Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

چودھری سرور ڈیتھ وارنٹ

چودھری سرور کال کوٹھڑی کا قیدی تھا' اس کی ساری اپیلیں مسترد ہو چکی تھیں' وہ اب بڑی شدت سے ڈیتھ وارنٹ کا انتظار کر رہا تھا' وہ...



چودھری سرور کال کوٹھڑی کا قیدی تھا' اس کی ساری اپیلیں مسترد ہو چکی تھیں' وہ اب بڑی شدت سے ڈیتھ وارنٹ کا انتظار کر رہا تھا' وہ ایک دن آ کر ہمارے سامنے زمین پربیٹھ گیا' اس نے دیوار سے ٹیک لگائی' کان سے کے ٹو فلٹر کا آدھا سگریٹ اتارا' سلگایا اور نہایت اطمینا ن سے سوٹے مارنے لگا۔

مجھے وہ دوسرے قیدیوں سے مختلف لگا' اس کی صورت پر ایک وقار' ایک تمکنت تھی' وہ گفتگو سے بھی پڑھا لکھا' تجربہ کار اور ذہین لگتا تھا' وہ ایک ڈیرے دار چودھری تھا' پانچ سات دیہات میں اس کی اچھی خاصی معتبری تھی' وہ یونین کونسل کا چیئرمین بھی رہا تھا' اس کے ڈیرے پر ہر وقت بیس تیس بندے موجود رہتے تھے' زمین جائیداد بھی اچھی خاصی تھی' تعلیم بھی دیہات کے لحاظ سے اعلیٰ تھی' پھر چودھری سرور کال کوٹھڑی تک کیسے پہنچا' ایک باعزت' ڈیرے دار چودھری اپنے سے کہیں چھوٹے برخورداروں کے سامنے زمین پر کیسے آ بیٹھا؟ یہ سوال میرے ذہن میں کلبلانے لگے۔

ان سوالوں کے جواب میں چودھری سرور نے بتایا ، '' میں ایک ٹھیک ٹھاک چودھری تھا' مجھے اپنے اختیار' اپنی رسائی' اپنی عزت اور اپنی طاقت پر بڑا مان تھا' مجھے محسوس ہوتا تھا' مجھے اللہ تعالیٰ نے کسی خصوصی مٹی سے بنایا ہے' دنیا میں کیچڑ سے بنے کسی انسان میں اتنی جرأت نہیں' وہ میرے سامنے آنکھ اٹھا سکے' میرے لفظ' میرے حرف کاٹ سکے' میری بات کو بات نہ سمجھے' میں زمین پر اکڑ کر چلتا تھا' میری گردن جھکنا بھول چکی تھی اور میرے کان میری اصل آواز کے لئے ترس گئے تھے' میں دن میں دو بار کپڑے بدلتا تھا اور لوگوں کے سامنے سے روٹی اٹھا کر کتوں کے آگے ڈال دیتا تھا' میں نافرمانوں کو درختوں سے الٹا لٹکا دیتا تھا اور خوشامدیوں کے گھر دانوں سے بھر دیتا تھا' میں خدا کو بھول چکا تھا' میرا طیش'میرا غصہ اور میرا تکبر میرا خدا بن چکا تھا' میں اپنے غصے ہی کو اپنا خدا سمجھتا تھا۔

پھر ایک دن عجیب واقعہ پیش آیا' ایک مصلی میرے گاؤں کی ایک لڑکی بھگا لے گیا' مجھے اطلاع ملی تو غصے سے میرے منہ سے جھاگ نکلنے لگی' میں نے کھُرا تلاش کیا' ایک ہفتے کے تعاقب کے بعد وہ دونوں مل گئے' میں نے لڑکی وارثوں کے حوالے کر دی لیکن مصلی کو درخت سے باندھ دیا' میں کرسی بچھا کر اس کے سامنے بیٹ گیا اور اسے ماں بہن کی گالیاں دینے لگا۔

مصلی کچھ دیر تک تو سنتا رہا لیکن پھر اس کا پیمانہ صبر لبریز ہو گیا' اس نے مجھے مخاطب کر کے کہا '' چودھری قصور میرا ہے' تم مجھے گالی دو' میری بہن اور ماں کو برا بھلا نہ کہو''

اس کے الفاظ سن کر میرے تن من میں آگ لگ گئی' مجھے یوں محسوس ہوا جیسے اس کم ذات نے میرے منہ پر تھوک دیا ہے' میں کرسی سے اٹھا' اسے بالوں سے پکڑ کر جھٹکا دیا اور چلا کر کہا '' میں تیری ماں کو بھی گالی دوں گا اور بہن کو بھی' تو میرا کیا بگاڑ لے گا''۔

مصلی نے جھٹکا مار کر بال چھڑائے اور چیخ کر بولا '' چودھری اگر تم نے اب گالی دی تو میں بھی تمہاری ماں بہن کوگالی دوں گا''۔

میرا غصہ ساتویں آسمان تک جا پہنچا' میں نے اس کے سارے خاندان کی ماں بہن ایک کر دی' جب میں چپ ہوا تو مصلی نے قہقہہ لگایا اورمجھے ماں کی گالی دے دی' بس اتنا سننا تھا' میں نے پستول نکالا اور ساتوں کی ساتوں گولیاں اس کے سینے میں اتار دیں اور پھر اس کے بعد وہ نعش میرے گلے پڑ گئی' میرے خلاف کیس سیدھا اور واضح تھا' مجھے سزائے موت ہو گئی' میرے لواحقین سپریم کورٹ تک پہنچ گئے' صدر کو بھی اپیل کر کے دیکھ لی لیکن میری کوٹھڑی نہیں ٹوٹی' اب میں ڈیتھ وارنٹ کا انتظار کر رہا ہوں''۔


چودھری سرور نے سگریٹ کے ٹوٹے کا آخری سوٹا لگایا' فلٹر تک جلا سگریٹ فرش پر رگڑا اور آنسو پونچھ کر بولا ،'' میں وہ شخص ہوں جو ایک گالی برداشت نہ کر سکا لیکن جب جیل پہنچا تو مجھے روزانہ دو دو سو گالیاں سننا پڑیں اور میرے پاس یہ گالیاں برداشت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا' کاش میں اس وقت ایک گالی سہہ جاتا تو آج میرے سینے پر ہزاروں گالیوں کا بوجھ نہ ہوتا' میں آج آپ کے سامنے یوں فرش پر نہ بیٹھا ہوتا' آپ یقین کرو' جیل کی دس سالہ زندگی میں مجھے ایسے ایسے گھٹیا لوگوں نے ماں بہن کی گالیاں دیں جو اچھے وقتوں میں مجھے دعا بھی دیتے تو شاید میں ان کے ساتھ ہاتھ ملانا پسند نہ کرتا''