Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

تلاوت قرآن کے وقت آپ کی نیت کیا ہوتی ہے؟

  پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:"إنما الأعمال بالنيات وإنما لكل امرئ ما نوى " (صحیح بخاری حدیث نمبر 1) تمام اعمال...


 

پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:"إنما الأعمال بالنيات وإنما لكل امرئ ما نوى " (صحیح بخاری حدیث نمبر 1)

تمام اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہوتا ہے اور بندے کو وہی ملتا ہے جس کی وہ نیت کرتا ہے۔

 

 نیتیں بڑی رکھنا یہ صحابہ کرام اور اللہ والے علمائے کرام کی نفع بخش تجارت رہی ہیں۔ وہ کوئی ایک عمل کرتے تھے اس میں ان کی متعدد نیتیں ہوتی تھیں تاکہ انہیں ہر نیت پر عظیم اجر وثواب حاصل ہو۔

 

🌹ابن کثیررحمہ اللہ فرماتے ہیں: [النية أبلغ من العمل] نیت عمل سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔

 

🌹ذیل میں بطور مثال کچھ نیتیں ذکر کی جارہی ہیں جنہیں تلاوت قرآن کے وقت یاد رکھنا بہتر ہوگا:

 

(1) تلاوت قرآن کے وقت ہماری دعا ہو کہ اللہ تعالی قرآن کو ہمارے لئے سفارش کا سبب بنا دے کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: "إقرأوا القرآن فإنه يأتي يوم القيامة شفيعا لأصحابه"   (صحیح مسلم حدیث نمبر 804)

قرآن پڑھو کیونکہ قرآن اپنے پڑھنے والوں کے لیے قیامت کے دن سفارشی بن کر آئے گا۔

 

(2) تلاوت قرآن کے ذریعے زیادہ سے زیادہ نیکیاں حاصل کرنا مقصود ہو۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: "من قرأ حرفا من كتاب الله فله به حسنة والحسنة بعشر أمثالها ..."( سنن ترمذی حدیث نمبر 2910)

جس نے قرآن کریم کا ایک حرف پڑھا اس کے لیے اس کے بدلے دس نیکیاں ہیں۔

 

(3) تلاوت قرآن سے مقصود جہنم سے نجات ہو۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

لو جمع القرآن في إهاب ما أحرقه الله بالنار. " رواه البيهقي و صححه الألباني

اگر قرآن کو کسی چمڑے میں جمع دیا جائے تو اللہ تعالی اسے آگ سے نہیں جلائے گا۔

 

(4)  تلاوت قرآن کا مقصد تاکہ دل کلام الہی سے معمور رہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: "الرجل الذي ليس في جوفه شئ من القرآن كالبيت الخرب" ( سنن الترمذي حدیث نمبر 2913)

 کہ جس شخص کے سینے میں قرآن کا کچھ بھی حصہ نہ ہو وہ دل ویران گھر کی طرح ہوتا ہے۔

 

(5) تلاوت قرآن کے وقت ہر آیت پر عمل کرنے کی نیت ہو تاکہ جنت میں بلند درجات حاصل ہوں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

"يقال لقارئ القرآن أقرأ وارق ورتل كما كنت ترتل في الدنيا فإن منزلتك عند أخر آية تقرأها" (سنن أبو داود 1464)

بروز قیامت قرآن کے قاری سے کہا جائے گا پڑھتے جاؤ چڑھتے جاؤ اور ٹھہر ٹھہر کر عمدگی کے ساتھ پڑھو جس طرح تم دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے تھے۔ تمہاری منزل وہیں ہوگی جہاں تم آخری آیت پڑھو گے۔

 

(6) تلاوت قرآن کا مقصد ہو کہ ہمارے دلوں کے امراض اور جسمانی بیماریوں کو شفا ملے اور رحمت الہی کے نزول کا سبب بنے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے: (وننزل من القرآن ما هو شفاء ورحمة) الإسراء82

ہم قرآن نازل کرتے ہیں جس میں شفا بھی ہے اور رحمت بھی۔

 

(7) تلاوت قرآن کا مقصد ہو کہ ہمارے دلوں کو سکون و اطمینان حاصل ہو۔ کیونکہ ذکر الٰہی سے دلوں کو سکون ملتا ہے (ألا بذكر الله تطمئن القلوب) الرعد28

 

(8)  تلاوت قرآن کے وقت ہماری نیت ہو کہ اس قرآن سے ہمارے دلوں کو زندگی، ہماری آنکھوں کو روشنی ملتی ہے اور ہمارے رنج و غم کا مداوا ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ قرآن مومنین کے لئے موسم بہار کی طرح ہے جس طرح زمین کے لئے بارش۔ اسی لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے: (... أن تجعل القرآن ربيع قلبي ونور صدري ونور بصري جلاء حزني وذهاب همي) مسند أحمد 3528  صححه الألباني في السلسلة الصحيحة (199) 

اے اللہ! تو قرآن کو میرے دل کی بہار، میرے سینے کا نور، میرے غم کو دور کرنے والا، اور میری پریشانی کو لے جانے والا بنا دے۔

 

(9) تلاوت کے وقت ہماری نیت ہو کہ قرآن ہدایت کا سبب ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے : (ذلك الكتاب لا ريب فيه هدى للمتقين) البقرة 2

یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی شک و شبے کی گنجائش نہیں متقیوں کے لیے لیے ہدایت ہے۔

 

اور حدیث قدسی ہے "ياعبادي كلكم ضال آلا من هديته فاستهدوني أهدكم" (رواه مسلم 257)

اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو سوائے اس کے جس کو میں ہدایت دوں۔ لہذا مجھ سے ہدایت طلب کرو میں تمہیں ہدایت دونگا۔

 

(10) تلاوت اس نیت سے کریں کہ ہمارا خاتمہ قرآن پر ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالی نے عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو شہادت سے سرفراز کیا جب وہ قرآن پڑھ رہے تھے۔ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جو جیسی زندگی گزارتا ہے اسی پر اس کی موت ہوتی ہے اور جس حالت پر موت ہوتی ہے اسے اسی حالت میں دوبارہ زندہ اٹھایا جائے گا۔ انھوں نے اس آیت کریمہ سے استدلال کیا (أم حسب اللذين اجترحوا السيئات أن نجعلهم كالذين آمنوا وعملوا الصالحات سواء محياهم ومماتهم ساء مايحكمون)) الجاثية21

 

(11) ہم قرآن پڑھیں اس لیے کہ کلام الہی سے  محبت کے نتیجے میں ہمیں اللہ کا قرب حاصل ہو۔ حدیث میں آتا ہے "إنك مع من أحببت"( صحیح مسلم 2639)

 کہ تم اس کے ساتھ رہو گے جس سے تم محبت کرتے ہو۔ 

 

(12) ہم تلاوت کریں اس نیت سے کہ  یہ ایمان میں  زیادتی اور اضافے کا باعث ہے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے : (( وإذا ماأنزلت سورة فمنهم من يقول أيكم زادته هذه إيمانا فأما اللذين آمنوا فزادتهم إيمانا وهم يستبشرون)) التوبة 124

 

(13) تلاوت قرآن کے وقت ہماری ایک نیت یہ بھی ہونی چاہیے کہ اس کے ذریعے ہمیں اپنے رب کے بارے میں مزید علم و معرفت حاصل ہو تاکہ ہمارے اندر اللہ کے لیے مزید عاجزی اور انکساری پیدا ہو اور ہر وقت اور ہر لمحہ اللہ کے محتاج اور اس سے مدد د کے طالب ہوں۔

 

(14) تلاوت قرآن کے وقت ہمیں اللہ سے اس کے فضل عظیم کا طالب ہونا چاہیے  کہ اس تلاوت کے بدلے اللہ تعالی ہمیں  اپنے خاص بندوں میں شامل فرما لے جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں  "إن لله أهلين من الناس" ، قالوا: من هم يارسول الله؟ قال: "هم أهل القرآن ، أهل الله وخاصته" ( ابن ماجه 215 و صححه الألباني)

کہ لوگوں میں سے کچھ لوگ  اللہ والے ہیں۔ لوگوں نے پوچھا رسول اللہ! وہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا: وہ قرآن والے ہیں۔

 

(15) اور سب سےاہم اور عظیم نیت یہ ہو کہ ہم تلاوت قرآن کے ذریعے اللہ کی عبادت کرتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ((ورتل القرآن ترتيلا)) المزمل4

 

🌹اللہ تعالی ہمیں قرآن کریم کی تلاوت کا پابند بنائے نیز اسے سمجھ کر پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔