Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

ایک پروفیسر کی تربیت کا انداز

*ایک پروفیسر کی تربیت کا انداز* _کلاس روم طلبہ اور طالبات سے بھرا ہوا تھا۔  ہر کوئی خوش گپیوں میں مصروف تھا ، ، کان پڑی آوازسُنائی نہ دیتی ت...




*ایک پروفیسر کی تربیت کا انداز*

_کلاس روم طلبہ اور طالبات سے بھرا ہوا تھا۔ 
ہر کوئی خوش گپیوں میں مصروف تھا ، ،
کان پڑی آوازسُنائی نہ دیتی تھی، 
اتنے میں پرنسپل کلاس روم میں داخل ہوئے، 
کلاس روم میں سناٹا چھاگیا ۔_

*پرنسپل صاحب نے اپنے ساتھ آئے ہوئے ایک صاحب کا تعارف کراتے ہوئے کہا یہ ہمارے کالج کے وزیٹنگ پروفیسر، پروفیسر انصاری ہیں،
آپ مفکر دانشور اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔ 
یہ آپ کو کامیاب زندگی گزارنے کے کچھ گر بتائیں گے۔ 
ان کے کئی لیکچر ہوں گے۔ 
جو اسٹوڈنٹس انٹرسٹڈ ہوں وہ ان کے 
لیکچر میں باقاعدگی سے شریک ہوں۔*

*سبق نمبر 1*

*کلاس روم میں سناٹا طاری تھا۔ 
طلبا کی نظریں کبھی پروفیسر کی طرف اٹھتیں
اور کبھی بلیک بورڈ کی طرف۔ 
پروفیسر کے سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔
سوال تھا ہی ایسا۔*

*وزیٹنگ پروفیسر انصاری نے ہال میں داخل ہوتے ہی 
بغیر ایک لفظ کہے بلیک بورڈ پر ایک لمبی لکیر کھینچ دی۔ پھر اپنا رخ طلبا کی طرف کرتے ہوئے پوچھا….*

*‘‘تم میں سے کون ہے 
جو اس لکیر کو چھوئے بغیر اسے چھوٹا کردے؟’’….*

*‘‘یہ ناممکن ہے۔’’،
کلاس کے ایک ذہین طالبعلم نے آخر کار اس خاموشی کو توڑتے ہوئے جواب دیا۔ ‘‘
لکیر کو چھوٹا کرنے کے لیے اسے مٹانا پڑے گا اور 
آپ اس لکیر کو چھونے سے بھی منع کررہے ہیں۔’’ 
باقی طلبا نے بھی گردن ہلا کر اس کی تائید کردی۔*

پروفیسر نے گہری نظروں سے طلبا کو دیکھا اور 
کچھ کہے بغیر مسکراتے ہوئے بلیک بورڈ پر اس 
لکیر کے نیچے ہی اس سے بڑی ایک اور لکیر کھینچ دی۔ 
اب اوپر والی لکیر کے سامنے یہ لکیر چھوٹی نظر آرہی تھی۔

*پروفیسر نے چاک ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا:*

*‘‘آپ نے آج اپنی زندگی کا ایک بڑا سبق سیکھا ہے، 
وہ یہ ہے دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر، 
ان کو بدنام کیے بغیر،
ان سے حسد کیے بغیر،
ان سے الجھے بغیر
ان سے آگے کس طرح نکلا جاسکتا ہے….’*’

*آگے بڑھنےکی خواہش انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ 
اس خواہش کی تکمیل کا ایک طریقہ یہ ہے کہ 
دوسرے کو چھوٹا بنانے کی کوشش کی جائے۔ 
مگر ایسی صورت میں انسان خود بڑا نہیں ہوتا۔ 
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دوسروں سے الجھے بغیر 
خود کو طاقتور اور بڑا بنانے پر توجہ دی جائے۔ 
دوسروں سے الجھے بغیر آگے بڑھنا، 
ترقی کا صحیح طریقہ ہے۔
یہ طریقہ فرد کے لیے بھی بہتر ہے
اور قوموں کے لیے بھی۔ 
اس طریقے پر اجتماعی طور پر ہمارے پڑوسی ملک 
چین نے سب سے زیادہ عمل کیا ہے
اور بہترین نتائج حاصل کیے ہیں۔*

*سبق نمبر 2*

*دوسرے دن کلاس میں داخل ہوتے ہی 
پروفیسر انصاری نے 
بلیک بورٖڈ پر ایک بڑا سا سفید کاغذ چسپاں کردیا، 
اس کے بعد 
*انہوں نے اس سفید کاغذ کے درمیان میں مارکر سے 
ایک سیاہ نقطہ ڈالا،
پھر اپنا رخ کلاس کی طرف کرتے ہوئے پوچھا:*

_‘‘آپ کو کیا نظر آ رہا ہے….؟ ’’_

_سب نے ہی یک زبان ہو کر کہا
‘‘ایک سیاہ نقطہ’’۔_

*طالب علم تعجب کا اظہار کررہے تھے
سر بھی کمال کرتے ہیں ، 
کل لکیر کھینچی تھی 
آج نقطہ بنادیا ہے ….*

*پروفیسر نے مسکراتے ہوئے کہا 
‘‘ حیرت ہے !
اتنا بڑا سفید کاغذ اپنی چمک اور پوری
آب و تاب کے ساتھ تو تمہاری نظروں سے اوجھل ہے،
مگر ایک چھوٹا سا
سیاہ نقطہ تمہیں صاف دکھائی دے رہا ہے؟’’*

_زندگی میں کیے گئے لاتعداد اچھے کام 
سفید کاغذ کی طرح ہوتے ہیں 
جبکہ کوئی غلطی یا خرابی محض
ایک چھوٹے سے نقطے کی مانند ہوتی ہے۔ 
لوگوں کی اکثریت دوسروں کی غلطیوں 
پر توجہ زیادہ دیتی ہے
لیکن اچھائیوں کو نظر انداز کردیتی ہے۔_

_آپ کی ساری زندگی کی اچھائیوں پر 
آپ کی کوئی ایک کوتاہی یا کسی غلطی کا 
ایک سیاہ نقطہ ان کو زیادہ صاف دکھائی دیتا ہے۔_

_آپ آدھا گلاس پانی کا بھر کر 
اگر 100 لوگوں سے پوچھیں گے ، 
تو کم از کم 80 فیصد کہیں گے آدھا گلاس خالی ہے 
اور 20 فیصد کہیں گے کہ آدھا گلاس پانی ہے …. 
دونوں صورتوں میں بظاہر فرق کچھ نہیں پڑتا 
لیکن درحقیقت یہ دو قسم کے انداز فکر کی 
نمائندگی کرتے ہیں۔ 
ایک منفی اور دوسرا مثبت۔ 
جن لوگوں کا انداز فکر منفی ہوتا ہے وہ 
صرف منفی رخ سے چیزوں کو دیکھتے 
جبکہ مثبت ذہن کے لوگ ہر چیز میں خیر تلاشکرلیتے ہیں۔_

*ہماری زندگی کے معاملات میں 
لوگوں کے ردعمل گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ 
‘‘لوگ کیا کہیں گے’’
جیسے روائتی جملے ہمیں ہمیشہ 
دو راہوں پر گامزن کردیتے ہیں۔
یہ دوراہی فیصلہ لینے میں
سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔
اس صورتحال میں صرف
نفسیاتی الجھن کا شکار ہوکررہ جاتے ہیں۔*

*اس لیے آپ مستقل میں کوئی بھی کام کریں، 
کوئی بھی راہ چنیں ،
تو یہ یاد رکھیں
کہ آپ ہر شخص کو مطمئننہیں کرسکتے ۔*

*سبق نمبر 3*

*تیسرے دن پروفیسر نے اپنی کلاس کا آغاز کرتے ہوئے
ایک گلاس اٹھایا، 
جس کے اندر کچھ پانی موجود تھا۔
انہوں نے وہ گلاس بلند کردیا، 
تاکہ تمام طلبا اسےدیکھ لیں۔*

*‘‘سر کیا آپ
وہی فلسفیانہ سوال تونہیں پوچھنا چاہ رہے 
کہ گلاس آدھا خالی ہے یا آدھا بھرا ہوا ہے’’ 
ایک طالب علم نے جملہ کستے ہوئے کہا۔*

*پروفیسر نے مسکراتے

ہوئے اس کی جانب دیکھا اور کہا 
‘‘نہیں!
آج میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ
آپ کے خیال میں اس گلاس کا وزن کیا ہوگا….؟’’*

*‘‘پچاس گرام’’،
‘‘سو گرام’’، ‘‘ایک سو پچیس گرام’’۔
سب اپنے اپنے انداز سے جواب دینے لگے۔*

*‘‘میں خود صحیح وزن بتا نہیں سکتا، 
جب تک کہ میں اس کا وزن نہ کرلوں!….’’ 
پروفیسر نے کہا۔ 
لیکن میرا سوال یہ ہے کہ
‘‘ کیا ہوگا اگر میں اس گلاس کو چند منٹوں کے لیے
اسی طرح اٹھائے رہوں….؟’’*

*‘‘کچھ نہیں ہوگا!’’ 
طالب علموں نے جواب دیا۔*

*‘‘ٹھیک ہے،
اب یہ بتاؤ کہ
اگر میں اس گلاس کو ایک گھنٹے تک یوں ہی 
اٹھائے رہوں تو پھر کیا ہوگا….؟’’
پروفیسر نے پوچھا۔*

*‘‘آپ کے بازو میں درد شروع ہوجائے گا۔’’ 
طلباء میں سے ایک نے جواب دیا۔*

*‘‘تم نے بالکل ٹھیک کہا۔’’
پروفیسر نے تائیدی لہجے میں کہا۔‘‘
اب یہ بتاؤ کہ اگر میں اس گلاس کو 
دن بھر اسی طرح تھامے رہوں تو پھر کیا ہوگا….؟’’*

*‘‘آپ کا باوزو شل ہوسکتا ہے۔
’’ ایک طالب علم نے کہا۔‘‘
آپ کا پٹھا اکڑ سکتا ہے
’’ ایک اور طالب علم بولا، ‘‘
آپ پر فالج کا حملہ ہوسکتا ہے۔
آپ کو اسپتال لازمی جانا پڑے گا!
’’ ایک طالب علم نے جملہ کسا
اور پوری گلاس قہقہے لگانے لگی۔*

*‘‘بہت اچھا!’’
پروفیسر نے بھی ہنستے ہوئے کہا پھر پوچھا 
‘‘لیکن اس دوران کیا گلاس کا وزن تبدیل ہوا….؟’’*

_‘‘نہیں۔’’ 
طالب علموں نے جواب دیا۔_

_‘‘تو پھر بازو میں درد
اور پٹھا اکڑنے کا سبب کیا تھا….؟’’
پروفیسر نے پوچھا۔
طالب علم چکرائے گئے۔_

*‘‘ گلاس کا بہت دیر تک اُٹھائے رکھنا ،
بہتر ہوگا کہ اب گلاس نیچے رکھ دیں!’’ 
ایک طالب علم نے کہا۔*

*‘‘بالکل صحیح!….
’’ استاد نے کہا۔*

_‘‘ہماری زندگی کے مسائل بھی کچھ اسی قسم کے ہوتے ہیں۔ آپ انہیں اپنے ذہن پر چند منٹ سوار رکھیں تو 
وہ ٹھیک لگتے ہیں۔
انہیں زیادہ دیر تک سوچتے رہیں تو وہ آپ کے لیے 
سر کا درد بن جائیں گے۔
انہیں اور زیادہ دیر تک تھامے رہیں تو
وہ آپ کو فالج زدہ کردیں گے۔ 
آپ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔_

* دیکھیے….!
اپنی زندگی کے چیلنجز (مسائل) کے بارے میں سوچنا 
یقیناً اہمیت رکھتا ہے۔
لیکن….
اس سے کہیں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ 
ہر دن کے اختتام پر سونے سے پہلے ان مسائل کو 
ذہن سے اُتاردیا جائے۔ 
اس طریقے سے آپ کسی قسم کے ذہنی تناؤ میں 
مبتلا نہیں رہیں گے۔ 
اگلی صبح آپ تروتازہ اور اپنی پوری توانائی کے ساتھ 
بیدار ہوں گے اور اپنی راہ میں آنے والے کسی بھی ایشو، کسی بھی چیلنج کو آسانی سے ہینڈل کرسکیں گے۔ 
لہٰذا گلاس کو یعنی مسائل پر غیر ضروری سوچ بچار 
کو نیچے کرنا رکھنا یاد رکھیں۔’’*

*سبق نمبر4*

*پروفیسر نے کہا 
کہ کل ہر ایک طالب علم پلاسٹک کا ایک شفاف 
تھیلا اور ٹماٹرساتھ لائے۔*

*جب طلباء تھیلا اور ٹماٹر لے آئے 
تو پروفیسر نے کہا کہ :*

*‘‘آپ میں سے ہر طالب علم اس فرد کے نام پر جسے 
آپ نے اپنی زندگی میں معاف نہیں کیا، 
ایک ایک ٹماٹر چن لی
اور اس پر اس فرد کا نام اور تاریخ لکھ کر 
اسے اپنے پلاسٹک کے تھیلے میں ڈالتے جائیں۔’’*

*سب نے ایک ایک کرکے یہی عمل کیا، 
پروفیسر نے کلاس پر نظر ڈالی تو دیکھا
بعض طالب علموں کے تھیلے خاصے بھاری ہوگئے۔*

*پھر پروفیسر نے سب طالب علموں سے کہا کہ:*

*‘ یہ آپ کا ہوم ورک ہے، 
آپ سب ان تھیلوں کو اپنے ساتھ رکھیں، 
اسے ہر جگہ اپنے ساتھ لیے پھریں۔
رات کو سوتے وقت اسے اپنے بیڈ کے سرہانے رکھیں، 
جب کام کر رہے ہوں تو اسے اپنی میز کے برابر میں رکھیں۔ کل ہفتہ ، پرسوں اتوار ہے آپ کی چھٹی ہے، 
پیر کے روز آپ ان تھیلوں کو لے کر آئیں 
اور بتائیں آپ نے کیا سیکھا۔ ’’*

*پیر کے دن سب طالب علم آئے تو 
چہرے پر پریشانی کے آثار تھے،
سب نے بتایا کہ 
اس تھیلے کو ساتھ ساتھ گھسیٹے پھرنا ایک آزار ہوگیا۔ قدرتی طور پر ٹماٹروں کی حالت خراب ہونے لگی۔ 
وہ پلپلے اور بدبودار ہوگئے تھے۔*

*پروفیسر نے مسکراتے ہوئے کہا 
‘‘ اس ایکسرسائز سے کیا سبق سیکھا….؟’’*

*سب طلبہ و طالبات خاموش رہے۔*

*‘‘اس ایکسر سائز سے یہ واضح ہوا کہ
روحانی طور پر
ہم اپنے آپ پر کتنا غیر ضروری وزن لادے پھر رہے ہیں۔ ہمیں اندازہ ہوا کہ ہم اپنی تکلیف 
اور اپنی منفی سوچ کی کیا قیمت چکا رہے ہیں۔*

*ہم اکثر یہ سوچتے ہیں کہ کسی کو معاف کردینا ، 
کسی پر احسان کرنااس شخص کے لیے اچھا ہے 
لیکن دوسرے کو معاف کرکے ہم خود اپنے لیے 
لاتعداد فوائد حاصل کرتے ہیں ۔ 
جب تک ہم کسی سے ناراض رہتے ہیں ،
اس کے خلاف بدلہ لینے کے لیے سوچتے ہیں 
اس وقت تک ہم کسی اور کا نہیں بلکہ 
خود اپنا خون جلاتے ہیں۔ 
اپنے آپ کو اذیت اور مشقت میں مبتلا رکھتے ہیں۔
بدلے اور انتقام کی سوچ،
گلے سڑے ٹماٹروں کی طرح ہمارے باطن میں 
بدبو پھیلانے لگتی ہے۔
معاف نہ کرنا ایک بوجھ بن کر 
ہمارے اعصاب کو تھکا دیتا ہے۔*