Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

پینسل گم ہونے کے دو واقعات

*پہلا:*  ایک ڈاکو کا کہنا ہے کہ:  میں چوتھی کلاس میں تھا ایک دن جب میں مدرسے سے گھر واپس آیا میری پینسل گم ہوگٸی میں نے جب اپنی والدہ کو بتا...



*پہلا:* 
ایک ڈاکو کا کہنا ہے کہ: 
میں چوتھی کلاس میں تھا ایک دن جب میں مدرسے سے گھر واپس آیا میری پینسل گم ہوگٸی میں نے جب اپنی والدہ کو بتایا تو انہوں نے مجھے سزا کے طور پر بہت مارا !!!
اور مجھے بہت زیادہ گالیاں دیں اور مجھےبے عقل کہا اور یہ کہ مجھ میں زمہ داری کا احساس نہیں اور بھی اس کے علاوہ جو بھی کہہ سکتی تھیں وہ کہا
اپنی والدہ کے اتنی سختی کےنتیجے میں میں نے خود سے پکا ارادہ کیا کہ اب اپنی والدہ کے پاس خالی ہاتھ نہ جاٶں گا اس کے لیے میں نے ارادہ کیا کہ میں اپنی کلاس کے ساتھیوں کے قلم چرا لوں گا 
آنے والے دن میں میں نے منصوبہ بنایا اور میں نے ایک یا دو قلم چرانے پر اکتفاء نہ کیا بلکہ اپنی کلاس کے تمام لوگوں کے قلم چرا لیے کام کے شروع میں میں ڈرتے ڈرتے چوری کرتا تھا پھر آہستہ آہستہ مجھے حوصلہ ملا اور میرے دل میں ڈر کی کوئی جگہ نہ رہی ایک ماہ گزرنے کےبعد مجھے اس کام میں وہ لذت نہ رہی جو شروع میں تھی پھر میں نے ساتھ والی کلاسز میں جانے کا ارادہ کیا ایک کلاس سے دوسری کلاس تک جاتے جاتے آخر کار سکول کے پرنسپل کے کمرے تک چلا گیا
یہ سال عملی تجربہ لینے کا سال تھا اس میں میں نے نظری اور عملی دونوں طرح سے چوری کرنے کا سیکھا پھر اس کے بعد میں پیشہ ور ڈاکو بن گیا

*دوسرا:*

ایک والدہ کا کہنا ہے: 
جب میرا بیٹا دوسری کلاس میں تھا وہ جب مدرسے سے واپس آیا تو اپنی پنسل گم کر کے آیا
میں نے اس سے پوچھا پھر آپ نے کس چیز کے ساتھ لکھا ؟ 
اس نے کہا: میں نے اپنے کلاس فیلو سے پینسل مستعار لی ,میں نے اس سے کہا : آپ نے اچھا کام کیا لیکن آپ کے کلاس فیلو نے کیا کیا جب اس نے آپ کو لکھنے کے لیے اپنی پینسل دے دی ؟
کیا اس نے آپ سے کچھ کھانا لیا یا پینے کی چیز یا کوئی مال ؟

اس نے کہا نہیں اس نے ایسا کچھ نہیں کیا 
والدہ نے اس سے کہا: اے میرے بچے اس نے بہت ساری نیکیوں کا سودا کیا وہ آپ سے بہتر کیسے ہوا؟
کیوں نہ آپ بھی ایسی نیکیاں کمایٸں؟

اس نے کہا :یہ کیسے ہوگا؟

والدہ نے کہا: عنقریب ہم آپ کے لیے دو قلم خریدیں گے 
ایک قلم سے آپ لکھیں گے اور دوسرے قلم کو ہم *قلم الحسنات* کا نام دیں گے!!!
اور ایسا ہم اس لیےکریں گے کہ اگر کوئی اپنا قلم لانا بھول جائے یا جس سے گم ہوجائے تو آپ اس کو یہ دے دیں گے اور جب ان کا کام مکمل ہوجائے گا تو آپ اس کو ان سے واپس لے لیں 
اس سوچ سے میرا بیٹا بہت خوش ہوا اور اس پر عمل کرنے سے اس کی خوشبختی میں بہت اضافہ ہوا اس نے اپنےبیگ میں ایک قلم اپنے لکھنے کے لیے رکھا اور چھ قلم *قلم الحسنات*!!
اس واقعہ میں سب سے عجیب بات یہ تھی کہ میرے بیٹے کو مدرسے جانا سخت ناپسند تھا اور وہ پڑھنے میں بھی کمزور تھا 
پھر جب اس نے اس سوچ پر تجربہ کیا تواسے مدرسے سے محبت ہوگٸی
اور یہ اس وجہ سے ہوا کہ وہ کلاس کا تارہ بن گیا تو سب اساتذہ اسے پہچاننے لگے اور سارے کلاس فیلوز مشکل میں اس کی تعریف کرتے
جس کسی کا قلم گم جاتا وہ اس سے قلم لیتا اور استادکوجب پتہ چلتا کہ کوئی اس لیے نہیں لکھ رہا کہ اس کے پاس قلم نہیں تو استاد کہتے کہاں ہے احتیاطی قلم رکھنے والا 
نتیجتا میرے بیٹے کو مدرسے سے محبت ہوگٸی وہ آہستہ آہستہ پڑھائی میں بھی اچھا ہوگیا 
اور خوبصورت بات یہ ہے کہ آج وہ اپنی تعلیم مکمل کرچکا ہے اس نے شادی کی اسے اللہ نے اولاد دی لیکن وہ آج بھی *قلم الحسنات* نہیں بھولا

بہت اعلیٰ سبق ہے ماؤں کیلئے،
بچوں کو اچھی سوچ دینا انکے نہ صرف دنیاوی اعمال اور کردار سنوارتا ہے بلکہ آخرت بھی۔
جبکہ منفی سوچ اس کے برعکس اسکے اعمال کے ساتھ ساتھ آخرت بھی لے ڈوبتی ہے۔

اسی لیے قوموں کے کردار اور اخلاق کو سنوارنے میں ماؤں کا بہت بڑا کردار ہے۔
نوعمری کا زمانہ کتنی اہمیت رکھتا ہے کہ زندگی کے بعض تجربات یا تو بچے کا رخ راہ راست کی طرف کر دیتے ہیں ، دوسری صورت میں وہ گمراہی کے راستوں پر چل پڑتا ہے ۔

کھانا بناتے ہوۓ زیادہ بنا لیں کہ کسی اور کو بھی بھجوا دیں گے ۔ 
کپڑے لیتے ہوۓ کبھی ایک جوڑا اضافی لے لیں کسی اور کو دے دیں گے 
سودا سبزی پھل آٹا خریدتے وقت کچھ چیزیں اایسی لے لیں جو کسی اور کو بھی دے دیں گے ۔
باہر جاتے ہوۓ کھلے پیسے ساتھ رکھیں کہ کسی کو دے دیں گے ۔ 
اپنے بچوں کی فیس کے ساتھ 
کسی ایک اور کی فیس بھی لگا لیں۔
بعض دفعہ اپنا دل اداس بھی ہو تو دوسروں سے ملتے ہوۓ مسکرا لیں کہ مسکراہٹ ہی کسی اور کے کام آ جاۓ گی۔
اپنے لیۓ سادگی کیسے اپنائیں ؟
اس میں بھی کسی اور کو کچھ نہ کچھ دینے کا نسخہ ہی کار گر ہے ۔ 
جب کسی اور کو دینے کی فکر غالب آ جاۓ تو خود پہ لگانے کا شوق کم ہو جاتا ہے ۔ 
جب ذوق بدلتا ہے تو اس کے مطابق عمل بدل جاتا ہے ۔
جیسا ذوق ہو گا ویسی ہی زندگی گزرے گے
طالب دعا محمد عارف