Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

اصحاب الرس کون تھے؟

''رس'' لغت میں پرانے کنوئیں کے معنی میں آیا ہے۔ اس لئے ''اصحاب الرس'' کے معنی ہوئے ''کنوئیں والے...



''رس'' لغت میں پرانے کنوئیں کے معنی میں آیا ہے۔ اس لئے ''اصحاب الرس'' کے معنی ہوئے ''کنوئیں والے'' اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ''اصحاب الرس'' کے نام سے ایک قوم کی سرکشی اور نافرمانی کی وجہ سے اس کی ہلاکت کا ذکر فرمایا ہے۔ چنانچہ سورہ فرقان میں ارشاد فرمایا کہ:

 

وَّعَادًا وَّ ثَمُوۡدَا۠ وَاَصْحٰبَ الرَّسِّ وَقُرُوْنًۢا بَیۡنَ ذٰلِکَ کَثِیۡرًا ﴿٣٨﴾ وَکُلًّا ضَرَبْنَا لَہُ الْاَمْثَالَ ۫ وَکُلًّا تَبَّرْنَا تَتْبِیۡرًا ﴿٣٩﴾

ترجمہ : اور عاد اور ثمود اور کنوئیں والوں کو اور ان کے بیچ میں بہت سی سنگتیں اور ہم نے سب سے مثالیں بیان فرمائیں اور سب کو تباہ کر کے مٹا دیا۔

( سورۃ الفرقان : ٣٨ تا ٣٩)

 

اور سورہ ق میں ہلاک شدہ قوموں کی فہرست بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمایا کہ:

 

کَذَّبَتْ قَبْلَہُمْ قَوْمُ نُوۡحٍ وَّ اَصْحٰبُ الرَّسِّ وَ ثَمُوۡدُ ﴿ۙ١٢﴾وَ عَادٌ وَّ فِرْعَوْنُ وَ اِخْوَانُ لُوۡطٍ ﴿ۙ١٣﴾وَّ اَصْحَابُ الْاَیۡکَۃِ وَ قَوْمُ تُبَّعٍ ؕ کُلٌّ کَذَّبَ الرُّسُلَ فَحَقَّ وَعِیۡدِ ﴿١۴﴾

ترجمہ : ان سے پہلے جھٹلایا نوح کی قوم اور رس والوں اور ثمود اور عاد اور فرعون اور لوط کے ہم قوموں اور بن والوں اور تبع کی قوم نے ان میں ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا تو میرے عذاب کا وعدہ ثابت ہو گیا۔

(سورۃ قۤ : ١٢ تا ١۴)

 

''اصحاب الرس'' کون تھے؟ اور کہاں رہتے تھے؟ اس بارے میں مفسرین کے اقوال اس قدر مختلف ہیں کہ حقیقت حال بجائے منکشف ہونے کے اور زیادہ مستور ہو گئی ہے۔ بہرحال مختصراً چند اقوال ذکر کئے جاتے ہیں ۔ تاکہ صورتحال کچھ واضح ہو سکے۔

▪️علامہ ابن جریر کی رائے یہ ہے کہ ''رس'' کے معنی غار کے بھی آتے ہیں۔ اس لئے ''اصحاب الاخدود'' (گڑھے والوں) ہی کو ''اصحاب الرس'' بھی کہتے ہیں۔

 

▪️ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں اس قول کو حق بتایا ہے کہ ''اصحاب الرس'' قوم عاد سے بھی صدیوں پہلے ایک قوم کا نام ہے۔ یہ لوگ جس جگہ آباد تھے وہاں اللہ تعالیٰ نے ایک پیغمبر حضرت حنظلہ بن صفوان علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تھا اس سرکش قوم نے اپنے نبی کی بات نہیں مانی اور کسی طرح بھی حق کو قبول نہیں کیا بلکہ اپنے پیغمبر کو قتل کر دیا۔ جس کی سزا میں پوری قوم عذابِ الٰہی سے ہلاک و برباد ہو گئی۔

(تفسیر سورہ فرقان و تاریخ ابن کثیر، ج ۱)

 

▪️ابن ابی حاتم کا قول ہے کہ آذر بائیجان کے قریب ایک کنواں تھا اس کنوئیں کے قریب جو قوم آباد تھی اس نے اپنے نبی کو کنوئیں میں ڈال کر زندہ دفن کر دیا تھا۔ اس لئے ان لوگوں کو ''اصحاب الرس'' کہا گیا۔

(تفسیر ابن کثیر، ج۶، ص ۱۰۱، پ۱۹، الفرقان: ۳۸)

 

▪️قتادہ کہتے ہیں کہ ''یمامہ'' کے علاقہ میں ''فلج'' نامی ایک بستی تھی ''اصحاب الرس'' وہیں آباد تھے اور یہ وہی قوم ہے جس کو قرآن مجید میں ''اصحاب القریہ'' بھی کہا گیا ہے اور یہ مختلف نسبتوں سے پکارے جاتے ہیں۔

 

▪️ابوبکر عمر نقاش اور سہیلی کہتے ہیں کہ ''اصحاب الرس'' کی آبادی میں ایک بہت بڑا کنواں تھا جس کا پانی وہ لوگ پیتے تھے اور اس سے اپنے کھیتوں کی آبپاشی بھی کرتے تھے اور ان لوگوں نے گمراہ ہو کر اپنے پیغمبر کو قتل کر دیا تھا، اس جرم میں عذابِ الٰہی اُتر پڑا اور یہ پوری قوم ہلاک و برباد ہو گئی۔

 

▪️محمد بن کعب قرظی فرماتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ

 

اِنَّ اَوَّلَ النَّاسِ یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ الْعَبْدُ الْاَسْوَدُ یعنی جنت میں سب سے پہلے جو شخص داخل ہو گا وہ ایک کالا غلام ہو گا۔

 

اور یہ اس لئے کہ ایک بستی میں اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک نبی بھیجا مگر ایک کالے غلام کے سوا کوئی ان پر ایمان نہیں لایا، پھر اہلِ شہر نے اس نبی کو ایک کنوئیں میں ڈال کر کنوئیں کے منہ کو ایک بھاری پتھر سے بند کر دیا، تاکہ کوئی کھول نہ سکے۔ مگر یہ سیاہ فام غلام روزانہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتا اور ان کو فروخت کر کے کھانا خریدتا اور کنوئیں پر پہنچ کر پتھر اٹھاتا اور نبی کی خدمت میں کھانا پیش کرتا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس غلام پر جنگل میں نیند طاری کر دی اور یہ چودہ سال تک سوتا ہی رہ گیا۔ اس درمیان میں قوم کا دل بدل گیا اور ان لوگوں نے نبی کو کنوئیں میں سے نکال کر توبہ کر لی اور ایمان قبول کر لیا پھر چند دنوں کے بعد نبی کی وفات ہو گئی۔ چودہ سال کے بعد جب کالے غلام کی آنکھ کھلی تو اس نے سمجھا کہ میں چند گھنٹے سویا ہوں، جلدی جلدی لکڑیاں کاٹ کر وہ شہر میں پہنچا تو یہ دیکھ کر کہ شہر کے حالات بدلے ہوئے ہیں دریافت کیا تو سارا قصہ معلوم ہوا اور اسی غلام کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں سب سے پہلے ایک کالا غلام جائے گا۔

(تفسیر ابن کثیر، ج۶، ص ۱۰۱،پ۱۹، الفرقان: ۳۸)

 

▪️مشہور مؤرخ علامہ مسعودی بیان کرتے ہیں کہ ''اصحاب الرس'' حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور یہ دو قبیلے تھے ''قیدما'' (قید ماہ ) اور دوسرا ''یامین'' یا ''رعویل'' اور یہ دونوں قبیلے یمن میں آباد تھے۔

 

▪️مصر کے ایک عالم فرج اللہ ذکی کُردی کہتے ہیں کہ لفظ ''رس'' ، ''ارس'' کا مخفف ہے اور یہ شہر قفقاز کے علاقہ میں واقع ہے اس وادی میں اللہ تعالیٰ نے ایک نبی کو مبعوث فرمایا جن کا نام ابراہیم زردشت تھا۔ انہوں نے اپنی قوم کو دین حق کی دعوت دی مگر ان کی قوم نے سرکشی اور بغاوت اختیار کی چنانچہ یہ قوم عذابِ الٰہی سے ہلاک کر دی گئی۔

 

''اصحاب الرس'' کے بارے میں یہ آٹھ اقوال ہیں ۔

 

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ''اصحاب الرس'' کے بارے میں قرآن مجید سے اتنا تو پتا چلتا ہے کہ ان لوگوں کا وجود یقیناً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان کے زمانہ کی کسی قوم کا تذکرہ ہے یا کسی قدیم العہد قوم کا ذکر ہے تو قرآن مجید نے اس کے بارے میں کچھ بھی بیان نہیں فرمایا ہے اور مذکورہ بالا تفسیری روایتوں سے اس کا قطعی فیصلہ ہونا بہت ہی مشکل ہے۔

واللہ تعالیٰ اعلم۔

https://www.facebook.com/مجھے-ہے-حکمِ-اذاں-106052177954257/

🔰WJS🔰