Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

ذرا نظر کر آفاق پر - نصیب ہو تجھے عرفانِ خداوندی

*اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ وَ الۡفُلۡکِ الَّتِیۡ تَجۡرِیۡ فِی الۡبَحۡرِ بِمَا یَ...



*اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ وَ الۡفُلۡکِ الَّتِیۡ تَجۡرِیۡ فِی الۡبَحۡرِ بِمَا یَنۡفَعُ النَّاسَ وَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ مَّآءٍ فَاَحۡیَا بِہِ الۡاَرۡضَ بَعۡدَ مَوۡتِہَا وَ بَثَّ فِیۡہَا مِنۡ کُلِّ دَآبَّۃٍ ۪ وَّ تَصۡرِیۡفِ الرِّیٰحِ وَ السَّحَابِ الۡمُسَخَّرِ بَیۡنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّعۡقِلُوۡنَ ﴿۱۶۴﴾وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّتَّخِذُ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَنۡدَادًا یُّحِبُّوۡنَہُمۡ کَحُبِّ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ؕوَ لَوۡ یَرَی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡۤا اِذۡ یَرَوۡنَ الۡعَذَابَ ۙ اَنَّ الۡقُوَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیۡعًا ۙ وَّ اَنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعَذَابِ ﴿۱۶۵﴾اِذۡ تَبَرَّاَ الَّذِیۡنَ اتُّبِعُوۡا مِنَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡا وَ رَاَوُا الۡعَذَابَ وَ تَقَطَّعَتۡ بِہِمُ الۡاَسۡبَابُ ﴿۱۶۶﴾وَ قَالَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡا لَوۡ اَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَتَبَرَّاَ مِنۡہُمۡ کَمَا تَبَرَّءُوۡا مِنَّا ؕ کَذٰلِکَ یُرِیۡہِمُ اللّٰہُ اَعۡمَالَہُمۡ حَسَرٰتٍ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ مَا ہُمۡ بِخٰرِجِیۡنَ مِنَ النَّارِ ﴿۱۶۷﴾  (البقرۃ2: 164-167)*

*ترجمہ:*

(اس حقیقت کوپہچاننے کے لیے اگر کوئی نشانی اور علامت درکار ہے تو جو لوگ عقل سے کا م لیتے ہیں ان کے لیے آسمانوں اور زمین کی ساخت میں ، رات اور دن کےپیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں ، ان کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لیے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں ، بارش کے اس پانی میں جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے زمین کو زندگی بخشتا ہےاور اپنے اسی انتظام کی بدولت زمین میں ہر قسم کی جاندار مخلوق کو پھیلاتا ہے، ہواؤں کی گردش میں ، اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں ، بے شمار نشانیاں ہیں ۔﴿مگر وحدتِ خدا وندی پر دلالت کرنے والے ان کھلے کھلے آثار کے ہوتے ہوئے بھی ﴾ کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مد مقابل بناتے ہیں اور ان کے ایسے گرویدہ ہیں جیسی اللہ کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہیے۔ حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں ۔کاش ، جو کچھ عذاب کو سامنے دیکھ کر انھیں سوجھنے والاہےوہ آج ہی ان ظالموں کو سوجھ جائے کہ ساری طاقتیں اور سارے اختیارات اللہ ہی کےقبضے میں ہیں اور یہ کہ اللہ سزا دینے میں بھی بہت سخت ہے۔ جب وہ سزا دے گا اس وقت کیفیت یہ ہو گی کہ وہی پیشوا اور رہنما، جن کی دنیا میں پیروی کی گئی تھی، اپنےپیروؤں سے بے تعلقی ظاہر کریں گے ، مگر سز ا پا کر رہیں گے اور ان کے سارے اسباب و وسائل کا سلسلہ کٹ جائے گا۔ اور وہ لوگ جو دنیا میں ان کی پیروی کرتے تھے ، کہیں گے کہ کاش ہم کو پھر ایک موقع دیا جاتا   تو جس طرح آج یہ ہم سے بے زاری ظاہر کر رہے ہیں ، ہم ان سے بے زار ہو کر دکھا دیتے ۔یوں اللہ ان لوگو ں کے وہ اعمال ، جو یہ دنیا میں کر رہے ہیں ،ان کے سامنے اس طرح لائے گا کہ یہ حسرتوں اور پشیمانیوں کے ساتھ ہاتھ ملتے رہیں گے مگر آگ سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے ۔

*تفسیر و تشریح:*

یہ آیت اس لحاظ سے بڑی جامع ہے کہ کائنات کی تخلیق اور اس کے نظم و تدبیر کے متعلق سات اہم امور کا اس میں یکجا تذکرہ ہے، جو کسی آیت میں نہیں١۔ آسمان اور زمین کی پیدائش، جن کی وسعت و عظمت محتاج بیان نہیں۔ ٢۔ رات اور دن کا یکے بعد دیگرے آنا، دن کو روشنی اور رات کو اندھیرا کر دینا تاکہ کاروبار معاش بھی ہو سکے اور آرام بھی۔ پھر رات کا لمبا اور دن کا چھوٹا ہونا اور پھر اس کے برعکس دن کا لمبا اور رات کا چھوٹا ہونا۔٣۔ سمندر میں کشتیوں اور جہازوں کا چلنا، جن کے ذریعے سے تجارتی سفر بھی ہوتے ہیں اور ٹنوں کے حساب سے سامان رزق و آسائش ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے۔ ٤۔ بارش جو زمین کی شادابی و روئیدگی کے لئے نہایت ضروری ہے۔ ٥۔ ہر قسم کے جانوروں کی پیدائش، جو نقل و حمل، کھیتی باڑی اور جنگ میں بھی کام آتے ہیں اور انسانی خوراک کی بھی ایک بڑی مقدار ان سے پوری ہوتی ہے۔ ٦۔ ہر قسم کی ہوائیں ٹھنڈی بھی گرم بھی، بارآور بھی اور غیر بارآور بھی، مشرقی مغربی بھی اور شمالی جنوبی بھی۔ انسانی زندگی اور ان کی ضروریات کے مطابق۔ ٧۔ بادل جنہیں اللہ تعالٰی جہاں چاہتا ہے، برساتا ہے۔ یہ سارے امور کیا اللہ تعالٰی کی قدرت اور اس کی وحدانیت پر دلالت نہیں کرتے، یقینا کرتے ہیں۔ کیا اس تخلیق میں اور اس نظم و تدبیر میں اس کا کوئی شریک ہے؟ نہیں۔ یقینا نہیں۔ تو پھر اس کو چھوڑ کر دوسروں کو معبود اور حاجت روا سمجھنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ مذکورہ دلائل کے باوجود ایسے لوگ ہیں جو اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کو شریک بنا لیتے ہیں اور ان سے اسی طرح کی محبت کرتے ہیں جس طرح اللہ سے کرنی چاہیے، بعثت محمدی کے وقت ہی ایسا نہیں تھا بلکہ شرک کے یہ مظاہر آج بھی عام ہیں، بلکہ اسلام کے نام لیواؤں کے اندر بھی یہ بیماری گھر کر گئی ہے۔ انہوں نے نہ صرف غیراللہ اور پیروں فقیروں اور سجادہ نشینوں کو اپنا ماوی وملجا اور قبلہ حاجات بنارکھا ہے بلکہ ان سے ان کی محبت ،اللہ سے بھی زیادہ ہے اور توحید کا وعظ ان کو بھی اسی طرح کھلتاجس طرح مشرکین مکہ کو اس سے تکلیف ہوتی تھی جس کانقشہ اللہ نے اس آیت میں کھینچا ہے آیت ( وَاِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ اشْمَاَزَّتْ قُلُوْبُ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ ۚ وَاِذَا ذُكِرَ الَّذِيْنَ مِنْ دُوْنِهٖٓ اِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ) 39۔ الزمر;45) تاہم اہل ایمان کو مشرکین کے برعکس اللہ تعالٰی ہی سے سب سے زیادہ محبت ہوتی ہے۔ کیونکہ مشرکین جب سمندر میں پھنس جاتے ہیں تو وہاں انہیں اپنے معبود بھول جاتے ہیں اور وہاں صرف اللہ ہی کو پکارتے ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ مشرکین سخت مصیبت میں مدد کے لئے صرف ایک اللہ کو پکارتے ہیں۔جس وقت پیشوا لوگ اپنے تابعداروں سے بیزار ہوجائیں گے اور عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور کل رشتے ناتے ٹوٹ جائیں گے۔ اور تابعدار لوگ کہنے لگیں گے، کاش ہم دنیا کی طرف دوبارہ جائیں تو ہم بھی ان سے ایسے ہی بیزار ہو جائیں جیسے یہ ہم سے ہیں، اسی طرح اللہ تعالٰی انہیں ان کے اعمال دکھائے گا ان کو حسرت دلانے کو، یہ ہرگز جہنم سے نہیں نکلیں گے۔ آخرت میں پیروں اور گدی نشینوں کی بےبسی اور بےوفائی پر مشرکین حسرت کریں گے لیکن ان کو وہاں اس حسرت کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا وہ کہیں گے کاش دنیا میں ہی وہ شرک سے توبہ کرلیں۔(احسن البیان)

یعنی اگر انسان کائنات کے اس کارخانے کو، جو شب و روز اس کی آنکھوں کے سامنے چل رہا ہے ، محض جانوروں کی طرح نہ دیکھے بلکہ عقل سے کام لے کر اس نظام پر غور کرے، اور ضد یا تعصّب سے آزاد ہو کر سوچے، تو یہ آثار جو اس کے مشاہدے میں آرہے ہیں اس نتیجے پر پہنچانے کے لیے بالکل کافی ہیں کہ یہ عظیم الشان نظام ایک ہی قادرِ مطلق حکیم کے زیرِ فرمان ہے، تمام اختیار و اقتدار بالکل اُسی ایک کے ہاتھ میں ہے، کسی دُوسرے کی خود مختارانہ مداخلت یا مشارکت کے لیے اس نظا م میں ذرہ برابر کوئی گنجائش نہیں، لہٰذا فی الحقیقت وہی ایک خدا تمام موجوداتِ عالم کو خدا ہے، اس کے سوا کوئی ہستی کسی قسم کے اختیارات رکھتی ہی نہیں کہ خدائی اور اُلوہیّت میں اس کا کوئی حصّہ ہو۔یعنی خدائی کی جو صفات اللہ کے لیے خاص ہیں اُن میں سے بعض کو دُوسروں کی طرف منسُوب کرتے ہیں ، اور خدا ہونے کی حیثیت سے بندوں پر اللہ تعالیٰ کے جو حقوق ہیں، وہ سب یا اُن میں سے بعض حقوق یہ لوگ اُن دُوسرے بناوٹی معبُودوں کو ادا کرتے ہیں۔ مثلاً سلسلہء اسباب پر حکمرانی ، حاجت روائی، مشکل کشائی، فریاد رسی، دُعائیں سُننا اور غیب و شہادت پر چیز سے واقف ہونا، یہ سب اللہ کی مخصُوص صفات ہیں۔ اور یہ صرف اللہ ہی کا حق ہے کہ بندے اُسی کو مقتدرِ اعلیٰ مانیں، اُسی کے آگے اعترافِ بندگی میں سَر جُھکائیں، اُسی کی طرف اپنی حاجتوں میں رجُوع کریں، اُسی کو مدد کے لیے پکاریں، اُسی پر بھروسہ کریں، اُسی سے اُمیدیں وابستہ کریں اور اُسی سے ظاہر و باطن میں ڈریں۔ اِسی طرح مالک الملک ہونے کی حیثیت سے یہ منصب بھی اللہ ہی کا ہے کہ اپنی رعیّت کے لیے حلال و حرام کے حدُود مقرر کرے ، ان کے فرائض و حقوق معیّن کرے، ان کو امر ونہی کے احکام دے، اور انھیں یہ بتائے کہ اس کی دی ہوئی قوتوں اور اس کے بخشے ہوئے وسائل کو وہ کس طرح کِن کاموں میں کن مقاصد کے لیے استعمال کریں۔ اور یہ صرف اللہ کا حق ہے کہ بندے اس کی حاکمیّت تسلیم کریں، اس کے حکم کو منبعِ قانون مانیں، اسی کو امر و نہی کا مختا ر سمجھیں، اپنی زندگی کے معاملات میں اس کے فرمان کو فیصلہ کُن قرار دیں، اور ہدایت و رہنمائی کے لیے اُسی کی طرف رُجوع کریں۔ جو شخص خدا کی اِن صفات میں سے کسی صِفْت کو بھی کسی دُوسرے کی طرف منسُوب کرتا ہے ، اور اُس کے اِن حقوق میں سے کوئی ایک حق بھی کسی دُوسرے کو دیتا ہے وہ دراصل اُسے خدا کا مدِّ مقابل اور ہمسر بناتا ہے۔ اور اسی طرح جو شخص یا جو ادارہ اِن صفات میں سے کسی صِفْت کا مدّعی ہو اور ان حقوق میں سے کسی حق کا انسانوں سے مطالبہ کرتا ہو، وہ بھی دراصل خدا کا مدِّ مقابل اور ہمسر بنتا ہے خواہ زبان سے خدائی کا دعویٰ کرے یا نہ کرے۔یعنی ایمان کا اقتضا یہ ہے کہ آدمی کے لیے اللہ کی رضا ہر دُوسرے کی رضا پر مقدم ہو اور کسی چیز کی محبت بھی انسان کے دل میں یہ مرتبہ اور مقام حاصل نہ کرلے کہ وہ اللہ کی محبت پر اسے قربان نہ کر سکتا ہو۔ یہاں خاص طور پر گمراہ کرنے والے پیشوا ؤ ں اور لیڈروں اور اُن کے نادان پیرو ؤ ں کے انجام کا اس لیے ذکر کیا گیا ہے کہ جس غلطی میں مُبتلا ہو کر پچھلی اُمتّیں بھٹک گئیں اس سے مسلمان ہوشیار رہیں اور رہبروں میں امتیاز کرنا سیکھیں اور غلط رہبری کرنے والوں کے پیچھے چلنے سے بچیں۔(تفہیم القرآن)

اب جو آیت آ رہی ہے اس کے مطالعہ سے پہلے ایک بات سمجھ لیجیے کہ سورۃ البقرۃ کا نصف ثانی جو بائیس رکوعوں پر مشتمل ہے اور جس کا آغاز انیسویں رکوع سے ہوا ہے‘ اس میں ترتیب کیا ہے۔ سورۃ البقرۃ کے پہلے اٹھارہ رکوعوں کی تقسیم عمودی (vertical) ہے۔ یعنی چار رکوع اِدھر‘ دس درمیان میں‘ پھر چار اُدھر۔لیکن انیسویں رکوع سے اب اُفقی (horizontal) تقسیم کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس حصے ّمیں چار مضامین تانے بانے کی طرح بنے ہوئے ہیں۔ یا یوں کہہ لیں کہ چار لڑیاں َہیں جن کو بٹ کر رسّی بنا دیا گیا ہے۔ ان چار میں سے دو لڑیاں تو شریعت کی ہیں‘ جن میں سے ایک عبادات کی اور دوسری احکام و شرائع کی ہے کہ یہ واجب ہے‘ یہ کرنا ہے‘ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے۔ نماز فرض ہے‘ روزہ فرض ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔ احکام و شرائع میں خاص طور پر شوہر اور بیوی کے تعلق کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ اس لیے کہ معاشرتِ انسانی کی بنیاد یہی ہے۔ لہٰذا اس سورت میں آپ دیکھیں گے کہ عائلی قوانین کے ضمن میں تفصیلی احکام آئیں گے۔ جبکہ دوسری دو لڑیاں جہاد بالمال اور جہاد بالنفس کی ہیں۔ جہاد بالنفس کی آخری انتہا قتال ہے جہاں انسان نقد جان ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ کارزار میں حاضر ہو جاتا ہے۔
اب ان چاروں مضامین یا چاروں لڑیوں َکو ایک مثال سے سمجھ لیجیے۔ فرض کیجیے ایک سرخ لڑی ہے‘ایک پیلی ہے‘ ایک نیلی ہے اور ایک سبز ہے ‘اور ان چاروں لڑیوں کو ایک رسّی کی صورت میں بٹ دیا گیا ہے۔ آپ اس رسّی کو دیکھیں گے تو چاروں رنگ کٹے پھٹے نظر آئیں گے۔ پہلے سرخ‘ پھر پیلا‘ پھر نیلا اور پھر سبز نظر آئے گا۔ لیکن اگر رسّی کے بل کھول دیں تو ہر لڑی مسلسل نظر آئے گی۔ چنانچہ سورۃ البقرۃ کے نصف آخر میں عبادات‘ احکامِ شریعت‘ جہاد بالمال اور جہاد بالنفس کے چار مضامین چار لڑیوں کی مانند گتھے ہوئے ہیں۔ یہ چاروں لڑیاں تانے بانے کی طرح بنی ہوئی ہیں۔ لیکن اسی بنتی ُمیں بہت بڑے بڑے پھول موجود ہیں۔ یہ پھول قرآن مجید کی عظیم ترین اور طویل آیات ہیں ‘ جن کی نمایاں ترین مثال آیت الکرسی کی ہے۔ ان عظیم آیات میں سے ایک آیت یہاں بیسویں رکوع کے آغاز میں آ رہی ہے‘ جسے میں نے ’’آیت الآیات‘‘ کا عنوان دیا ہے۔ اس لیے کہ قرآن مجید کی کسی اور آیت میں اس قدر مظاہر ِفطرت (phenomena of nature) یکجا نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام مظاہر فطرت کو اپنی آیات قرار دیتا ہے۔ آسمان اور زمین کی تخلیق‘ رات اور دن کا اُلٹ پھیر‘ آسمان کے ستارے اور زمین کی نباتات‘ یہ سب آیات ہیں جن کا ذکر قرآن مجید میں مختلف مقامات پر کیاگیا ہے‘ لیکن یہاں بہت سے مظاہر فطرت کو جس طرح ایک آیت میں سمو یا گیا ہے یہ حکمت ِقرآنی کا ایک بہت بڑا پھول ہے جو ان چار لڑیوں کی بنتی ُکے اندر آ گیا ہے۔
ان مظاہر ِفطرت کو دیکھو اور ان کے خالق اور ّمدبر کو پہچانو! ان آیاتِ آفاقی پر غور و فکر اور ان کے خالق کو پہچاننے کا جو عملی نتیجہ نکلنا چاہیے اور جس تک عام طور پر لوگ نہیں پہنچ پاتے اب اگلی آیت میں اس کا تذکرہ ہے۔ نتیجہ تو یہ نکلنا چاہیے کہ پھر محبوب اللہ ہی ہو‘ شکر اسی کا ہو‘ اطاعت اسی کی ہو‘ عبادت اسی کی ہو۔ جب سورج میں اپنا کچھ نہیں‘ اسے اللہ نے بنایا ہے اور اسے حرارت عطا کی ہے‘ چاند میں کچھ نہیں‘ ہوائیں چلانے والا بھی وہی ہے تو اور کسی شے کے لیے کوئی شکر نہیں‘ کوئی عبادت نہیں‘ کوئی ڈنڈوت نہیں‘کوئی سجدہ نہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ہی مطلوب و مقصود بن جائے‘ وہی محبوب ہو۔ لَا مَحْبُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ‘ لَا مَقْصُوْدَ اِلاَّ اللّٰہُ‘ لَا مَطْلُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ جن لوگوں کی یہاں تک رسائی نہیں ہو پاتی وہ کسی اور شے کو اپنا محبوب و مطلوب بنا کر اس کی پرستش شروع کر دیتے ہیں۔خدا تک نہیں پہنچے تو ؏ ’’اپنے ہی حسن کا دیوانہ بنا پھرتا ہوں‘‘ کے مصداق اپنے نفس ہی کو معبود بنا لیا اور خواہشاتِ نفس کی پیروی میں لگ گئے۔ کچھ لوگوں نے اپنی قوم کو معبود بنا لیا اور قوم کی برتری اور سربلندی کے لیے جانیں بھی دے رہے ہیں۔ بعض نے وطن کو معبود بنا لیا ۔ اس حقیقت کو علامہ اقبال نے سمجھا ہے کہ اِس دَور کا سب سے بڑا بت ُوطن ہے۔ ان کی نظم ’’وطنیّت‘‘ ملاحظہ کیجیے: ؎
اِس دَور میں مَے اور ہے‘ جام اور ہے ‘ جم اور ساقی
نے بنا کی روشِ لطف و ستم اور
تہذیب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
اِن تازہ خداؤ ں میں بڑا سب سے وطن ہے
جوپیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے!


اگلی آیت میں تمام معبودانِ باطل کی نفی کر کے ایک اللہ کو اپنا محبوب اور مطلوب و مقصود بنانے کی دعوت دی گئی ہے۔یہ دراصل ایک فلسفہ ہے کہ ہر باشعور انسان کسی شے کو اپنا آئیڈیل‘ نصب العین یا آدرش ٹھہراتا ہے اور پھراس سے بھرپور محبت کرتا ہے‘ اس کے لیے جیتا ہے‘ اس کے لیے مرتا ہے‘ قربانیاں دیتا ہے‘ ایثار کرتا ہے۔ چنانچہ کوئی قوم کے لیے‘ کوئی وطن کے لیے اور کوئی خود اپنی ذات کے لیے قربانی دیتا ہے۔ لیکن بندۂ مؤمن یہ سارے کام اللہ کے لیے کرتا ہے ۔ وہ اپنا مطلوب و مقصود اور محبوب صرف اللہ کو بناتا ہے۔ وہ اُسی کے لیے جیتا ہے‘ اُسی کے لیے مرتاہے: {اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۱۶۲﴾ۙ} (الانعام) ’’بے شک میری نماز‘ میری قربانی‘ میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے‘‘۔ اس کے برعکس عام انسانوں کا معاملہ یہی ہوتا ہے کہ : ؎
می تراشد فکر ما ہر دم خداوندے دگر
رست از یک بند تا افتاد در بندے دگر


انسان اپنے ذہن سے معبود تراشتا رہتا ہے‘ ان سے محبت کرتا ہے اور ان کے لیے قربانیاں دیتا ہے۔ یہ مضمون سورۃ الحج کے آخری رکوع میں زیادہ وضاحت کے ساتھ آئے گا۔؏’’گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں!‘‘یہ گویا لٹمس ٹیسٹ ہے۔ کوئی شے اگر اللہ سے بڑھ کر محبوب ہو گئی تو وہ تمہاری معبود ہے ۔ تم نے اللہ کو چھوڑ کر اُس کو اپنا معبود بنا لیا‘ چاہے وہ دولت ہی ہو۔ حدیث نبویؐ ہے : ((تَعِسَ عَبْدُ الدِّیْنَارِ وَعَبْدُ الدِّرْھَمِ)) (۱۹) ’’ہلاک اور برباد ہو جائے درہم و دینار کا بندہ‘‘۔ نام خواہ عبد الرحمن ہو ‘ حقیقت میں وہ عبد الدینار ہے۔ اس لیے کہ وہ یہ خواہش رکھتا ہے کہ دینار آنا چاہیے‘ خواہ حرام سے آئے یا حلال سے‘ جائز ذرائع سے آئے یا ناجائز ذرائع سے۔ چنانچہ اس کا معبود اللہ‘نہیں‘ دینار ہے۔ ہندو نے لکشمی دیوی کی مورتی بنا کر اسے پوجنا شروع کر دیا کہ یہ لکشمی دیوی اگر ذرا مہربان ہو جائے گی تو دولت کی ریل پیل ہو جائے گی۔ ہم نے اس درمیانی واسطے کو بھی ہٹا کر براہِ راست ڈالر اور پیڑو ڈالر کو پوجنا شروع کر دیا اور اس کی خاطر اپنے وطن اوراپنے ماں باپ کو چھوڑ دیا۔ چنانچہ یہاں کتنے ہی لوگ سسک سسک کر مر جاتے ہیں اور آخری لمحات میں ان کا بیٹا یا بیٹی ان کے پاس موجود نہیں ہوتا بلکہ دیارِ غیر میں ڈالر کی پوجا میں مصروف ہوتا ہے۔{وَ لَوۡ یَرَی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡۤا اِذۡ یَرَوۡنَ الۡعَذَابَ ۙ اَنَّ الۡقُوَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیۡعًا ۙ } ’’اور اگر یہ ظالم لوگ اُس وقت کو دیکھ لیں جب یہ دیکھیں گے عذاب کو ‘تو (ان پر یہ بات واضح ہو جائے کہ) قوت تو ساری کی ساری اللہ کے پاس ہے۔‘‘ یہاں ظلم شرک کے معنی میں آیا ہے اور ظالم سے مراد مشرک ہیں۔اُس وقت آنکھ کھلے گی تو کیا فائدہ ہو گا؟ اب آنکھ کھلے تو فائدہ ہے۔ہر انسانی معاشرے میں کچھ ایسے لوگ ضرور ہوتے ہیں جودوسرے لوگوں کو اپنے پیچھے لگا لیتے ہیں‘ چاہے اربابِ اقتدار ہوں ‘چاہے مذہبی مسندوں کے والی ہوں۔ لوگ انہیں اپنے پیشوا اور راہنما مان کر ان کی پیروی کرتے ہیں اور ان کی ہرسچی جھوٹی بات پر سرِ تسلیم خم کرتے ہیں۔جب عذابِ آخرت ظاہر ہو گا تو یہ پیشوا اور راہنما اس عذاب سے بچانے میں اپنے پیروئوں کے کچھ بھی کام نہ آئیں گے اور ان سے صا ف صاف اظہارِبراء ت اور اعلانِ لاتعلقی کر دیں گے۔جب جہنم ان کی نگاہوں کے سامنے آ جائے گی تو تمام رشتے منقطع ہو جائیں گے۔ سورۂ عبس میں اس نفسا نفسی کا نقشہ یوں کھینچا گیا ہے : {یَوۡمَ یَفِرُّ الۡمَرۡءُ مِنۡ اَخِیۡہِ ﴿ۙ۳۴﴾وَ اُمِّہٖ وَ اَبِیۡہِ ﴿ۙ۳۵﴾وَ صَاحِبَتِہٖ وَ بَنِیۡہِ ﴿ؕ۳۶﴾لِکُلِّ امۡرِیًٔ مِّنۡہُمۡ یَوۡمَئِذٍ شَاۡنٌ یُّغۡنِیۡہِ ﴿ؕ۳۷﴾} ’’اُس روز آدمی بھاگے گا اپنے بھائی سے ‘اور اپنی ماں اور اپنے باپ سے‘ اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے ۔ ان میں سے ہر شخص پر اُس دن ایسا وقت آ پڑے گا کہ اُسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہو گا‘‘۔ اسی طرح سورۃ المعارج میں فرمایا گیا ہے: {یَوَدُّ الۡمُجۡرِمُ لَوۡ یَفۡتَدِیۡ مِنۡ عَذَابِ یَوۡمِئِذٍۭ بِبَنِیۡہِ ﴿ۙ۱۱﴾وَ صَاحِبَتِہٖ وَ اَخِیۡہِ ﴿ۙ۱۲﴾وَ فَصِیۡلَتِہِ الَّتِیۡ تُــٔۡوِیۡہِ ﴿ۙ۱۳﴾وَ مَنۡ فِی الۡاَرۡضِ جَمِیۡعًا ۙ ثُمَّ یُنۡجِیۡہِ ﴿ۙ۱۴﴾} ’’مجرم چاہے گا کہ اُس دن کے عذاب سے بچنے کے لیے اپنی اولاد کو‘ اپنی بیوی کو‘ اپنے بھائی کو‘ اپنے قریب ترین خاندان کو جو اسے پناہ دینے والا تھا ‘ اور روئے زمین کے سب انسانوں کو فدیہ میں دے دے اور یہ تدبیر اسے نجات دلا دے ‘‘۔ یہاں فرمایا: {تَقَطَّعَتۡ بِہِمُ الۡاَسۡبَابُ ﴿۱۶۶﴾} ’’ان کے سارے رشتے منقطع ہو جائیں گے ‘‘ یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ جن رشتوں کی وجہ سے ہم حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر رہے ہیں‘ جن کی دلجوئی کے لیے حرام کی کمائی کرتے ہیں اور جن کی ناراضی کے خوف سے دین کے راستے پر آگے نہیں بڑھ رہے ہیں‘ یہ سارے رشتے اسی دنیا تک محدود ہیں اور اُخروی زندگی میں یہ کچھ کام نہ آئیں گے۔وہ کہیں گے کاش ہم نے سمجھا ہوتا‘ کاش ہم نے ان کی پیروی نہ کی ہوتی‘ کاش ہم نے ان کو اپنا لیڈر اور اپنا ہادی و رہنما نہ مانا ہوتا!!(بیان القرآن)