Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

کلمہ طیبہ کی مثال ایک پاکیزہ درخت کی طرح ہے

۔┈••❃⊰ ( سورة اِبْرٰهِیْم : ٢۴ تا ٢۵ ) ⊱❃••┈  ۔ ؛•‍━━•••◆◉ ﷽ ◉◆•••‍━━•؛ 📖 ارشاد باری تعالیٰ ﷻ : اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلً...




۔┈••❃⊰ ( سورة اِبْرٰهِیْم : ٢۴ تا ٢۵ ) ⊱❃••┈
 ۔ ؛•‍━━•••◆◉ ﷽ ◉◆•••‍━━•؛

📖 ارشاد باری تعالیٰ ﷻ :
اَلَمۡ تَرَ کَیۡفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ طَیِّبَۃٍ اَصۡلُہَا ثَابِتٌ وَّ فَرۡعُہَا فِی السَّمَآءِ ﴿ۙ۲۴﴾ تُؤۡتِیۡۤ اُکُلَہَا کُلَّ حِیۡنٍ ۢ بِاِذۡنِ رَبِّہَا ؕ وَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡاَمۡثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّہُمۡ یَتَذَکَّرُوۡنَ ﴿۲۵﴾

📚 ترجمہ :
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کلمہ طیبہ کی کیسی مثال بیان کی ہے؟ وہ ایک پاکیزہ درخت کی طرح ہے جس کی جڑ ( زمین میں ) مضبوطی سے جمی ہوئی ہے ، اور اس کی شاخیں آسمان میں ہیں۔ اپنے رب کے حکم سے وہ ہر آن پھل دیتا ہے ۔ اللہ ( اس قسم کی ) مثالیں اس لئے دیتا ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں ۔

✍ تفسیر :
کلمہ طیبہ سے مراد کلمہ توحید یعنی لا الہ الااللہ ہے اور اکثر مفسرین نے فرمایا ہے کہ پاکیزہ درخت سے مراد کھجور کا درخت ہے جس کی جڑیں زمین میں مضبوطی کے ساتھ جمی ہوتی ہیں، اور تیز ہوائیں اور آندھیاں اسے نقصان نہیں پہچا سکتیں، نہ اسے اپنی جگہ سے ہلا سکتی ہیں۔ اسی طرح جب توحید کا کلمہ انسان کے دل و دماغ میں پیوست ہو جاتا ہے تو ایمان کی خاطر اسے کیسی ہی تکلیفوں یا مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے اس کے ایمان میں کوئی کمزوری نہیں آتی۔ چنانچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کو ہر قسم کی اذیتیں دی گئیں۔ لیکن توحید کا جو کلمہ ان کے دل میں گھر کر چکا تھا اس میں مصائب کی ان آندھیوں سے ذرہ برابر تزلزل نہیں آیا، کھجور کے درخت کی دوسری صفت اس آیت میں یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ اسکی شاخیں آسمان کی طرف بلند ہوتی ہیں، اور زمین کی کثافتوں سے دور رہتی ہیں، اسی طرح جب توحید کا کلمہ مومن کے دل میں پیوست ہو جاتا ہے تو اس کے تمام نیک کام جو درحقیقت اسی کلمے کی شاخیں ہیں آسمان کی طرف بلند ہوتے ہیں، یعنی اللہ تعالیٰ تک پہنچ کر اس کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں، اور دنیا پرستی کی کثافتوں سے محفوظ رہتے ہیں۔
فرمایا کہ یہ درخت سدا بہار ہے، اس پر کبھی خزاں طاری نہیں ہوتی، اور وہ ہرحال میں پھل دیتا ہے۔ اگر اس سے مراد کھجور کا درخت ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اُس کا پھل سارا سال کھایا جاتا ہے، نیز جس زمانے میں بظاہر اس پر پھل نہیں ہوتا، اس زمانے میں بھی اُس سے مختلف فائدے حاصل کئے جاتے ہیں۔ کبھی اُس سے نیرا نکال کر پیا جاتا ہے، کبھی اُس کے تنے کا گودا نکال کر کھایا جاتا ہے، اور کبھی اُس کے پتوں سے مختلف چیزیں بنائی جاتی ہیں۔ اِسی طرح جب کوئی شخص توحید کے کلمے پر ایمان لے آتا ہے تو چاہے خوش حال ہو یا تنگدست، عیش وآرام میں ہو یا تکلیفوں میں، ہرحال میں اُس کے اِیمان کی بدولت اُس کے اعمال نامے میں نیکیاں بڑھتی رہتی ہیں اور اس کے نتیجے میں اُس کے ثواب میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے، جو درحقیقت توحید کے کلمے کا پھل ہے۔ وہ ایسا بار آور اور نتیجہ خیز کلمہ ہے کہ جو شخص یا قوم اسے بنیاد بنا کر اپنی زندگی کا نظام اس پر تعمیر کرے ، اس کو ہر آن اس کے مفید نتائج حاصل ہوتے رہتے ہیں ۔ وہ فکر میں سلجھاؤ ، طبیعت میں سلامتی ، مزاج میں اعتدال ، سیرت میں مضبوطی ، اخلاق میں پاکیزگی ، روح میں لطافت ، جسم میں طہارت و نظافت ، برتاؤ میں خوشگواری ، معاملات میں راست بازی ، کلام میں صداقت شعاری ، قول و قرار میں پختگی ، معاشرت میں حسن سلوک ، تہذیب میں فضیلت ، تمدن میں توازن ، معیشت میں عدل و مواسات ، سیاست میں دیانت ، جنگ میں شرافت ، صلح میں خلوص اور عہدوپیمان میں وثوق پیدا کرتا ہے۔ وہ ایک ایسا پارس ہے جس کی تاثیر اگر کوئی ٹھیک ٹھیک قبول کر لے تو کندن بن جائے ۔

اللّٰہ تعالٰی ہمیں قرآن پاک کو پڑھنے، سمجھنے، غور کرنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ۔
🔰WJS🔰