے دینے کو تیار نہیں ہوتے گزشتہ کئی سال اس حال میں گزرے ہیں کہ معمولی سا اساتذہ کا معاوضہ بھی نہیں دے پا رہے تھے۔وہ جو اعلیٰ تعلیم کے ساتھ انتہائی کم معاوضے پر فقیرانہ زندگی بسر کرنے والے ہیں مزید ہمت نہیں تھی کہ ان سے مزید قربانیوں کا تقاضا کرتی لہذا مجبوراً یہی فیصلہ لینا پڑا۔پوچھا فی طالبہ ہاسٹل کے ساتھ خرچ کتنا ہے کہنے لگیں۔سات ہزاریقینا یہ کوئی بڑی رقم نہ تھی ۔


 دولت بڑی خطرناک شے ہے اگر معلوم نہ ہو کہ خرچ کہاں کرنی ہے۔ترجیحات طے نہ ہوں تو اس کا خرچ اور حصول دونوں ہی انسان کو انسان نہیں رہنے دیتے ۔

اسے اشرف المخلوقات کے درجے سے ہٹا کر اپنا غلام بنا لیتے ہیں۔ 


ایک خاتون نے سسر کے ترکے پر جو اس کے مرحوم شوہر کے نام پر بوجوہ کروایا گیا تھا۔سب جانتے ہوئے بھی دعویٰ کیا کہ قانونی طور پر اب وہ مال اس سے کوئی نہیں لے سکتا ۔
اور شوہر کا قرض دینے سے بھی انکار کر دیا کہ اس کا کوئی قانونی ثبوت نہیں ۔دلیل یہ ہےکہ وہ بچوں کا مستقبل محفوظ بنانا چاہتی ہیں۔

دراصل مال ودولت کی رغبت انسان میں اس قدر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اس کا پیٹ تو مٹی ہی بھر سکتی ہے۔یعنی موت پر ہی یہ رغبت ختم ہو گی۔اس کے پاس سونے کا ایک پہاڑ ہو تو یہ دوسرا اور پھر تیسرا چاہے گا۔اللہ نے مال کو اسی لئے آزمائش کہا۔ مرد مومن کا امتحان ہے کہ وہ سوچے کہ کمائی کا حلال ذریعہ کیا ہو۔ رب نے مال دیا ہےتو خرچ کہاں ہو کہ ہمیشہ کی زندگی آخرت کمائی جا سکے۔
یہ دنیا چند روزہ اور اس کا مال بھی یہی رہ جانے والا ہے۔ مال ودولت استعمال کے لئے ہے۔ لہذا اسے آقا نہیں بننا چاہیے۔ اسے فلاح انسانیت اور آخرت کے بلند تر مقاصد کے لئے استعمال ہونا چاہیے۔ مال ودولت سے فائدہ بھی مقدر کی بات ہے۔ہر ایک فائدہ اٹھا بھی نہیں سکتا۔ زندگی بھر جمع کر نے والے بھی کبھی صرف جمع کر جاتے ہیں۔جنھیں لوٹانے والے دنوں میں لوٹا دیتے ہیں۔ سب کیا بے کار چلا جاتا ہے۔ کاش جمع کرنے والے کار خیر میں لگانے کا ہنر جان لیں۔
تحریر،، آسیہ عمران
انتخاب،، عابد چوہدری