Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

پاگل خانے میں

ان دنوں میرا زیادہ وقت پاگل خانے میں گزرتا تھا‘ لاہور میں پاگلوں کے دو بڑے ڈاکٹر میرے دوست تھے‘ میں جب بھی فارغ ہوتا تھا میں ان کے پ...



ان دنوں میرا زیادہ وقت پاگل خانے میں گزرتا تھا‘ لاہور میں پاگلوں کے دو بڑے ڈاکٹر میرے دوست تھے‘ میں جب بھی فارغ ہوتا تھا میں ان کے پاس چلا جاتا تھا اور وہ بڑے بڑے شاندار پاگلوں کے ساتھ میری ملاقات کرواتے تھے


 ڈاکٹر رشید چودھری ایلیٹ فیملیز اور پڑھے لکھے پاگلوں کے ڈاکٹر تھے‘ میں ایک دن ان کے دفتر گیا تو وہاں ایک نہایت پڑھا لکھا اوررئیس پاگل بیٹھا تھا‘ پاگل نے قیمتی اطالوی سوٹ پہن رکھا تھا‘مہنگی خوشبو لگا رکھی تھی اور انگلیوں میں کیوبا کا سگار دبا رکھا تھا‘ کمرے سے سگار کی بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی اور پڑھا لکھا پاگل نہایت انہماک کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کو پنجابی‘ اردو اور انگریزی تین زبانوں میں ماں بہن کی گالیاں دے رہا تھا ‘ ڈاکٹر صاحب بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ گالیاں سن رہے تھے‘ جب پاگل تھک گیا تو ڈاکٹر صاحب نے اشارہ کیا اور عملہ پاگل کو کرسی سمیت اٹھا کر لے گیا‘ میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا ”سر آپ کو یہ غلیظ گالیاں سن کر غصہ کیوں نہیں آ رہا تھا“ ڈاکٹر صاحب نے ہنس کر جواب دیا ”کیونکہ میں جانتا ہوں یہ پاگل ہے اور اگر آپ کو پاگلوں کی بات پر غصہ آ جائے تو اس کا مطلب ہوتا ہے آپ ان سے بڑے پاگل ہیں“ 

میں نے اس دن یہ بات پلے باندھ لی‘ ہم اگر نارمل ہیں تو پھر ہمیں پاگلوں کی باتوں پر جذباتی نہیں ہونا چاہیے‘ ہمیں پاگلوں کی گالیاں بھی اطمینان سے سن لینی چاہئیں چنانچہ میں جب بھی کسی مشکل صورت حال کا شکار ہوتا ہوں‘ مجھے جب کوئی پاگل ٹکر جاتا ہے تو مجھے ڈاکٹر رشید چودھری یاد آ جاتے ہیں‘ میں پاگل سے معافی مانگتا ہوں‘ اپنا جرم‘ گناہ اور غلطی تسلیم کرتا ہوں اور آگے چل پڑتا ہوں‘ میں پاگل کے ساتھ ڈائیلاگ یا آرگومنٹ کی غلطی نہیں کرتا‘ میں جس دن یہ غلطی کر بیٹھوں میں اس دن نیند کی گولی کے بغیر سو نہیں پاتا‘