Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

منافق اور منافقت

منافق اور منافقت "منافق" نفق سے ماخوذ ہے۔ جس کا معنی سرنگ ہے اور بعض نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ لومڑی اپنے بل کے دو منہ رکھتی ہ...

منافق اور منافقت

"منافق" نفق سے ماخوذ ہے۔ جس کا معنی سرنگ ہے اور بعض نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ لومڑی اپنے بل کے دو منہ رکھتی ہے۔ ایک کا نام نافقاء اور دوسرے کا نام قاصعاء ہے۔ ایک طرف سے وہ داخل ہوتی ہے اور جب کوئی شکاری اس کا تعاقب کرتا ہے تو وہ دوسری طرف سے نکل جاتی ہے اور اگر دوسری جانب سے کوئی اس کا تعاقب کرتا ہے تو وہ پہلے سوراخ سے نکل جاتی ہے۔ اس کے بل کے ایک طرف کا نام نافقاء ہے، اسی سے "منافق" ماخوذ ہے۔ اس کے بھی دو پہلو ہیں۔ ایک کفر، جو اس کے دل میں ہے۔ دوسرا ایمان جو اس کی زبان پر ہے۔ اگر کفر سے اسے کسی نقصان کا اندیشہ ہو تو وہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے لگتا ہے اور اگر اسلام کے باعث اسے کوئی تکلیف پہنچ رہی ہو تو وہ فوراَ اپنے کافر ہونے کا اعلان کر دیتاہے۔

اللہ تعالیٰ نے جہنم کا سب سے نچلا درجہ، منافقین، یعنی، منافقت کرنے والوں کا ٹھکانہ مقرر فرما رکھا ہے إِنَّ الْمُنَافِقِینَ فِی الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ یقیناً منافقین جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے (سُورت النِساء (4)/آیت145)

خواہ یہ مُنافق، نفاق اکبر (بڑی مُنافقت) پر عمل کرنے والے ہوں، یا نفاق اصغر (چھوٹی مُنافقت) پر، اعتقادی نفاق والے ہوں یا عملی مُنافقت والے، سب کا ٹھکانہ وہی ہے۔ 

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِیهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا، وَمَنْ كَانَتْ فِیهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِیهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى یدَعَهَا: إِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ، وَإِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ جِس میں (یہ) چار (خَصلتیں، صِفات، نشانیاں ) ہوں وہ خالص مُنافق ہے، اور جِس میں اِن میں سے کوئی ایک خصلت ہو تو اُس میں نِفاق کی خَصلت ہے یہاں تک کہ وہ اُسے چھوڑ دے، (1) جب اُس کے پاس اَمانت رکھوائی جائے تو وہ اُس میں خیانت کرے (2)جب بات کرے تو جھوٹ بولے (3)جب وعدہ کرے تو وعدہ خِلافی کرے (4)جب جھگڑا کرے تو پھٹ پڑے (یعنی بے حیائی پر اتر آئے ) (بخاری و مسلم)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِیهِ فَهُوَ مُنَافِقٌ، وَإِنْ صَامَ وَصَلَّى وَ حَجَ وَ أعتمَرَ وَقَالَ إنی مُسْلِمٌ: مَنْ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ جس میں تین (خَصلتیں، صِفات، نشانیاں )ہوں (تو)وہ مُنافق ہے خواہ وہ نماز (بھی)پڑھتا ہو، اور روزہ(بھی) رکھتا ہو، اورحج(بھی) کرتا ہو، اور عمرہ(بھی) کرتا ہواور، (یہ بھی ) کہتا ہو کہ میں مُسلمان ہوں، (یہ وہ شخص ہے ) جو (1)بات کرے تو جھوٹ بولے (2)وعدہ کرے تو وعدہ خِلافی کرے (3)جب اسے امانت داربنایا جائے تو خیانت کرے (صحیح الجامع الصغیر /حدیث 3043)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے فرمایا إِنَّ الْحَیاءَ وَالْعَفَافَ وَالْعِی عن اللِّسَانِ لا عِی الْقَلْبِ، وَالْعَمَلَ مِنَ الإِیمَانِ، وَإِنَّهُنَّ یزِدْنَ فِی الآخِرَةِ، وَینْقِصْنَ مِنَ الدُّنْیا، وَمَا یزِدْنَ فِی الآخِرَةِ أَكْثَرُ مِمَّا ینْقِصْنَ فِی الدُّنْیا ؛ وَإِنَّ الشُّحَّ والفُحشَ وَالْبَذَاءَ مِنَ النِّفَاقِ، وَإِنَّهُنَّ یزِدْنَ فِی الدُّنْیا، وَینْقِصْنَ مِنَ الآخِرَةِ، وَمَا ینْقِصْنَ فِی الآخِرَةِ أَكْثَرُ مِمَّا یزِدْنَ فِی الدُّنْیا بے شک حیاء اورعِفت اور ز ُبان کی کم علمی نہ کہ دِل کی کم علمی، اور (اُس کے مُطابق)عمل اِیمان میں سے ہیں، اور بے شک یہ سب آخرت (کی خیر)میں اضافہ کرتے ہیں، اور دُنیا (کے شر)میں کمی کرتے ہیں، اور جو کچھ یہ آخرت میں اضافہ کرتے ہیں وہ دُنیا میں کمی سے زیادہ ہے، اور بے شک لالچ، اور بے حیائی، اور بے ہودہ گفتگو نِفاق میں سے ہیں اور یہ سب دُنیا (کے شر)میں اضافہ کرتے ہیں اور آخرت (کی خیر)میں کمی کرتے ہیں اور جو کچھ یہ آخرت (کی خیر)میں سے کم کرتے ہیں وہ اس سے زیادہ ہے جو یہ دُنیا میں سے بڑھاتے ہیں (سلسلہ الاحادیث الصحیحہ/حدیث3381)

دوسرے بلا فصل خلیفہ أمیر المومنین عمرابن الخطاب رضی اللہ عنہما سے کا کہنا ہے کہ میں نے اپنی انگلیوں کی تعداد سے زیادہ دفعہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى هَذِهِ الْأُمَّةِ الْمُنَافِقَ الْعَلِیمَ میں اس اُمت پر صاحبء علم منافقوں کے بارے میں بہت ڈرتا ہوں ۔ پوچھا گیا، منافق صاحبء علم کیسے ہو سکتا ہے ؟ تو أمیر المومنین عمرابن الخطاب رضی اللہ عنہما نے اِرشاد فرمایا عَالِمُ اللِّسَانِ، جَاهِلُ الْقَلْبِ وَالْعَملِ زبان کا عِالم لیکن دِل اور عمل سے جاھل  

منافقت ایسے طرز عمل کو کہتے ہیں جو قول و فعل کے تضاد سے عبارت ہو جس میں انسان کا ظاہر، باطن سے مختلف بلکہ برعکس ہو۔ سورۃ البقرہ کی آیات 8 تا 20 میں مسلسل منافقین کی علامات بیان کی گئی ہیں۔ یہ علامات منافقین پر قرآن حکیم کا واضح چارٹر ہے جو اس لیے دیا گیا ہے کہ ہر شخص اپنے احوال اور معاملات کا جائزہ لے سکے اور ان کی روشنی میں اپنی اصلاح کی کوشش کر سکے۔ منافقت کی علامات درج ذیل ہیں ۔

 (1) دعویٰ ایمان صرف زبانی حد تک کرنا اور باطن کا اس کی تصدیق سے خالی ہونا۔
(2) محض توحید و آخرت پر ایمان کو کافی سمجھنا اور رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان کو اس قدر ضروری نہ سمجھنا۔
(3) دھوکہ دہی اور مکر و فریب کی نفسیات کا پایا جانا۔
(4) یہ سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری حالتِ نفاق سے بے خبر ہیں۔
(5) یہ سمجھنا کہ ہم اپنی مکاریوں، حیلہ سازیوں اور چالاکیوں سے دوسروں کو فریب دینے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
(6) قلب و باطن کا بیمار ہونا۔
(7) جھوٹ بولنا۔
(8) نام نہاد اصلاح کے پردے میں مفسدانہ طرز عمل اپنانے کے باوجود خود کو صالح سمجھنا۔
(9) دوسروں کو بیوقوف اور صرف خود کو اہل عقل و دانش سمجھنا۔
(10) امت مسلمہ کی اکثریت کو گمراہ تصور کرنا۔
(11) اجماع امت یا سوادِ اعظم کی پیروی نہ کرنا۔
(12) کردار میں دوغلاپن اور ظاہر و باطن کا تضاد ہونا۔
(13) اہل حق کے خلاف خفیہ سازشیں اور تخریبی منصوبے تیار کرنا۔
(14) مسلمانوں پر طنز، طعنہ زنی اور حقیر سمجھتے ہوئے ان کا مذاق اڑانا۔
(15) باطل کو حق پر ترجیح دینا۔
(16) سچائی کی روشن دلیل دیکھتے ہوئے بھی اس کی طرف سے آنکھیں بند کر لینا۔
(17) تنگ نظری اور دشمنی میں اس حد تک چلے جانا کہ کان حق بات نہ سن سکیں، زبان حق بات نہ کہہ سکے اور آنکھیں حق نہ دیکھ سکیں۔
(18) اسلام کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات سے گھبرانا اور ان سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنا۔
(19) اہل حق کی کامیابیوں پر حیران رہ جانا اور ان پر حسد کرنا۔اور انکے خلاف بدگمانیاں پیدا کرنا 
(20) اپنے مفادات کے حصول کے لئے اہل حق کا ساتھ دینا اور خطرات و مصائب میں قربانی سے گریز کرتے ہوئے ان سے علیحدہ ہو جانا۔
(21) حق کے معاملے میں نیم دلی اور ہچکچاہٹ کی کیفیت میں مبتلا رہنا

(22) دو مسلمان بھائیوں کے درمیان نفرت کا بیج بونا 
احمد شاہ جمالی نقشبندی