Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

دادی دادا اور نانی نانا

ساڑھے تین برس کی زینب دو روز قبل کچن میں آئی،ہاتھ میں ببل گم تھی،"نانی آپ ببل کھائیں گی؟   "ہاں کیوں نہیں"کا جواب پاکر اس نے ...



ساڑھے تین برس کی زینب دو روز قبل کچن میں آئی،ہاتھ میں ببل گم تھی،"نانی آپ ببل کھائیں گی؟
 
"ہاں کیوں نہیں"کا جواب پاکر اس نے ننھے ہاتھوں سے ببل آگے بڑھائی اور ھدایات جاری کیں کہ 
"اس کو پورا نہیں کھانا,بس تھوڑا کھا کر تھوک دینا ہے. ڈسٹ بن میں ڈال دیجیے گا۔"
وہ کچن کے دروازے تک جا کر پھر پلٹ آئی اور بولی۔۔"اس کو پورا نہیں کھاتے,حلق میں نہیں لے جائیے گا نانی۔"
مجھے لگا "نانیاں" شائد بے وقوفی کا استعارہ ہیں۔
نانیوں کی "مورنیوں"کو "مور" لے جاتے ہیں۔۔
کچھ بے چاری نانیوں کا واسطہ کالے چوروں سے بھی پڑتا ہے۔

ہمارے بچے بھی اپنی نانی کو شائد ناسمجھ سمجھتے تھے۔
بات کا آغاز ہی یوں کرتے تھے ۔۔
"نانی آپ کو پتہ نہیں ہے...۔میں آپ کو بتاتی ہوں۔
نانی آپ کو بتایا تھا آپ بھول کیوں جاتی ہیں؟"
ہم بھی اپنی نانی کو "پچھلے زمانے" کا ہی سمجھتے تھے۔
جب ہم نانی کو بتاتے کہ آج ہم نے اسکول کی اسمبلی میں فلاں موضوع پر تقریر کی تو ذھن میں یہی ہوتا کہ نانی کو کیا پتہ کہ اسٹیج پر تقریر کیسے کرتے ہیں؟
آج کے بچے سوچتے ہیں کہ نانی کو کیا پتہ کہ ٹوئٹر پر ایک سو چالیس لفظوں میں پیغام لکھا جاتا ہے۔اس کو پن کیسے کیا جاتا ہے۔

نانی دادی نے اپنا زمانہ برتا ہوتا ہے اور ہر عہد "عہد حاضر" ہی ہوتا ہے۔
بہت خوش نصیب ہیں وہ بچے جنھیں دادی دادا اور نانی نانا کی "اکیڈمی" میسر آجائے۔
وہ پرورش الگ ہی پراعتماد ماحول میں ہوتی ہے۔
ماں باپ زیادہ عقل مند ہوتے ہیں مگر "تجربہ" عموماً گھوڑے کی طرح گاڑی کے آگے ہی لگتا ہے۔
 دیار غیر کے اکثر بچے اس "اکیڈمی" سے محروم ہیں۔
مگر اصل محروم وہ ہیں جو اپنے معمولی اختلاف کی بدولت بچوں کو ان صحبتوں سے محروم کردیتے ہیں۔
ساس بہو میں اختلاف ہو تو بہو بیگم نہیں چاھتیں کہ بچوں پر دادی کا سایہ بھی پڑے۔
نند بھاوج کی نہ بنتی ہو تو میکہ آنا جانا بند کردیا جاتا ہے۔نانی نانا نواسی نواسوں کو ترس جاتے ہیں۔
بیویوں میں نہ بنی اپنے اپنے گھر الگ ہوگئے۔
 والدین کسی ایک کے "حصہ" میں آگئے اب جو بیٹا بہو الگ رہتے ہیں وہ بچوں کو دادی دادا سے ملانے کی زحمت کیوں کرین۔
اب تو وڈیو کالز اس کا متبادل سمجھ لیے جاتے ہیں۔
 نوجوان نسل پچھلی نسل کو "مینٹور"کا درجہ دینے پر کم ہی آمادہ دکھائی دیتی ہے۔
گھر کے بڑوں کا کردار جب نوجوان محدود کردیتے ہیں تو حقیقتاً ان کا دنیا سے دل اُچاٹ ہوجاتا ہے۔
آج سماج کے کتنے گھروں میں گھر کا خرچ والدین کے ہاتھ میں دیا جاتا ہے۔دادا پوتوں کا ہاتھ تھام کر گراسری کرتے ہیں۔
دادی پوتی کے ساتھ مل کر راشن کی لسٹ بنائیں اور یو ٹیوب سے سرچ کریں کہ آج بھرے ٹنڈے کیسے بنانے ہیں یا بینگن کو "حیدرآبادی" بنانے کے لیے کون سے مصالحہ جات درکار ہیں؟
گھر میں بہو ساس سے بے وجہ ہی پوچھ پوچھ کر ہانڈی بنائے اور ذائقہ کا کریڈٹ ساس کو دیدے۔
دسترخوان پر بچوں سے کہے کہ کھانا بنانا تو میں نے تمہاری دادی سے سیکھا ہے۔
 امی جان کے کھانوں جیسا ذائقہ تو ہمارے میکہ کے کھانوں میں ہے ہی نہیں۔
ایسی خواتین سے بھی آپ کا واسطہ پڑا ہوگا جو بچوں کے سںامنے منہ بھر بھر ان کی ددھیال پر طعن کرتی ہیں اور ایسے مرد بھی پائے جاتے ہیں جو بیویوں کو میکہ کو صلواتیں بچوں کے سامنے سناتے ہیں۔
ہم نے اپنے بڑوں کے کردار کو نظر انداز کرکے اپنے خاندانی نظام کو کمزور کیا ہے۔
بڑوں کے اختلاف معصوم کچے ذھنوں کو منفی کر دیتے ہیں۔
 اپنے بچوں کو دنیا مثبت انداز میں دیکھنے دیں۔۔
ہر بچہ معصوم اور فطرت سلیم پر پیدا ہوا ہے۔
"پیرنٹگ" کسی مصنوعی ماحول اور طریقے کی محتاج نہیں ہے۔

زینب نانی کو سکھاتی کتنی اچھی لگتی ہے کہ ۔۔۔ببل کو کھانا نہیں ہوتا تھوکنا ہوتا ہے۔۔۔
افشاں نوید