Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

شادی کے بارے میں ہدایت

ابو مطیع اللہ حنفی  نکاح ایمان بچانے اور جنسی و جسمانی تسکین کا ایک پسندیدہ طریقہ ہے جیسے کوئی بھی انسان بھوکا نہیں رہ سکتا،...




ابو مطیع اللہ حنفی 

نکاح ایمان بچانے اور جنسی و جسمانی تسکین کا ایک پسندیدہ طریقہ ہے جیسے کوئی بھی انسان بھوکا نہیں رہ سکتا،اسی طرح اپنی جنسی وجسمانی بھوک کی تسکین کیلئے مرد کو عورت اور عورت کو مرد کی ضرورت ہے۔ اس لئے شادی شدہ عورت کے جسم کا حق ہے کہ اس سے صحبت کی جائے۔ اسلئے مرد اگر”نامرد“ ہے تو ماں باپ کے کہنے پر بھی کسی عورت سے ”نکاح“ کر کے اُس کی زندگی برباد نہ کرے کیونکہ نکاح کا مطلب عورت اور مرد کی جسمانی خواہش کا پورا ہونا۔

1۔  دین اسلام کے مطابق نکاح کو ناکام ہونے سے بچانے کیلئے،  دو خاندانوں کے بڑوں سمیت لڑکا اور لڑکی کی عقل کا امتحان ہے کہ یہ جان سکیں کہ لڑکے اور لڑکی کے عادات و اطوار، کھانا پینااور پہننا کیسا ہے،کیا لڑکا اُس کو اُسی طریقے سے کھلا اور پہناسکتا ہے اور لڑکی اُس کے ساتھ اُسی طرح گذارہ کرسکے گی یا نہیں۔ لڑکا لڑکی اگر کسی کوپسند کرتے ہیں یا والدین ان کے لئے کسی کو پسند کرتے ہیں توآپس میں جذباتی ہو کر لڑنے کی بجائے افہام و تفہیم سے دلائل دے کر مسئلہ کا حل نکالیں۔

 ایسابھی ہوا ہے کہ محبت کی شادی تو ہو گئی مگر لڑکا بعد میں معاشرے کے طعنوں سے یا ذمہ داری سے بھاگ کر اپنے والدین کے پاس چلا گیا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی کہ اس ”ڈائن“ کے لئے گھر بار چھوڑا اور پھر لڑکی تنہارہ جاتی ہے، جس کا کوئی والی وارث نہیں ہوتا۔ 


- دینِ اسلام میں نکاح کے وقت باجا، ناچنا، اورڈھول بجانے کا کوئی تصور نہیں ہے لیکن معاشرتی اسلام میں اس کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
2۔ منگنی اور شادی کے بعد شب برات، معراج شریف یا عیدی کے نام پرایک دوسرے کو ”تحفہ“ دینا”رسومات“ میں شامل ہے، جن کا کرنا غریب پر بوجھ ہوتا ہے اس لئے ان رسموں کو نہ کیا جائے۔
3۔  سلامی زیادہ تر قرضے کے طور پر دی جاتی ہے اس لئے لکھی جاتی ہے اور بعض اوقات ایک دوسرے کو جتائی بھی جاتی ہے حالانکہ یہ مدد اللہ واسطے اپنی طاقت کے مطابق ہر ایک کو کرنی چاہئے۔
 4۔  نکاح کوئی بھی پڑھا سکتا ہے،مولوی صاحب پر پڑھانا لازمی نہیں ہے مگر نکاح خواں کوگورنمنٹ نے چار کاغذ دئے ہوتے ہیں جس میں لڑکا، لڑکی اورگواہوں کا نام، حق مہر وغیرہ تحریر کیا جاتا ہے تاکہ بعد میں کوئی جھوٹ نہ بولے۔اس میں سے ایک کاغذ لڑکا، دوسرا لڑکی، تیسرا نکاح خواں اور چوتھا لڑکی کے گھر کے پاس جو یونین کونسل کا دفتر ہے اس کے ریکارڈ میں رکھا جاتا ہے۔ نکاح کے بعد اپنا اپنا کاغذنکاح خواں سے لڑکے اور لڑکی کو ضرور لینا چاہئے ورنہ بعد میں بہت پریشانی بھی ہو سکتی ہے۔
5۔  بارات کا کوئی تصور نہیں ہے لیکن نکاح کے وقت کم از کم 2 گواہ ضرور ہونے چاہئیں اور نکاح کے وقت میں چھوہارے، مٹھائی  یا  بِد بانٹی جا سکتی ہے۔
6۔ ولیمہ رُخصتی کے بعد ہوتا ہے چاہے لڑکی کے ساتھ صحبت ہو یا نہ ہو، اس لئے رات گذار کر پہلے دن ولیمہ کرنا سنت، دوسرے دن جائز اور تیسرے دن ”ریاکاری“ میں آتا ہے اور کھانے میں سموسہ، برفی، پوپٹ بدانہ، چائے وغیرہ کچھ بھی کھلا سکتے ہیں مگر”قرضہ“ لےکر کھلانے کو پسند نہیں کیا گیا۔
7۔”وری“ یعنی سونایا کپڑے دینا، مرد کی طرف سے اور ”جہیز“عورت کی طرف سے سمجھا جاتا ہے حالانکہ لڑکی کے والدین کی ذمہ داری میں ”جہیز“نہیں صرف لڑکی دینا ہے۔ اگر پھر بھی لڑکا یا لڑکی کی طرف سے جہیز، وری یاانگوٹھی وغیرہ دی جائے توکاغذ پر لکھ کر دستخط کروا لیں کیونکہ اگرطلاق ہو جائے تو دونوں کو ایک دوسرے کی چیزیں مل جائیں۔ شریعت دین داری کے مطابق دنیاداری کرنا سکھاتی ہے۔

*نکاح کے بعد*


1۔  دین اسلام کے مطابق عورت کو کھلانا مرد کی ذمہ داری ہے، اس لئے کھانے کا سامان لا کر دے اور وہ پکا کر کھا لے اور اگر مرد کو  یا  اس کے گھر والوں کوبھی پکا کر کھلائے گی تو یہ اس کا ثواب ہو گا۔
2۔  دین اسلام کے مطابق مرد کے ذمّہ ہے کہ عورت کو رہنے کے لئے ایک ”مکان“ دے چاہے وہ کچا ہی ہو، ایک ہی کمرے کا ہو، جس میں شوہر کا کوئی رشتہ دار (بہن، بھابھی، جیٹھ،دیور،ماں، باپ)نہ رہتا ہوالبتہ اگر عورت سب کے ساتھ گذارہ کرنا چاہے تو ایک کمرہ اس کو دیا جائے، جس میں وہ خود رہے سہے، اپنا سامان، مال وغیرہ حفاظت سے رکھ سکے اور اس کی”تالا چابی“ بھی اپنے پاس رکھے، مرد کے علاوہ، مرد کے کسی اور رشتے دار کا اس کمرے میں بغیر عورت کی اجازت کے عمل دخل نہ ہو۔
 اسلئے دو خاندان کے بڑے مل کر سادگی سے نکاح کر لیں اور لڑکے اور لڑکی کو مکان لے کر دیں تو بہتر ہے۔اسی طرح اگر کسی غریب عورت کے نکاح پر پیسے لگانے ہوں تو ان کو زکوۃ، خیرات یا اپنی نیک کمائی سے گھر لے کر دیا جائے تو بہت بڑی نیکی ہے۔سادگی سے نکاح کو ”جنازہ“ کہا جاتا ہے لیکن ”جنازہ“تو ویسے بھی قرضہ پکڑ کر اکثر ”والدین“ کانکل گیا ہوتا ہے۔


*شرائطِ نکاح* 


1۔ دینِ اسلام میں ”نکاح“ کرنا بہت آسان کام ہے البتہ ایجاب و قبول اورگواہوں کے بغیر نکاح نہیں ہوتا اس لئے پہلی شرط جوان لڑکے اور لڑکی کا ایک دوسرے کو قبول کرنا ہے۔
2۔دوسری شرط کم از کم دو مرد کا گواہ ہونا ہے یا ایک مرد اور دو عورتیں، چاہے گواہ اجنبی ہوں اورنکاح  Court، Groundیا محفل میں ہو  البتہ اللہ کریم یا نبی کریمﷺ کو گواہ نہیں بنایا جا سکتا۔

*حق مہر کیا ہے؟*


٭ حق مہر کا مطلب ہے کہ عورت سے جسمانی فائدہ(صحبت) لینے سے پہلے مرد کوکم از کم دس درہم کی چاندی (30.618 گرام) کے پیسے عورت کو دینا اور زیادہ سے زیادہ مکان، زمین،سونا وغیرہ دینا، چاندی کاریٹ کم زیادہ ہوتا رہتا ہے آج کا ریٹ1868روپیہ ہے۔اگرمرد حق مہر نہیں دیتا تو عورت کو اختیارہے کہ اس کو اپنے ساتھ صحبت کرنے نہ دے۔
 ٭  جاہل عوام شرعی حق مہر32.50 روپیہ سمجھتی ہے حالانکہ حق مہرلڑکے والوں سے پوچھ کر نہیں رکھا جاتا بلکہ غریب عورت اپنی حیثیت اور مالدار عورت اپنی حیثیت کے مطابق رکھتی ہے اورحیثیت سے کم رکھنا یا طلاق سے بچنے کے لئے لاکھوں کا حق مہر لکھوا نا ٹھیک نہیں ہے بلکہ عورت کے خاندان میں جو رواج ہے اتنا رکھنا بہتر ہوتا ہے جسے مہر مثل کہاجاتا ہے۔
٭  حق مہر میاں بیوی کاشرعی مسئلہ ہے، جس کی اہمیت عورت کو بتائی نہیں جاتی، اس لئے کبھی وہ مرد کو معاف کر دیتی ہے اور کبھی مدرسہ، مسجد یا فقیر کو اللہ واسطے دے دیتی ہے۔حق مہر عورت کو کبھی معاف نہیں کرنا چاہئے بلکہ قسطوں میں لے لے اور مرد بھی دینے کے بعد عورت سے کاغذ پر دستخط کروا لے۔

*حق مہر کی اہمیت*


 دینِ اسلام عورت کوپیسہ بچانے، کام یاکاروبار کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ذاتی”جائیداد“ بنانے کا حق بھی دیتا ہے کیونکہ ہر رشتہ ”دھوکہ“دے سکتا ہے۔ اس لئے عورت کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے لئے ”دین“نے حل دیا ہے کہ باپ کی جائیداد میں سے حصہ، نکاح کے وقت شوہر سے حق مہر لینا اور کھانے کے لئے روزانہ یا ماہانہ کا خرچہ لینا اور اس میں بچانا، شوہرکی وفات کے بعد جائیداد میں حصہ، باپ یا بھائی کی طرف سے تحفہ، جو کچھ ملے اس کو لے کراپنے بڑھاپے اور مستقبل کے لئے رکھنا چاہئے۔

دینِ اسلام  نے ہر عورت کو اپنے گھر میں آزاد تاکہ عورت ہنسی خوشی زندگی گذارے۔اس لئے لڑکے پر نہ تو اس کی ساس، سالی یا سسر کی خدمت ہے اور نہ ہی لڑکی پراپنے خاوند کی خدمت کے سوا کسی ساس، سسر، نند، جیٹھ کی کوئی ذمہ داری ہے۔البتہ دونوں ایک دوسرے کے والدین اور رشتے داروں کی”خدمت“باہمی رضامندی سے کر سکتے ہیں۔

معاشرتی اسلام کی وجہ سے اکثر لڑائی اس بات پر ہوتی ہے کہ ماں گھر کے کام کرنے کے لئے لڑکی کو بیاہ کر لاتی ہے جس نے ذمہ داری کبھی نبھائی نہیں ہوتی،سسرال والوں کی مرضی نہ مانے تو لڑائی، بیمار،پریشان اور طلاق بھی ہو جاتی ہے لیکن نکاح کا اصل مقصد درمیان سے نکل گیا ہوتا ہے۔
اسلئے فیصلہ ہر عورت اور مرد کا اپنا اپنا ہے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں اور کس نیت سے کرنا چاہتے ہیں، البتہ آج کے بعد یہ نہ کہئے گا کہ ہمیں دینِ اسلام کسی مولوی نے سکھایا نہیں ہے بلکہ یہ کہئے گا کہ ہمیں علم تھا مگر ہم خود قیامت والے دن اپنا جواب خود دیں گے۔

مطالبہ:  اس پیج پر لگی پوسٹ کوآپ تک پہنچانا ہمارا کام اور آپ کہاں تک پہنچاتے ہیں یہ آپ کا کام ہے، اپنے گھر والوں کو سمجھا دیں، دوسروں کو شئیر کر کے بتائیں کہ شئیر کر دی ہے، حوالہ ضرور مانگیں یا ہماری غلطی ہو تو حوالہ دے کر غلطی بتائیں کیونکہ مومن مومن کا آئینہ ہوتا ہے،.....
*Copy paste*