Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

بے شک اللہ ہی جانتا ہے سب کے دلوں کے حال

راشن کی تقسیم کا سلسلہ شروع تھا۔ جیسے ہی ایک پرانے مکان پر نظر پڑی، اُس کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہا ہی تھا کہ ساتھ میں آئے محلے کے ایک فرد نے م...



راشن کی تقسیم کا سلسلہ شروع تھا۔ جیسے ہی ایک پرانے مکان پر نظر پڑی، اُس کا دروازہ کھٹکھٹانا چاہا ہی تھا کہ ساتھ میں آئے محلے کے ایک فرد نے منع کر دیا۔

پوچھنے پر وہ کہنے لگا صاحب رہنے دیں۔ یہ ایک فحاشہ عورت کا گھر ہے۔ اس کو بہت جگہ سے راشن آتا رہتا ہے۔

یہ بات سُن کر مجھے یقین ہو گیا کہ محلّے میں سے کسی نے بھی اِس کو راشن فراہم نہیں کیا ہو گا۔ جیسے تیسے میں نے اُس سے بحث کر کے دورازے پر دستک دی۔

اندر سے دھیمی سی آواز آئی ۔۔۔  کون؟

میں نے بتایا کہ راشن سپلائی کر رہے ہیں۔ آپ لینا پسند کریں گی
تو انتہائی غمگین آواز آئی کہ آپ واپس چلے جائیں۔ پہلے ہی اِس محلّےمیں لوگ ہمیں جینے نہیں دیتے۔

ہم گزارہ کر لیں گے۔ آپ کی مہربانی آپ محلّے کے شرفاء میں تقسیم کر دیں۔

میں نے بضد ہو کر کہا آپ مُجھے بھائی سمجھیں، محلّے داروں
کی فکر نہ کریں۔

بہت اصرار کرنے کے بعد اُس عورت نے اپنی بیٹھک کا دروازہ کھولا اور ہم نے راشن اور آٹے کا تھیلہ وغیرہ اُس کے گھر میں رکھ دیا۔ وہ خود پردے میں آئی اور شکریہ ادا کرنے لگی۔

لیکن دل مطمعن نہیں تھا کیونکہ وہ باپردہ عورت لگ رہی تھی۔

محلّے کا فرد بھی میرے ساتھ تھا۔ میں نے جوں توں ہمت کر کے
اُس سے پوچھ لیا کہ بہن آپ نے ایسا کیوں کہا؟ اور آپ کے گھر راشن موجود ہے؟

کہنے لگی بھائی گھر میں آلو پڑے ہیں۔ جو پچھلے ایک ہفتے
سے بنا کے کھا رہے ہیں۔ محلے میں سے کسی نے خبر تک نہ لی۔
عورتیں میرے گھر نہیں آتیں اب۔

میں نے پوچھا ایسا کیوں ہے میری بہن؟
آنکھوں میں آنسو لیے بولی میرے خاوند کو وفات پائے 2 سال
کا عرصہ ہو گیا ہے۔ اُس وقت بہت حالات اچھے تھے۔

میرے 2 بچے ہیں اور کچھ ٹائم ٹھیک گزرا۔ میرے والد جتنا کر سکتے تھے کرتے رہے۔ اُن کی وفات کے بعدحالات خراب ہونا شروع ہوگئے۔ بچوں کا اور گھر کا نظام مشکل ہو گیا۔

ایک دن میرے خاوند کا قریبی دوست کچھ عرصہ بعد باہر سے آیا۔ اُس نے مُجھ سے بہت افسوس کیا اور مُجھے کچھ پیسے دے کر چلا گیا۔

پھر وہ کچھ دن بعد آیا اور مجھے گھر کا کُچھ راشن دے گیا۔

دوسری دفعہ لوگوں نے جب میرے دروازے پر گاڑی کھڑی
دیکھی تو طرح طرح کی باتیں کرنا شروع کر دیں۔

پھر جب وہ واپس بیرون مُلک لوٹنے لگا تو جاتے ہوئے میرے
گھر آیا اور کہا بہن یہ میرا نمبر ہے آپ کو کسی بھی چیز کی
ضرورت ہو تو اپنے بھائی سے کہنا کسی محلّے دار سے مانگنے
کی ضرورت نہیں۔

جب وہ باہر نکلا تو محلّے کے لوگوں نے اُسے پکڑ کر مارنا شروع کر دیا۔ تم نے ہمارے محلّے میں گند مچایا ہوا ہے۔

یہ سُن کر میں نے چیخنا شروع کر دیا کہ تم لوگوں نے میرا حال
تک نہ پوچھا اور اگر کوئی بھائی بن کر میرا خیال کر رہا ہے تو تم اُسے بھی مار رہے ہو۔  شرم سے میری جان نکلی جارہی تھی کہ اتنی ہمدردی کا یہ صلہ ملا اُسے!

وہ اُن کو سمجھاتا رہا کہ یہ میری بہنوں جیسی ہے لیکن محلّے کے لوگوں کو جیسے ایک تماشہ ملا تھا لگانے کو۔ خیر وہ جان چھڑا کے وہاں سے چلا گیا۔

کچھ عرصہ تک مجھے اگر کبھی ضرورت ہوتی تو میں کال کر دیتی شرمسار ہو کر اُن کو اور وہ مُجھے بینک میں پیسے حسب ضرورت بھیج دیتے۔

پچھلے 2 ماہ سے اُن کو کال نہیں کی اور پھر یہ وائرس کا مسئلہ
تو سُنا کہ اُن کے ملک کے حالات ذیادہ خراب ہیں۔ دوبارہ نہ میری ہمت ہوئی کبھی اُن کو کال کرنے کی۔

بیوہ سمجھ کر اگر کوئی میری مدد کرنا بھی چاہے تو محلّے والے
مُجھے غلیظ نظروں سے دیکھتے ہیں۔

اور محلّے میں اتنے شرفاء ہیں کہ ہر کوئی گزرتے ہوئے میرے
دروازے پر جھانک کر جاتا ہے۔ باہر جاتے ہوئے مجھے گھورتے
ہوئے جاتا ہے۔ اپنی عورتوں کو میرے گھر نہیں آنے دیتے۔

یہ وائرس تو بہانہ رکھا ہے اللہ نے ہمیں راشن بھیجنے کا ورنہ ضرورت کا سامان بلکل ختم ہونے کو ہے۔ کُچھ دنوں سے اُس بھائی کو کال ملانے کا سوچا لیکن ضمیر نے گوارہ نہ کیا۔ سوچا کہ پتا نہیں اُن کے حالات کیسے ہوں گے۔

میرے بچے کو بھی اب محسوس ہونا شروع ہو گیا ہے کہ محلّے میں ہماری ماں کو لوگ کس نظر سے دیکھتے ہیں۔

ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو دشمنوں کی بیٹیوں
کے سروں پر چادر رکھا کرتے تھے۔ یہ کہاں کے دین دار لوگ ہیں کہ اگر کوئی میرے گھر میری مدد کو آتا ہے تو اُس کو اِس قدر مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں کہ لوگوں نے ڈر کے مارے مجھے زکوۃ تک دینا چھوڑ دی۔

یہ باتیں کرتے کرتے اس کا دوپٹہ آنسوؤں سے بھیگ گیا اور جو میرے ساتھ آدمی بیٹھا تھا وہ شرم سے پانی پانی ہو رہا تھا۔

مجھے سُن کر بہت دُکھ ہوا اور ہم نے راشن کے ساتھ کُچھ
نقد رقم بھی اپنی طرف سے ادا کر دی۔

جو شخص میرے ساتھ تھا وہ باہر نکل کر کچھ بولنے ہی والا تھا کہ مُجھ سے رہا نہ گیا اور اُس کے بولنے سے پہلے ہی شروع ہو گیا کہ
بروز قیامت تم لوگوں کے اِس راشن کو اللہ کیسے قبول کرے گا جب کہ تمہیں محلّے میں رہنے والے اُن لوگوں کی خبر نہیں جو کسی کے دروازے پر نہیں جاتے؟

کوئی کیسا ہے یہ اللہ اور اُس کے درمیان کا معاملہ ہے۔
آنکھوں دیکھا بھی بعض دفعہ سچ نہیں ہوتا۔

اُس کی خاموشی اور نم آنکھوں نے کچھ نہ بولا۔

چار پانچ دن بعد اُس نے محلّے میں سے اچھی خاصی رقم اکٹھی کر کے اُس عورت کے گھر پہنچا دی۔

بے شک اللہ ہی جانتا ہے سب کے دلوں کے حال!
❤️دوسروں کی بھلای کہ لیں پوسٹ شیر کیجے❤️