Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

اللہ وہ ہے تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے

۔ ┈ •• ❃⊰ (سورة الرَّعْد : ٢) ⊱ ❃ •• ┈  ۔ ؛•‍ ━━ ••• ◆◉ ﷽ ◉◆ •••‍ ━━ •؛   📖 ارشاد باری تعالیٰ ﷻ : اَللّٰہُ الَّذِیۡ رَفَعَ الس...




۔ ••❃⊰ (سورة الرَّعْد : ٢) ••

 ۔ ؛•‍━━•••◆◉◉◆•••‍━━•؛

 

📖 ارشاد باری تعالیٰ ﷻ :

اَللّٰہُ الَّذِیۡ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیۡرِ عَمَدٍ تَرَوۡنَہَا ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ وَ سَخَّرَ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ ؕ کُلٌّ یَّجۡرِیۡ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ یُدَبِّرُ الۡاَمۡرَ یُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ لَعَلَّکُمۡ بِلِقَآءِ رَبِّکُمۡ تُوۡقِنُوۡنَ ﴿۲﴾

 

📚 ترجمہ :

اللہ وہ ہے جس نے ایسے ستونوں کے بغیر آسمانوں کو بلند کیا جو تمہیں نظر نہ آ سکیں ، پھر اس نے عرش پر استواء فرمایا ، اور سورج اور چاند کو کام پر لگا دیا ۔ ہر چیز ایک معین میعاد تک کے لیے رواں دواں ہے ۔ وہی تمام کاموں کی تدبیر کرتا ہے ۔ وہی ان نشانیوں کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے ، تاکہ تم اس بات کا یقین کر لو کہ ( ایک دن ) تمہیں اپنے پروردگار سے جا ملنا ہے ۔

 

تفسیر :

یعنی یہ آسمان ایسے ستونوں پر نہیں کھڑے ہیں جو آنکھوں سے نظر آ سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ ہی کے سہارے انہیں کھڑا کیا ہوا ہے۔ آیت کی یہ تفسیر حضرت مجاہدؒ سے مروی ہے (روح المعانی 110:13)

 ’’استواء‘‘ کے لفظی معنیٰ سیدھا ہونے، قابو پانے اور بیٹھ جانے کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مخلوقات کی طرح نہیں ہیں، اس لئے اُن کا اِستواء بھی مخلوقات جیسا نہیں۔ اس کی ٹھیک ٹھیک کیفیت اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اس لئے اس لفظ کا اُردو میں ترجمہ کرنے کے بجائے اسی لفظ کو برقرار رکھا گیا ہے، کیونکہ ہمارے لئے اتنا ایمان رکھنا کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عرش پر اس طرح کا اِستواء فرمایا، جو اُن کی شان کے لائق ہے۔ اس سے زیادہ کسی بحث میں پڑنے کی نہ ضرورت ہے، نہ ہماری محدود عقل اس کا احاطہ کر سکتی ہے۔ اور

 اشارہ اس طرف ہے کہ یہ چاند سورج بے مقصد گردش نہیں کر رہے ہیں، ان کے سپرد ایک کام ہے جو وہ انتہائی نظم و ضبط اور استقامت کے ساتھ اس طرح انجام دیئے جا رہے ہیں کہ اُن کے نظام الاوقات میں ایک لمحے کا بھی فرق نہیں آتا۔ اگر غور کیا جائے تو ان کے سپرد پوری دُنیا کی خدمت ہے۔ لہٰذا ایک ہوش مند اِنسان کو یہ سوچنا چاہیئے کہ یہ عظیم الشان مخلوقات اُس کی خدمت کیوں انجام دے رہی ہیں؟ اگر خود اُس کے سپرد کوئی بڑی خدمت نہیں ہے تو چاند سورج کو کیا ضرورت ہے کہ وہ مستقل طور پر اِنسان کی خدمت انجام دیں؟

 اور فرمایا کہ آخرت کا یقین پیدا کر لو۔ اور وہ اس طرح کہ جس ذات نے اتنی حیرت انگیز کائنات پیدا فرمائی ہے۔ وہ اس بات پر کیوں قادر نہیں ہو سکتی کہ اِنسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر دے۔ نیز اس کی حکمت اور انصاف سے بعید ہے کہ وہ اچھے اور بُرے، ظالم اور مظلوم دونوں کے ساتھ ایک جیسا معاملہ کرے، اور اُس نے اِس دُنیا کے بعد کوئی ایسا عالم پیدا نہ کیا ہو جس میں نیک لوگوں کو اُن کی نیکی کا اچھا بدلہ اور بُرائی کرنے والوں کو اُن کی بُرائی کی سزا دی جا سکے۔

 

اللّٰہ تعالٰی ہمیں قرآن پاک کو پڑھنے، سمجھنے، غور کرنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

🔰WJS🔰