Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

آسائشات اور شکر گزاری

*از محمد عمران خان* سچ یہی ہے کہ آج کا انسان Human Being روایتی انسان Mankind  سے کہیں زیادہ سہولیات و آسائشات اور تن آسانیوں کے...



*از محمد عمران خان*
سچ یہی ہے کہ آج کا انسان Human Being روایتی انسان Mankind  سے کہیں زیادہ سہولیات و آسائشات اور تن آسانیوں کے باوجود بھی  ناخوش، غیر مطمئن  اور نالاں و سرگرداں ہے، کہیں زیادہ ناشکرا ہے۔ گو کہ اسے بادشاہوں جیسی آسائشات  حاصل ہیں  مگر یہ  جدید انسان  بے شمار جسمانی و ذہنی عوارض کی آماجگاہ بنا ہوا ہے  ۔ انسانوں کی میسحا  ئی کرنے والے ناخدا خود بھنور میں پھنسے نظر آتے ہیں ۔ گزشتہ چند سالوں میں امریکی ڈاکٹروں  میں  دوسرے کسی بھی پیشے کی بہ نسبت خود کشیاں  زیادہ ہو گئی ہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق وہاں  ہر سال  400 تا 500 فزیشنز  خود کشی کر رہے ہیں ۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ اتنی سہولیات، پر آسائش رہائش گاہیں، انواع و اقسام کے لذیذ اشیائے خوردونوش، آرام دہ بسترو صوفہ جات، تیز رفتار سواریاں ، زرق برق لباس و پہناوے، مال و دولت و جائیداد و اثاثہ جات کی فراوانی ،  فنون لطیفہ و جمالیاتی ذوق کے اظہار کے  اَن گنت وسائل و امکانات اور مواقع،  موسیقی و میوزک ( جسے  غلط طور پر روح کی غذا کہا جاتا رہا  )،سائنس و ٹکنالوجی کی خلاؤں میں کمندیں   اور ڈیرے۔ غرض   دورِ حاضر کے انسان کی ضروریات  ہی نہیں خواہشات کی اشیاء بھی اسے میسر ہیں ،لیکن اسکے باوجود احساسِ طمانیت اور شکر گزاری سے وہ محروم کیوں ہے؟
یاد رہے ! ’ضروریات ‘needs وہ ہوتی ہیں جنکے بغیر حیاتِ انسانی ممکن نہیں جیسے کھانا،   پانی اور رہائش وغیرہ ۔ جبکہ ’خواہشات  ‘wants n desires وہ ہیں جنکی انسان کو پانے کی آرزو   اور تمنا ہوتی ہے جیسے اچھے سے اچھا کھانا  اور پینا  اور عمدہ سے عمدہ رہائش و آرام دہ و محفوظ سفر وغیرہ۔ انسانی خواہشات لامحدود ہیں کہ  اسکی قبر ہی اسپر روک لگاتی ہے۔
انسان کی خواہشوں کی  کوئی انتہا  نہیں
دو گز زمیں بھی چاہئے دو گز کفن کے بعد
مشرقی معاشروں میں مغربی معاشرتی اقدار کو  ٹوٹتے پھوٹتے دیکھا جارہا ہے مگر حقیقت کے اس ادراک کے باوجود ایک مشرقی نوجوان مغربی لائف اسٹائل  اور اس جیسےبلند معیارِ زندگی کو پانے کی  خواہش  میں گرفتار  ہے اور خود کو ماہی بے آب خیال کرتا ہے۔اسکی دیگر کئی وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انسان کی خواہشات اسقدر قوی ہوتی ہیں کہ وہ اسکی عقل و فہم intellect پر حاوی ہوجاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ڈیوڈ ہیوم نے کہا تھا:Reason is the slave of Passions.(عقل جذبات کی لونڈی ہے) ۔ انسان اپنی خواہشات  اور جذبات و احساسات کو درست  اور مبنی بر حق ثابت کرنے کے لئے ہزارہا عقلی دلائل و جواز justifications  گھڑ لیتا ہے۔ فرض کریں کوئی شخص کسی کے گھر جاتا ہے وہاں ایک نادر تصویر  اسکی نگاہوں کو جذب کر لیتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ یہ تصویر کسی طرح وہ حاصل کر لے۔ اس شخص کا  اس تصویر کو  دیکھکر ٹھٹک کر رہ جانا، تصویر کا دل میں اتر جانا، اور یہ خواہش اور تمنا دل میں  پیدا ہو جانا کہ  یہ تصویر کسی طرح اسے مل جائے یہ تمام باتیں جذبات Passions/Emotionsسے متعلق ہیں اسکے لئے وہ کوئی عقلی دلیل Rationale/Reason نہیں  دے سکتا کہ وہ تصویر اسے کیوں پسند آئی  ؟ اس  پسندیدگی نے ایسی شدت کیوں اختیار کر لی ؟ اور یہ کہ وہ اسکے حواس پر کیوں سوار ہو گئی ہے؟ یہ دراصل ’’ دل کی دنیا‘‘ہےجو ’’دماغ کی دنیا ‘‘ سے الگ ہے۔اب اسکے  پاس دو ممکنہ راستے ہیں  ایک یاتو وہ اپنی اس منہ ذور خواہش کو لگام دے ۔ آج کے انسان کے لئے یہ بہت مشکل کام ہے  کیونکہ اسکا تزکیہ نفس اور  روحانی تربیت  مذہب کے دائرے یا پیراڈائم میں نہیں ہورہی  اسکا گھر،اسکول ، کالج  اور یونیورسٹیاں ، ماحول و میڈیا غرض یہ تمام تربیت گاہیں اسے اپنی  ہر جائز و ناجائز خواہش پورا کرنے کی سمت ہی  اشارہ کر رہی ہیں ، مواقع فراہم کررہی ہیں ،بلکہ دھکیل رہی ہیں ۔اسے یہ تعلیم و تربیت کہیں سے نہیں مل رہی کہ   ہر خواہش  و آرزو کو پورا کرنا ضروری نہیں ہوتا اور یہ کہ وہ بے مہابا آرزوؤں کو کیسے روک سکتاہے ۔ لہذا وہ دوسرا راستہ اختیار کرتا ہے اور سوچتا ہے کہ اس دلکش پینٹنگ کو حاصل کسطرح کیا جائے؟ اب ذہن کی دنیا Mental activityکی ابتداء ہوتی ہے ۔ عقل جلوہ گر ہوتی ہے اور اسے حاصل کرنے کی مختلف ترکیبں پیش کرنا شروع کرتی ہے ۔مثلاً عقل اسے کہتی ہے:  تصویر اسکے مالک سے درخواست کرکے تحفتہً و ہدیۃًلے لینی چاہئے ۔۔ اسے تصویر فروخت  پر آمادہ کرنا چاہئے۔۔ دھوکہ دہی یا فریب کاری سے اسے حاصل کر لینا چاہئے۔۔تصویر کو چرا لینا چاہئے۔۔ چرایا کسطرح جائے؟ اسکا انجام کیا ہوگا؟ قانون کا خوف اسے اسبات سے رکنے پر مجبور کردیتا ہے  لیکن اگر قانون کسی وجہ سے معطل ہوجائے یا کر دیا جائے  تو وہ   اپنی اس خواہش کی تکمیل کر سکتا ہے۔۔ لیکن اگر قانون اسکے اس فعل میں رکاوٹ رہے تب بھی وہ یہ سوچ سکتا ہے کہ تصویر کو خراب   یا داغدار ہی کر دیا جائے۔۔  گویا یہ تمام تدابیر اور منصوبے اس شخص کے سامنے آتے ہیں ، ان تمام تراکیب و مشوروں پر غور کرنا، انکے نتائج و عواقب کو سوچنا یہ سب کچھ عقل کے کرشمے ہیں۔ تصویر سے محرومی پر حسد ،جلن و کڑھن ، عداوت و دشمنی  وغیرہ  سے اخلاقِ رذیلہ جنم لینے لگتے ہیں۔  جو آج کے مغرب زدہ معاشرہ  کا عام چلن محسوس ہوتا ہے۔
جوڈ کے الفاظ میں : انسان کی عقل اسکے جذبات کے تابع اسی طرح چلتی ہے جسطرح کتے کے پاؤں اسکی ناک کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں ۔ماہرِ نفسیات سگمنڈ فرائیڈ  نے مختلف مجرموں Criminalsکے نفسیاتی تجزیئے Psychoanalysis  کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ انھوں نے  اپنے لئے ایسے عقائد و ایقانات وضع کررکھے ہوتے ہیں جو انکے جرائم کے لئے وجوہ جواز   مہیا کرتے رہتے ہیں اور اسطرح یہ لوگ  اپنے کسی بھی جرم کو قابلِ سرزنش عمل خیال نہیں کرتے۔ وہ کہتا ہے : ’’ عقل  ان عقائد کے لئے جو ہم رکھنا چاہیں  ، دلائل فراہم کر دیتی ہے‘‘( The Future of an Illusion)۔ اسی طرح   مسیحی مذہبی کتاب عہد  ِ عتیق 1۔سلاطین21: 1-16 میں اسرائیل کے بادشاہ اخی اب کی خواہش پرستی کا واقعہ درج ہے کہ اسنے کسطرح اپنے محل سے ملحق نبوت کے تاکستان (باغِ انگور)Nabooth’s vineyard  کا لالچ کیا  اور احکامِ عشرہ میں سے دو احکام توڑتے ہوئے جھوٹی گواہی دی اور نبوت کو قتل بھی کروا ڈالا۔ اسکی بیوی ایزبل  کی اکساہٹ  اور مدد نے بھی   اس شیطانی کھیل  میں اسکا پورا ساتھ دیا ۔  بعد ازاں ایلیاہ  نبی Elijah(حضرت الیاسؑ) نے خدا کا پیغام بادشاہ اخی اب  Ahab تک پہنچایا کہ وہ اور اسکے اہلِ خانہ بہت جلد   ذلت کی موت مریں گے اور انہیں قبر بھی نصیب نہ ہوگی۔ عہدِ جدید میں مندرج  ہے: زر کی دوستی سے خالی رہو  جو تمھارے پاس ہے اسی پر قناعت کرو  ۔۔( عبرانیوں13: 5)
ترقی ، سرمائے اور  اپنے ارد گرد پھیلی لاتعداد مادی و فانی اشیاء کو پانے کے سحر میں  ڈوبا آج کا انسان ،مذہبی تعلیمات کو نظر انداز کر کے ، بلا سوچے سمجھے اپنی ناآسودہ خواہشات کے پیچھے دوڑتا چلا جارہا ہے۔  بلند مراتب status کے حصول کا ہوا،کھوکھلی اور اتھلی خواہشات اسے کسی پل چین لینے نہیں دیتیں اور پھر آخر کار  گزرے ہوئے زمانے پر کفِ افسوس ملتے  سر سید کے بڈھے کی مانند نظر آتا ہے ۔  ’نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم ، نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر  کے رہے‘
سکون  و اطمینان اور مادی ترقی وآسائشات میں بہت فرق ہے۔ سکون و اطمینان ایک روحانی و قلبی صفت ہے ۔ یہ فقیروں و مسکینوں کو بھی حاصل ہوسکتی ہے اور اگر نہ ہو تو بڑے بڑے بادشاہ اور  فرمانروا بھی اس سے محروم رہتے ہیں ۔ اسے حاصل کرنے کے ذرائع مال و دولت  یا اشیائے صرف کی فراوانی ہر گز نہیں  ہیں۔ خوشی و مسرت منڈی کا بکاؤ مال  یا بازاری جنس نہیں ہے کہ اسے معاوضہ ادا کرکے خرید لیا جائے۔ یہ ایک ایسی نعمت  ہے جو عطائے ربانی  سے ہی ملتی ہے۔ آج کے انسان کے پاس آسائشات تو ہیں مگر وہ اللہ کی یاد سے دور ہیں ، اس کی دکھائی سیدھی راہ سے بھٹک گئے ہیں،لہذا قلبی و روحانی سکون انھیں میسر نہیں۔ وہ ان چیزوں میں سکون  و راحت تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جہاں یہ موجود ہی نہیں ۔ اطمینان و سکون اللہ  کے ذکر اور اسکے احکامات پر عمل درامد سے ملتاہے۔ الا بذکر اللہ تطمئن القلوب (الرعد13: 28)۔’’یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو  اطمینان حاصل ہوتا ہے ‘‘۔
قلبی اطمینان اور روحانی سکون کی سب سےاعلیٰ مثال  انبیائے کرام  ہیں اور انمیں  سب سے مستند وعملی  اسوہ یا رول ماڈل نبی آخری الزماں محمدِعربی ﷺ کی ذات ہے۔انبیاء سب سے بڑھ کر اللّٰہ کے شکر گزار  بندے تھے انکے پاس یہ دنیاوی مال و متاع اور یہ سازو سامان نہ تھا گویا سکون و راحت اور شکر گزاری کا تعلق مادی آسائشات سے نہیں ہے بلکہ یہ تعلق مع اللہ اور صراطِ مستقیم  پر چلنے سے حاصل ہوتا ہے۔ فرد اور معاشرے کو آسائشات فراہم کرکے ان سے شکر گزاری کی توقع رکھنا عبث ہے اگر انھیں شکرگزار بندہ بنانا ہے تو انھیں دینِ متین کا صحیح فہم اور اسپر عملدرآمد کرنے والا بنانا ہوگا۔ یعنی:
دین اسلام » سکون و راحت » شکرگزاری