Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

کہانی - آسمان سے بھینس گری اور جہاز تباہ

١٩۵٦ء میں امریکا میں ایک بحری جہاز تیل لے کر جا رہا تھا۔ یہ جہاز اچانک اپنے روٹ سے ہٹ گیا۔ اور پھر اچانک بلند ہوتی لہروں یا کسی اور وجہ ...



١٩۵٦ء میں امریکا میں ایک بحری جہاز تیل لے کر جا رہا تھا۔ یہ جہاز اچانک اپنے روٹ سے ہٹ گیا۔ اور پھر اچانک بلند ہوتی لہروں یا کسی اور وجہ سے یہ جہاز اپنا توازن برقرار نہ رکھ پایا اور پانی میں موجود ایک چٹان سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا۔ حادثے کے موقع پر جہاز کے کپتان نے لائف بوٹ کی مدد سے اپنی جان بچائی۔ لیکن حادثے کے بعد جہاز کے کپتان کو گرفتار کر لیا گیا کیونکہ تیل کے نقصان کے ساتھ ساتھ جہاز بھی تباہ ہو گیا تھا اور اس کا ذمہ دار جہاز کا کپتان تھا۔ گرفتاری کے بعد اس سے حادثے کی وجہ پوچھی گئی تو کپتان نے بتایا وہ جہاز کے ڈیک پر موجود تھا، آسمان بالکل صاف تھا۔ اچانک آسمان سے آبشار کی طرح ڈیک پر پانی گرا اور پانی کے ساتھ ہی آسمان سے ایک موٹی تازی بھینس نیچے گری۔ بھینس کے گرنے سے جہاز کا توازن بگڑ گیا اور یہ چٹان سے ٹکرا گیا۔ جس کی وجہ سے جہاز تباہ ہو کر ڈوب گیا۔

 

یہ ایک عجیب قسم کی سٹوری یا جواز تھا اور کوئی بھی نارمل شخص اس سٹوری پر یقین کرنے کیلئے تیار نہیں تھا۔ شائد آپ بھی اس پر یقین نہیں کریں گے کیونکہ اگر آسمان بالکل صاف ہو، آسمان سے اچانک آبشار کی طرح پانی گرے اور ذرا دیر بعد ایک دھماکے کے ساتھ آسمان سے ایک بھینس نیچے گر جائے تو اس پر کون یقین کرے گا۔ کپتان کی بات پر بھی کسی نے یقین نہیں کیا تھا۔ آئل کمپنی نے اس کو جھوٹا قرار دے دیا۔ پولیس نے اسے مجرم ڈکلیئر کر دیا اور آخر میں نفسیات دانوں نے بھی اسے پاگل اور جھوٹا قرار دے دیا۔ اور کپتان کو پاگل خانے میں داخل کروا دیا گیا۔ یہ وہاں پچیس سال تک قید رہا اور اس قید کے دوران اور پاگلوں کے درمیان رہنے کی وجہ سے یہ حقیقتاً پاگل ہو گیا۔

 

یہ اس کہانی کے سکے کا ایک رخ تھا۔ اگر میں بھی آپ سے پوچھوں کہ کیا یہ کپتان سچ بول رہا تھا تو آپ میں سے بھی اکثر دوست کہیں گے یہ ممکن ہی نہیں کہ آسمان صاف ہو اور آسمان سے کوئی بھینس گرے۔ اس پہلو کو پڑھنے والے اس کپتان کو پاگل یا جھوٹا ہی کہیں گے۔

 

 اب آپ اس کہانی کے سکے کا دوسرا رخ ملاحظہ کیجیئے اور اس رخ کو سننے کے بعد آخر میں آپ کو یہ کپتان دنیا کامظلوم ترین شخص دکھائی دے گا۔

 

اس واقعے کے پچیس سال بعد ایئر فورس کے ایک ریٹائرڈ افسر نے اپنی یادداشتوں پر مبنی ایک کتاب لکھی۔ اس کتاب میں اس نے انکشاف کیا، ١٩۵٦ء میں ایک پہاڑی جنگل میں آگ لگ گئی تھی اور اسے آگ بجھانے کا ٹاسک دیا گیا تھا۔ اس نے ایک ہوائی جہاز کے ساتھ پانی کا ایک بہت بڑا ٹینک باندھا۔ وہ اس ٹینک کو پانی میں ڈبو کر بھرتا۔ جنگل کے اوپر جاتا اور پانی آگ پر گرا دیتا اور ٹینک بھرنے کیلئے دوبارہ پانی کی طرف رخ کر لیتا۔ وہ ایک بار پانی کا ٹینک لے کر جا رہا تھا کہ اسے اچانک ٹینک کے اندر اچھل کود محسوس ہوئی۔ اسے محسوس ہوا ٹینک کے اندر کوئی زندہ چیز چلی گئی ہے اور اگر اس نے ٹینک نیچے نہ گرایا تو اس چیز کی اچھل کود سے اس کا ہوائی جہاز گر جائے گا۔ اس نے فوراً پانی والا ٹینک بٹن دبا کر کھول دیا۔ ٹینک سے پانی آبشار کی مانند نیچے گرا اور اس کے ساتھ ہی موٹی تازی بھینس بھی نیچے کی طرف گر گئی۔ یہ پانی اور بھینس نیچے ایک بحری جہاز کے ڈیک پر جا گری۔

 

 آپ اب کہانی کے اس پہلو کو پہلے اینگل سے جوڑ کر دیکھئے، آپ کو سارا منظر نامہ تبدیل ہوتا ہوا دکھائی دے گا۔

 

دوستو! یاد رکھیئے آپ جب تک دوسرے فریق کا موقف نہ سن لیں اور اس کی اچھی طرح جانچ نہ کر لیں اس وقت تک آپ کسی شخص کی کہانی کو جھوٹا کہنے سے بچیں۔ کیونکہ جب تک ملزم اور مدعی کا مؤقف سامنے نہیں آتا اس وقت تک صورتحال واضح نہیں ہوتی۔

https://www.facebook.com/مجھے-ہے-حکمِ-اذاں-106052177954257/

🔰WJS🔰