Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کا واقعہ

سورہ الفتح آیت نمبر 0 بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ترجمہ: شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے تفس...



سورہ الفتح آیت نمبر 0
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

ترجمہ:
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے

تفسیر:
تعارف سورة الفتح یہ سورت صلح حدیبیہ کے موقع پر نازل ہوئی تھی، جس کا واقعہ مختصراً یہ ہے کہ ہجرت کے چھٹے سال حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ ارادہ فرمایا کہ اپنے صحابہ کے ساتھ عمرہ ادا فرمائیں، آپ نے یہ خواب بھی دیکھا تھا کہ آپ مسجد حرام میں اپنے صحابہ کے ساتھ داخل ہورہے ہیں، چنانچہ آپ چودہ سو صحابہ کے ساتھ مکہ مکرمہ روانہ ہوئے، جب مکہ مکرمہ کے قریب پہنچے تو آپ کو پتہ چلا کہ قریش کے مشرکین نے ایک بڑا لشکر تیار کیا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روکے، اس خبر کے ملنے پر آپ نے اپنی پیش قدمی روک دی، اور مکہ مکرمہ سے کچھ دور حدیبیہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا، (یہ جگہ آج کل شمیسی کہلاتی ہے) وہاں سے آپ نے حضرت عثمان (رض) کو اپنا ایلچی بناکر مکہ مکرمہ بھیجا کہ وہ وہاں کے سرداروں کو بتائیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی جنگ کے ارادے سے نہیں آئے ہیں، وہ صرف عمرہ کرنا چاہتے ہیں اور عمرہ کرکے پر امن طور پر واپس چلے جائیں گے، حضرت عثمان (رض) مکہ مکرمہ گئے تو ان کے جانے کے کچھ ہی بعد یہ افواہ پھیل گئی کہ مکہ مکرمہ کے کافروں نے انہیں قتل کردیا ہے، اس موقع پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو جمع کرکے ان سے یہ بیعت لی، (یعنی ہاتھ میں ہاتھ لے کر یہ عہد لیا) کہ اگر کفار مکہ مسلمانوں پر حملہ آور ہوئے تو وہ ان کے مقابلے میں اپنی جانوں کی قربانی پیش کریں گے،


 اس کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبیلہ خزاعہ کے ایک سردار کے ذریعے قریش کے سرداروں کو یہ پیشکش کی کہ اگر وہ ایک مدت تک جنگ بندی کا معاہدہ کرنا چاہیں تو آپ اس کے لئے تیار ہیں، جواب میں مکہ مکرمہ سے کئی ایلچی آئے، اور آخر کار ایک معاہدہ لکھا گیا، جس میں محمد بن اسحاق کی روایت کے مطابق یہ طے ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قریش آئندہ دس سال تک ایک دوسرے کے خلاف کوئی جنگ نہیں کریں گے، (سیرت ابن ہشام ٢: ٣١٧ وفتح الباری ٨۔ ٢٨٣)

 اسی معاہدے کو صلح حدیبیہ کا معاہدہ کہا جاتا ہے، صحابہ کرام اس موقع پر کافروں کے طرز عمل سے بہت غم وغصے کی حالت میں تھے، اور کافروں نے صلح کی یہ شرط رکھی تھی کہ اس وقت مسلمان واپس مدینہ منورہ چلے جائیں اور اگلے سال آکر عمرہ کریں، تمام صحابہ احرام باندھ کر آئے تھے، اور کافروں کی ضد کی وجہ سے احرام کھولنا ان کو بہت بھاری معلوم ہورہا تھا، اس کے علاوہ کافروں نے ایک شرط یہ بھی رکھی تھی کہ اگر مکہ مکرمہ کا کوئی شخص مسلمان ہو کر مدینہ منورہ جائے گا تو مسلمانوں کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اسے واپس مکہ مکرمہ بھیجیں، اور اگر کوئی شخص مدینہ منورہ چھوڑ کر مکہ مکرمہ آئے گا تو قریش کے ذمے یہ نہیں ہوگا کہ وہ اسے واپس مدینہ منورہ بھیجیں، یہ شرط بھی مسلمانوں کے لئے بہت تکلیف دہ تھی، اور اس کی وجہ سے وہ یہ چاہتے تھے کہ ان شرائط کو قبول کرنے کے بجائے ان کافروں سے ابھی ایک فیصلہ کن معرکہ ہوجائے، لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ اسی صلح کے نتیجے میں آخر کار قریش کا اقتدار ختم ہو، اس لئے اللہ تعالیٰ کے حکم سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ شرائط منظور کرلیں، صحابہ کرام اس وقت جہاد کے جوش سے سرشار تھے اور موت پر بیعت کرچکے تھے ؛ لیکن آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے آگے انہوں نے سر جھکادیا اور صلح پر راضی ہو کر واپس مدینہ منورہ چلے گئے، اور اگلے سال عمرہ کیا،


 اس کے کچھ ہی عرصے کے بعد ایک واقعہ تو یہ ہوا کہ ایک صاحب جن کا نام ابوبصیر (رضی اللہ عنہ) تھا، مسلمان ہو کر مدینہ منورہ آئے، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معاہدے کے مطابق انہیں واپس بھیج دیا، انہوں نے مکہ مکرمہ جانے کے بجائے ایک درمیانی جگہ پڑاؤ ڈال کر قریش کے خلاف چھاپہ مار جنگ شروع کردی، کیونکہ وہ صلح حدیبیہ کے معاہدے کے پابند نہیں تھے، اس چھاپہ مار جنگ سے قریش اتنے پریشان ہوئے کہ خود انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ درخواست کی کہ اب ہم وہ شرط واپس لیتے ہیں جس کی رو سے مکہ مکرمہ کے مسلمانوں کو واپس بھیجنا ضروری قرار دیا گیا تھا، قریش نے کہا کہ اب جو کوئی مسلمان ہو کر آئے تو آپ اسے مدینہ منورہ ہی میں رکھیں، اور ابو بصیر اور ان کے ساتھیوں کو بھی اپنے پاس بلالیں، چنانچہ آپ نے انہیں مدینہ منورہ بلالیا، دوسرا واقعہ یہ ہوا کہ قریش کے کافروں نے دو سال کے اندر اندر حدیبیہ کے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں پیغام بھیجا کہ یا تو وہ اس کی تلافی کریں یا معاہدہ ختم کریں، قریش نے اس وقت غرور میں آکر کوئی بات نہ مانی، جس کی وجہ سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو پیغام بھیج دیا کہ اب ہمارا آپ کا معاہدہ ختم ہوگیا ہے، اس کے بعد آپ نے ہجرت کے آٹھویں سال دس ہزار صحابہ کرام کے ساتھ مکہ مکرمہ کی طرف پیش قدمی فرمائی، اس وقت قریش کا غرور ٹوٹ چکا تھا، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی خاص خونریزی کے بغیر مکہ مکرمہ میں فاتح بن کر داخل ہوئے، اور قریش کے لوگوں نے شہر آپ کے حوالے کردیا۔ سورة فتح میں صلح حدیبیہ کے مختلف واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے اور صحابہ کرام کی تعریف کی گئی ہے کہ انہوں نے اس واقعے کے ہر مرحلے پر بڑی بہادری سرفروشی اور اطاعت کے جذبے کا مظاہرہ کیا، دوسری طرف منافقین کی بد اعمالیوں اور ان کے برے انجام کا بھی ذکر فرمایا گیا ہے۔




آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی