Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

واقعہ - خبر کی تحقیق

 ارشاد باری تعالیٰ ﷻ یٰۤاَیُّہَا  الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا  اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا  اَنۡ  تُصِیۡبُ...





 ارشاد باری تعالیٰ ﷻ

یٰۤاَیُّہَا  الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا  اِنۡ جَآءَکُمۡ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوۡۤا  اَنۡ  تُصِیۡبُوۡا قَوۡمًۢا بِجَہَالَۃٍ  فَتُصۡبِحُوۡا عَلٰی مَا فَعَلۡتُمۡ نٰدِمِیۡنَ- سُوۡرَۃٌ الْحُجُرٰت:٦


📚 ترجمہ :

اے ایمان والو ! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے ، تو اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نادانی سے کچھ لوگوں کو نقصان پہنچا بیٹھو ، اور پھر اپنے کئے پر پچھتاؤ ۔

✍ تفسیر :

اس آیت میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہ ہدایت فرما رہا ہے کہ اگر کوئی فاسق اور بدکار تمہارے پاس کوئی اہم خبر لے آئے تو اس کو فوراً قبول نہ کیا کرو۔ ہو سکتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہو اور تم اس کی جھوٹی خبر سے مشتعل ہو کر کوئی ایسی کاروائی کر بیٹھو جس پر خوفناک نتائج مرتب ہوں اور پھر تم ساری عمر فرطِ ندامت سے کفِ افسوس ملتے رہو۔
 اسی آیت کو دلیل بنا کر بعض محدثین کرام نے اس شخص کی روایت کو بھی غیر معتبر بتایا ہے جس کا حال نہ معلوم ہو۔ اس لئے کہ بہت ممکن ہے یہ شخص فی الواقع فاسق ہو گو بعض لوگوں نے ایسے مجہول الحال راویوں کی روایت لی بھی ہے، اور انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں فاسق کی خبر قبول کرنے سے منع کیا گیا ہے اور جس کا حال معلوم نہیں اس کا فاسق ہونا ہم پر ظاہر نہیں۔

مفسرین کرام نے فرمایا ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ بن ابو معیط کے بارے میں نازل ہوئی ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں قبیلہ بنو مصطلق سے زکوٰۃ لینے کے لئے بھیجا تھا۔ چناچہ مسند احمد میں ہے حضرت حارث بن ضرار خزاعی جو ام المومنین حضرت جویریہؓ کے والد ہیں فرماتے ہیں میں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے مجھے اسلام کی دعوت دی جو میں نے منظور کر لی اور مسلمان ہو گیا۔ پھر آپ نے زکوٰۃ کی فرضیت سنائی میں نے اس کا بھی اقرار کیا اور کہا کہ میں واپس اپنی قوم میں جاتا ہوں اور ان میں سے جو ایمان لائیں اور زکوٰۃ ادا کریں میں انکی زکوٰۃ جمع کرتا ہوں، اتنے دنوں کے بعد آپ میری طرف کسی آدمی کو بھیج دیجیئے میں اس کے ہاتھ جمع شدہ مالِ زکوٰۃ آپ کی خدمت میں بھجوا دوں گا۔ 

حضرت حارث نے واپس آ کر یہی کیا مال زکوٰۃ جمع کیا، جب وقت مقررہ گذر چکا اور حضور ﷺ کی طرف سے کوئی قاصد نہ آیا تو آپ نے اپنی قوم کے سرداروں کو جمع کیا اور ان سے کہا یہ تو ناممکن ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ اپنے وعدے کے مطابق اپنا کوئی آدمی نہ بھیجیں، مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں کسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ ہم سے ناراض نہ ہو گئے ہوں؟ اور اس بنا پر آپ نے اپنا کوئی قاصد مالِ زکوٰۃ لے جانے کے لئے نہ بھیجا ہو، اگر آپ لوگ متفق ہوں تو ہم اس مال کو لے کر خود ہی مدینہ شریف چلیں اور حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیں۔ یہ تجویز طے ہو گئی اور یہ حضرات اپنا مالاِ زکوٰۃ ساتھ لے کر چل کھڑے ہوئے 

ادھر سے رسول اللہ ﷺ ولید بن عقبہ کو اپنا قاصد بنا کر بھیج چکے تھے۔ زمانۂ جاہلیت میں ولید کے ذمہ ان کا ایک قتل تھا، اسے خدشہ ہوا کہ مبادا وہ اسے قتل کر دیں۔ وہ راستہ سے لوٹ آئے اور یہاں آ کر خبر دی کہ حارث نے زکوٰۃ بھی روک لی اور میرے قتل کے در پے ہو گیا۔ مشکل سے جان بچا کر یہاں پہنچا ہوں۔

 اس پر آنحضرت ﷺ ناراض ہوئے اور کچھ آدمی تنبیہہ کے لئے روانہ فرمائے، مدینہ کے قریب راستے ہی میں اس مختصر سے لشکر نے حضرت حارثؓ کو پا لیا اور گھیر لیا۔ حضرت حارثؓ نے پوچھا آخر کیا بات ہے؟ تم کہاں اور کس کے پاس جا رہے ہو؟ انہوں نے کہا ہم تیری طرف بھیجے گئے ہیں پوچھا کیوں؟ کہا اس لئے کہ تو نے حضور ﷺ کے قاصد ولید کو زکوٰۃ نہ دی بلکہ انہیں قتل کرنا چاہا۔ حضرت حارثؓ نے کہا؛ قسم ہے اس اللہ کی جس نے محمد ﷺ کو سچا رسول بنا کر بھیجا ہے، نہ میں نے اسے دیکھا نہ وہ میرے پاس آیا۔ چلو میں تو خود حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو رہا ہوں۔ یہاں آئے تو حضور ﷺ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تو نے زکوٰۃ بھی روک لی اور میرے آدمی کو بھی قتل کرنا چاہا۔ آپ نے جواب دیا ہرگز نہیں یارسول اللہ (ﷺ) قسم ہے اللہ کی جس نے آپ کو سچا رسول بنا کر بھیجا ہے، نہ میں نے انہیں دیکھا نہ وہ میرے پاس آئے۔ بلکہ قاصد کو نہ دیکھ کر اس ڈر کے مارے کہ کہیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (ﷺ) مجھ سے ناراض نہ ہو گئے ہوں اور اسی وجہ سے قاصد نہ بھیجا ہو میں خود حاضر خدمت ہوا۔

 اس پر یہ آیت (حکیم) تک نازل ہوئی طبرانی میں یہ بھی ہے کہ جب حضور ﷺ کا قاصد حضرت حارثؓ کی بستی کے پاس پہنچا تو یہ لوگ خوش ہو کر اس کے استقبال کیلئے خاص تیاری کر کے نکلے ادھر ان کے دل میں یہ شیطانی خیال پیدا ہوا کہ یہ لوگ مجھ سے لڑنے کے لئے آ رہے ہیں تو یہ لوٹ کر واپس چلے آئے۔ انہوں نے جب یہ دیکھا کہ آپ کے قاصد واپس چلے گئے تو خود ہی حاضر ہوئے اور ظہر کی نماز کے بعد صف بستہ کھڑے ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ آپ نے زکوٰۃ وصول کرنے کے لئے اپنے آدمی کو بھیجا، ہماری آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں، ہم بیحد خوش ہوئے۔ لیکن اللہ جانے کیا ہوا کہ وہ راستے سے ہی لوٹ گئے تو اس خوف سے کہ کہیں اللہ ہم سے ناراض نہ ہو گیا ہو ہم حاضر ہوئے ہیں، اسی طرح وہ عذر معذرت کرتے رہے۔
عصر کی اذان جب حضرت بلالؓ نے دی اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔
ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت ولیدؓ کی اس خبر پر ابھی حضور ﷺ سوچ ہی رہے تھے کہ کچھ آدمی ان کی طرف بھیجیں جو ان کا وفد آ گیا اور انہوں نے کہا آپ کا قاصد آدھے راستے سے ہی لوٹ گیا تو ہم نے خیال کیا کہ آپ نے کسی ناراضگی کی بناء پر انہیں واپسی کا حکم بھیج دیا ہو گا، اس لئے حاضر ہوئے ہیں، ہم اللہ کے غصے سے اور آپ کی ناراضگی سے اللہ کی پناہ چاہتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری اور اس کا عذر سچا بتایا۔
ایک اور روایت میں ہے کہ قاصد نے یہ بھی کہا تھا کہ ان لوگوں نے تو آپ سے لڑنے کے لئے لشکر جمع کر لیا ہے اور اسلام سے مرتد ہو گئے ہیں۔ چناچہ حضور ﷺ نے حضرت خالدؓ بن ولید کی زیرِ امارت ایک فوجی دستے کو بھیج دیا۔ لیکن انہیں فرما دیا تھا کہ پہلے تحقیق و تفتیش اچھی طرح کر لینا، جلدی سے حملہ نہ کر دینا۔ اسی کے مطابق حضرت خالدؓ نے وہاں پہنچ کر اپنے جاسوس شہر میں بھیج دیئے، وہ خبر لائے کہ وہ لوگ دینِ اسلام پر قائم ہیں۔ مسجد میں اذانیں ہوئیں، جنہیں ہم نے خود سنا اور لوگوں کو نماز پڑھتے ہوئے خود دیکھا۔ صبح ہوتے ہی حضرت خالدؓ خود گئے اور وہاں کے اسلامی منظر سے خوش ہوئے۔ واپس آ کر سرکار نبوی ﷺ میں ساری خبر دی۔ اس پر یہ آیت اتری۔

حضرت قتادہؓ جو اس واقعہ کو بیان کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ تحقیق و تلاش بردباری اور دور بینی اللہ کی طرف سے ہے۔ اور عجلت اور جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔ سلف میں سے حضرت قتادہؓ کے علاوہ اور بھی بہت سے حضرات نے یہی ذکر کیا ہے۔ جیسے ابن ابی لیلیٰ ، یزید بن رومان، ضحاک، مقاتل بن حیان وغیرہ۔ ان سب کا بیان ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے واللہ اعلم۔

 اس نازک موقع پر جبکہ ایک بے بنیاد خبر پر اعتماد کر لینے کی وجہ سے ایک عظیم غلطی ہوتے ہوتے رہ گئی۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ اصولی ہدایت دی کہ جب کوئی اہمیت رکھنے والی خبر ، جس پر کوئی بڑا نتیجہ مترتب ہوتا ہو ، تمہیں ملے تو اس کو قبول کرنے سے پہلے یہ دیکھ لو کہ خبر لانے والا کیسا آدمی ہے ۔ اگر وہ کوئی فاسق شخص ہو ، یعنی جس کا ظاہر حال یہ بتا رہا ہو کہ اس کی بات اعتماد کے لائق نہیں ہے ، تو اس کی دی ہوئی خبر پر عمل کرنے سے پہلے تحقیق کر لو کہ امر واقعہ کیا ہے ۔ اس حکمِ ربانی سے ایک اہم شرعی قاعدہ نکلتا ہے جس کا دائرہ اطلاق بہت وسیع ہے ۔ اس کی رو سے مسلمانوں کی حکومت کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ کسی شخص یا گروہ یا قوم کے خلاف کوئی کاروائی ایسے مخبروں کی دی ہوئی خبروں کی بناء پر کر ڈالے جن کی سیرت بھروسے کے لائق نہ ہو ۔ اسی قاعدے کی بناء پر محدثین نے علم حدیث میں جرح و تعدیل کا فن ایجاد کیا تاکہ ان لوگوں کے حالات کی تحقیق کریں جن کے ذریعہ سے بعد کی نسلوں کو نبی کریم ﷺ کی احادیث پہنچی تھیں ، اور فقہاء نے قانونِ شہادت میں یہ اصول قائم کیا کہ کسی ایسے معاملہ میں جس سے کوئی شرعی حکم ثابت ہوتا ہو ، یا کسی انسان پر کوئی حق عائد ہوتا ہو ، فاسق کی گواہی قابلِ قبول نہیں ہے ۔ البتہ اس امر پر اہلِ علم کا اتفاق ہے کہ عام دنیوی معاملات میں ہر خبر کی تحقیق اور خبر لانے والے کے لائق اعتماد ہونے کا اطمینان کرنا ضروری نہیں ہے۔ کیونکہ آیت میں لفظ نَبَأ استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق ہر خبر پر نہیں ہوتا بلکہ اہمیت رکھنے والی خبر پر ہوتا ہے۔ اس لئے فقہاء کہتے ہیں کہ عام معاملات میں یہ قاعدہ جاری نہیں ہوتا ۔ مثلاً آپ کسی کے ہاں جاتے ہیں اور گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرتے ہیں ۔ اندر سے کوئی آ کر کہتا ہے کہ آ جاؤ ۔ آپ اس کے کہنے پر اندر جا سکتے ہیں، قطع نظر اس سے کہ صاحبِ خانہ کی طرف سے اِذن کی اطلاع دینے والا فاسق ہو یا صالح ۔ اسی طرح اہلِ علم کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ جن لوگوں کا فسق جھوٹ اور بد کرداری کی نوعیت کا نہ ہو ، بلکہ فساد عقیدہ کی بنا پر وہ فاسق قرار پاتے ہوں ، ان کی شہادت بھی قبول کی جا سکتی ہے اور روایت بھی ۔ محض ان کے عقیدے کی خرابی ان کی شہادت یا روایت قبول کرنے میں مانع نہیں ہے ۔

ﷲ رب العزت ہمیں قرآنِ پاک پڑھنے، سمجھنے آور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ۔
🔰WJS🔰