Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

سورہ الحدید آیت نمبر 20, 21, 22

 سورہ  الحدید آیت نمبر 25 لَقَدۡ  اَرۡسَلۡنَا  رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ  الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَق...



 سورہ  الحدید آیت نمبر 25


لَقَدۡ  اَرۡسَلۡنَا  رُسُلَنَا بِالۡبَیِّنٰتِ وَ اَنۡزَلۡنَا مَعَہُمُ  الۡکِتٰبَ وَ الۡمِیۡزَانَ لِیَقُوۡمَ النَّاسُ بِالۡقِسۡطِ ۚ  وَ اَنۡزَلۡنَا الۡحَدِیۡدَ فِیۡہِ بَاۡسٌ شَدِیۡدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ لِیَعۡلَمَ اللّٰہُ  مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ  بِالۡغَیۡبِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ  قَوِیٌّ عَزِیۡزٌ ﴿٪۲۵﴾

ترجمہ: 

حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی ہوئی نشانیاں دے کر بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب بھی اتاری، اور ترازو بھی، (٢٠) تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں، اور ہم نے لوہا اتارا جس میں جنگی طاقت بھی ہے اور لوگوں کے لیے دوسرے فائدے بھی، (٢١) اور یہ اس لیے تاکہ اللہ جان لے کہ کون ہے جو اس کو دیکھے بغیر اس (کے دین) کی اور اس کے پیغمبروں کی مدد کرتا ہے۔ یقین رکھو کہ اللہ بڑی قوت کا، بڑے اقتدار کا مالک ہے۔ (٢٢)

تفسیر: 


 20:
ترازو اصل میں اس آلے کو کہتے ہیں جس سے کوئی چیز تولی جائے، اس کو اتارنے کے مفہوم میں یہ بات بھی داخل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ترازو پیدا کی ہے اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے مطابق انصاف سے کام لینے کا حکم دیا ہے۔ اور درحقیقت انبیائے کرام اور اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ ترازو کا ذکر کرنے سے اشارہ یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ اپنی زندگی کے ہر مرحلے پر توازن اور اعتدال سے کام لے، اور یہی توازن اور اعتدال انبیائے کرام اور آسمانی کتابوں کی تعلیمات میں پایا جاتا ہے۔

 21: 

لوہا ان دھاتوں میں سے ہے جس کی ہر صنعت میں ضرورت پڑتی ہے، اس لیے اس کی تخلیق بذات خود اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے، لیکن انبیائے کرام، آسمانی کتابوں اور ترازو کے بعد اس کو ذکر فرما کر اشارہ یہ دیا گیا ہے کہ انسانوں کی اصلاح کا اصل ذریعہ انبیائے کرام اور ان کی لائی ہوئی کتابوں کی تعلیمات ہیں، ان پر ٹھیک ٹھیک عمل ہوجائے تو دنیا میں انصاف قائم ہوسکتا ہے، لیکن شر کی بہت سی طاقتیں ایسی ہیں جو ان تعلیمات سے سدھرنے کے بجائے بگڑی ہی رہتی ہیں، اور انصاف قائم کرنے کے بجائے فساد پھیلاتی ہیں، ان کی سرکوبی کے لیے اللہ تعالیٰ نے لوہا اتارا ہے جس سے جنگی طاقت کا سامان تیار ہوتا ہے، اور آخر میں جہاد کے لیے اسے استعمال کرنا پڑتا ہے۔

 22: 

یعنی اللہ تعالیٰ کی طاقت اور اس کا اقتدار اتنا بڑا ہے کہ اسے شر کی طاقتوں کو کچلنے کے لیے کسی انسان کی مدد کی ضرورت نہیں ہے، لیکن اس نے انسانوں کو جہاد کا مکلف اس لیے فرمایا ہے تاکہ ان کی آزمائش ہو، اور یہ بات نکھر کر سامنے آجائے کہ کون ہے جو اللہ تعالیٰ کے دین کی نصرت میں جان کی بازی لگاتا ہے، اور کون ہے جو سرکشی اختیار کرتا ہے۔
 آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی