Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

مذاق نہ اڑائیں

  يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا ۔************* قسط نمبر : ۷٢ ( سُوۡرَۃٌ الْحُجُرٰت : ١١)   📖 ارشاد باری تعالیٰ ﷻ : ...

 

يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا

۔*************

قسط نمبر : ۷٢

( سُوۡرَۃٌ الْحُجُرٰت : ١١)

 

📖 ارشاد باری تعالیٰ ﷻ :

یٰۤاَیُّہَا  الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنۡ  نِّسَآءٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُنَّ خَیۡرًا مِّنۡہُنَّ ۚ وَ لَا تَلۡمِزُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَ لَا تَنَابَزُوۡا بِالۡاَلۡقَابِ ؕ بِئۡسَ الِاسۡمُ الۡفُسُوۡقُ بَعۡدَ الۡاِیۡمَانِ ۚ وَ مَنۡ لَّمۡ یَتُبۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۱۱﴾

 

📚 ترجمہ :

اے ایمان والو ! نہ تو مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں ، ہو سکتا ہے کہ وہ ( جن کا مذاق اڑا رہے ہیں ) خود ان سے بہتر ہوں ، اور نہ دوسری عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ، ہو سکتا ہے کہ وہ ( جن کا مذاق اڑا رہی ہیں ) خود ان سے بہتر ہوں ۔ اور تم ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیا کرو ، اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارو ۔ ایمان لانے کے بعد گناہ کا نام لگنا بہت بری بات ہے ۔ اور جو لوگ ان باتوں سے باز نہ آئیں تو وہ ظالم لوگ ہیں ۔

 

تفسیر :

اس آیت میں ان بڑی بڑی برائیوں کے سدِ باب کا حکم دیا جا رہا ہے جو بالعموم ایک معاشرے میں لوگوں کے باہمی تعلقات کو خراب کرتے ہیں ۔ ایک دوسرے کی عزت پر حملہ ، ایک دوسرے کی دل آزاری ، ایک دوسرے سے بد گمانی ، اور ایک دوسرے کے عیوب کا تجسس ، در حقیقت یہی وہ اسباب ہیں جن سے آپس کی عداوتیں پیدا ہوتی ہیں، محبت و پیار کے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں، اسلامی معاشرہ کا امن و سکون برباد ہوتا ہے اور پھر دوسرے اسباب کے ساتھ مل کر ان سے بڑے بڑے فتنے رو نما ہوتے ہیں۔ اور خون خرابہ شروع ہو جاتا ہے۔ اس سلسلے میں جو احکام اس سے آگے کی آیتوں میں دیئے گئے ہیں اور ان کی جو تشریحات احادیث میں ملتی ہیں ان کی بنا پر ایک مفصل قانون ہتک عزت ( Law of libel ) مرتب کیا جا سکتا ہے۔ مغربی قوانین ہتک عزت اس معاملے میں اتنے ناقص ہیں کہ ایک شخص ان کے تحت دعویٰ کر کے اپنی عزت کچھ اور کھو آتا ہے ۔ اسلامی قانون اس کے بر عکس ہر شخص کی ایک بنیادی عزت کا قائل ہے جس پر حملہ کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے ۔ قطع نظر اس سے کہ حملہ واقعیت پر مبنی ہو یا نہ ہو ، اور جس پر حملہ کیا گیا ہے اس کی کوئی حیثیت عرفی ہو یا نہ ہو ۔ مجرد یہ بات کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کی تذلیل کی ہے اسے مجرم بنا دینے کے لئے کافی ہے ، الا یہ کہ اس تذلیل کا کوئی شرعی جواز ثابت کر دیا جائے۔

 

بات شروع ہوتی ہے کہ ایک گروپ یا گروہ دوسرے گروپ یا گروہ کا مذاق نہ اڑائے۔ مذاق اڑانے سے مراد محض زبان ہی سے کسی کا مذاق اڑانا نہیں ہے ، بلکہ کسی کی نقل اتارنا ، اس کی طرف اشارے کرنا ، اس کی بات پر یا اس کے کام یا اس کی صورت یا اس کے لباس پر ہنسنا ، یا اس کے کسی نقص یا عیب کی طرف لوگوں کو اس طرح توجہ دلانا کہ دوسرے اس پر ہنسیں۔ یہ سب بھی مذاق اڑانے میں داخل ہیں ۔ اصل ممانعت جس چیز کی ہے وہ یہ ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کی کسی نہ کسی طور پر تضحیک کرے۔ کیونکہ اس تضحیک میں لازماً اپنی بڑائی اور دوسرے کی تذلیل و تحقیر کے جذبات کار فرما ہوتے ہیں جو اخلاقاً سخت معیوب ہیں۔ مزید برآں اس سے دوسرے شخص کی دل آزاری بھی ہوتی ہے جس سے معاشرے میں فساد رو نما ہوتا ہے ۔ اسی بنا پر اس فعل کو حرام کیا گیا ہے ۔

 

ہم تو یہ کام نہیں کرتے اس لئے آگے بڑھتے ہیں، کیا خیال ہے؟ یا یوں کرتے ہیں، تھوڑی دیر رک کر سوچ لیتے ہیں کہ کہیں ہم پٹھانوں کو بیوقوف کہہ کر ان کا مذاق تو نہیں اڑا رہے؟ یا شیخوں کو کنجوس کہہ کر؟ یا دین دار ہیں تو پورے دنیا دار طبقے کو حقیر تو نہیں خیال کرتے؟ دنیا دار ہیں تو دینداروں کا مذاق تو نہیں اڑاتے؟ سوچیں سوچیں۔ مرد ہیں تو عورتوں پر لطیفے گھڑ رہے ہیں۔ خواتین ہیں تو عورت مارچ کے نام پر حضرات کو نیچا دکھانے پر تُلی ہیں۔ پنجابی سندھیوں سے بہتر ہیں۔ آرائیں جٹ ذات سے اچھے ہیں۔ حالانکہ کالے کو گورے اور گورے کو کالے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں، سوائے تقویٰ کے۔ یہی مفہوم ہے ناں حدیث کا؟ 

 

یہاں عورتوں کا نام الگ سے لینے کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو کہا گیا کہ مرد مردوں کے ساتھ اور عورتیں عورتوں کے ساتھ ایسا نہ کریں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ مردوں کے لئے عورتوں کا مذاق اڑانا یا عورتوں کے لئے مردوں کا مذاق اڑانا جائز ہے ۔ یا مرد اور عورتیں آپس میں بیشک مذاق اڑاتے پھریں، بلکہ یہاں مخلوط ٹھٹھے بازی کی حوصلہ شکنی ہے (اس میں سوشل میڈیا بھی شامل ہے)۔ اسلام سرے سے مخلوط سوسائٹی ہی کا قائل نہیں ہے ۔ ایک دوسرے کی تضحیک عموماً بے تکلف مجلسوں میں ہوا کرتی ہے ، اور اسلام میں یہ گنجائش رکھی ہی نہیں گئی ہے کہ غیر محرم مرد اور عورتیں کسی مجلس میں جمع ہو کر آپس میں ہنسی مذاق کریں ۔ اس لئے اس بات کو ایک مسلم معاشرے میں قابل تصور نہیں سمجھا گیا ہے کہ ایک مجلس میں مرد کسی عورت کا مذاق اڑائیں گے یا عورتیں کسی مرد کا مذاق اڑائیں گی ۔

دوسری بات یہ کہ عورتوں کا نام بالخصوص اس لئے لیا گیا کہ عورتوں میں غیبت کرنے، طعنے دینے کی زیادہ عادت ہے۔ رشتہ دیکھنے جائیں تو واپس آ کر کیا کیا ان لوگوں پر تبصرے نہیں کئے جاتے۔ بہو بنا کر لے آئیں تو "تمہاری ماں، تمہارا گھر، تمہارا خاندان۔۔۔" کے طعنے روزانہ کی بنیاد پر دیئے جاتے ہیں۔ بہو ہے تو جیسے موقع ملے سسرال کے لئے جلی کٹی سنانے سے باز نہیں آتی۔ زیادہ بچوں والیوں کو تو خوب خوب باتیں سنائی جاتی ہیں۔ حالانکہ

وَيْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةٍ 

ہر غیبت کرنے والے، طعنہ دینے والے کے لئے ہلاکت ہے۔

 

ایک بات یہاں دیکھئے ۔ فرمایا، "ممکن ہے وہ لوگ ان (مذاق اڑانے والوں) سے بہتر ہوں۔"

عبادات و معاملات میں بہتر ہوں، اللہ کی نظر میں بہتر ہوں، قیامت کے دن بہتر ہوں ۔۔۔ ممکن ہے! حقیر وہ ہے جو رب کی نظر میں حقیر ہے، وہ نہیں جسے بندے حقیر جانتے ہیں۔ ہر بار جب کسی کا مذاق اڑانے لگیں، سوچیں "ممکن ہے یہ مجھ سے بہتر ہو"۔ جب آپ خود کو کمتر اور دوسرے کو بہتر سمجھیں گے تو پھر مذاق اڑانا بنتا بھی نہیں ۔

 

دوسرا حکم یہ دیا کہ لَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ ، کسی کے منہ پر اس کی عیب جوئی کرنے کو اللمز کہتے ہیں۔ اصل میں آنکھ ، سر کے اشارے یا زیر لب آہستہ سے کسی کی عیب چینی کی جائے تو کہتے ہیں لمز فلان۔ لا تلمزو فرما کر بتا دیا کہ کسی طرح بھی تمہیں یہ اجازت نہیں کہ اپنے بھائی کے عیب گنواؤ اور اس کی خامیوں اور کمزوریوں کو اچھالتے رہو۔

اصل میں لفظ لَمزْ استعمال ہوا ہے جس کے اندر طعن و تشنیع کے علاوہ متعدد دوسرے مفہومات بھی شامل ہیں ، مثلاً چوٹیں کرنا ، پھبتیاں کسنا ، الزام دھرنا ، اعتراض جڑنا ، عیب چینی کرنا ، اور کھلم کھلا یا زیر لب یا اشاروں سے کسی کو نشانہ ملامت بنانا ۔ یہ سب افعال بھی چونکہ آپس کے تعلقات کو بگاڑتے اور معاشرے میں فساد برپا کرتے ہیں اس لئے ان کو حرام کر دیا گیا ہے ۔ کلام الہیٰ کی بلاغت یہ ہے کہ : لَا یَلْمِزُ بَعْضُکُمْ بَعْضاً ( ایک دوسرے پر طعن نہ کرو ) کہنے کے بجائے : لَا تَلْمِزُوٓا اَنْفُسَکُمْ ( اپنے اوپر طعن نہ کرو ) کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں جن سے خود بخود یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ دوسروں پر زبان طعن دراز کرنے والا دراصل خود اپنے آپ کو مطعون کرتا ہے ۔ ظاہر بات ہے کہ کسی شخص کی زبان دوسروں کے خلاف بد گوئی کے لئے اس وقت تک نہیں کھلتی جب تک اس کے دل میں برے جذبات کا لاوا خوب پک کر پھوٹ پڑنے کے لئے تیار نہ ہو گیا ہو ۔ اس طرح ان جذبات کی پرورش کرنے والا دوسروں سے پہلے اپنے نفس کو تو بدی کا آشیانہ بنا چکتا ہے ۔ پھر جب وہ دوسروں پر چوٹ کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ خود اپنے اوپر چوٹیں کرنے لئے دوسروں کو دعوت دے رہا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی اپنی شرافت کی بنا پر اس کے حملوں کو ٹال جائے ۔ مگر اس نے تو اپنی طرف سے یہ دروازہ کھول ہی دیا کہ وہ شخص بھی اس پر حملہ آور ہو جس کو اس نے اپنی زبان کے تیروں کا ہدف بنایا ہے۔

 

 اچھا، کسی کا مذاق اڑانے کے پیچھے آخر وجہ کیا ہوتی ہے؟

 

اختلاف :

یونہی راہ چلتے ہم کسی کا مذاق نہیں اڑاتے۔ مذاق اڑایا وہیں جاتا ہے جہاں کوئی اختلاف آ جائے۔ چونکہ ہمیں اختلاف اور مخالفت میں فرق کرنا نہیں آتا اس لئے دوسرے کی تحقیر کر کے خود کو سکون دینے کے لئے مذاق اڑانے والا سستا کام کرتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک سکالر کے نام سے فیک اخباری تراشا جا بجا یہاں دیکھنے کو ملا۔ تحقیق کا مادہ تو چونکہ ہم میں ہے نہیں، مخالفت میں بہتان لگانے سے باز نہیں آتے۔ بنانے والے نے تو جو بنایا سو بنایا، ثواب کی نیت سے جنہوں نے شیئر کیا وہ اپنی خیر منائیں۔ آیت میں الزام تراشی کا نام الگ سے لیا گیا ہے۔ اور جب ہو بھی جھوٹ؟ 

 

حسد :

کوئی شکل میں بہتر ہو، خاندان میں، مال میں، دنیاوی طور پر آگے ہو، دینی اعتبار سے آگے بڑھ جائے تو ہم خود آگے بڑھنے کے بجائے اس کو پیچھے دھکیلتے ہیں۔ مذاق اڑا کر اسے ذلیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس کو جو بھی ملا، یہ اللہ کی بانٹ ہے۔ اس انسان کا مذاق اڑا کر دراصل اللہ کی تخلیق کا اور اس کے فیصلوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے!

 

خود کو عقلِ کل سمجھنا :

ایسے میں آپ کو ہر کوئی جاہل اور احمق دکھائی دیتا ہے اور آپ اس کا مذاق اڑانے میں خود کو حق بجانب سمجھتے ہیں۔ حالانکہ کبر بس اللہ کو ہی سجتا ہے۔ انسان کے دل میں رائی برابر تکبر بھی اس کے جہنم میں جانے کا سبب بن سکتا ہے۔ 

 

کچھ مذاق بظاہر بے ضرر بھی ہوتے ہیں۔ جیسے بچوں کو خوار کر کے، رلا کر، مذاق اڑا کر پتہ نہیں کس جذبے کی تسکین کی جاتی ہے۔ پہلے یہ کام محفلوں میں ہوتا تھا۔ اب آسانی ہو گئی ہے، کسی اور کی موجودگی بھی ضروری نہیں۔ بچے کو ذلیل کریں، کھپائیں، رلائیں، اور اس کی ویڈیو بنا کر فیس بک پر ڈال دیں۔ بس پھر مزے لیں۔ اسی طرح کامیڈی شوز ہیں۔ الٹی سیدھی شکلیں، گھٹیا ترین جملے، کسی کی عزت تار تار کر دینا اور ہنستے رہنا، عجیب! 

 

تیسرا حکم یہ دیا کہ لَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۔ کسی کو کسی لقب سے ملقب کرنے کو لغت میں نبز کہتے ہیں لیکن عموماً اس کا استعمال اس لقب کے لئے ہوتا ہے جس میں کسی کی مذمت ہو اور جسے وہ شخص ناپسند کرے۔ کسی اندھے کو اندھا اور کانے کو کانا کہنا بھی جائز نہیں۔ ہمیشہ ایسے اسما اور القاب سے ایک دوسرے کو بلاؤ جس سے سننے والا خوش ہوتا ہو۔

 اس حکم کا منشا یہ ہے کہ کسی شخص کو ایسے نام سے نہ پکارا جائے یا ایسا لقب نہ دیا جائے جو اس کو ناگوار ہو اور جس سے اس کی تحقیر و تنقیص ہوتی ہو ۔ مثلاً کسی کو فاسق یا منافق کہنا ۔ کسی کو لنگڑا یا اندھا یا کانا کہنا ۔ کسی کو اس کے اپنے یا اس کی ماں یا باپ یا خاندان کے کسی عیب یا نقص سے ملّقب کرنا ۔ کسی کو مسلمان ہو جانے کے بعد اس کے سابق مذہب کی بنا پر یہودی یا نصرانی کہنا ۔ کسی شخص یا خاندان یا برادری یا گروہ کا ایسا نام رکھ دینا جو اس کی مذمت اور تذلیل کا پہلو رکھتا ہو ۔

کسی سے کوئی گناہ ہو گیا، وہ چاہے توبہ کر چکا ہو لیکن آپ جب بیٹھیں اس کے ایمان کا لیول چیک کر کے اس کو شرمندہ کریں، دورِ جاہلیت کی اس کی غلطی پر اس کے برے نام رکھیں۔ سیاست سے ذرا مثالیں ڈھونڈیں۔ فلاں شادی سے پہلے ہی بھاگ گئی تھی، فلاں زانی ہے، شرابی ہے۔ فلاں کو تو نماز تک نہیں آتی، کلمہ نہیں آتا۔ سلِپ آف ٹنگ ہو جائے، اس کو پندرہ بار ریپیٹ پر لگا کر اس کا ٹھٹھا کریں گے ۔۔۔

یہ ہیں ہم ایمان والوں کی اخلاقی اقدار! اپنے آپ سے شرمندہ ہونے اور توبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ برے نام رکھنے کی مزید مثالیں بھی سیاست سے ڈھونڈ لیں۔ یوتھیا، قومِ یوتھ (قومِ لوط کے وزن پر)، ڈیزلی، جماتی، پٹواری ۔۔۔ یہ الفاظ لکھتے ہوئے تکلیف ہو رہی ہے لیکن نام لینا ضروری ہے تا کہ ہم ذرا اپنے گریبان میں جھانکیں۔ بھینگا، تیلی پہلوان، وغیرہ سب برے نام ہی ہیں، جو کسی کی برائی کو نمایاں کرنے کے لئے رکھے جاتے ہیں لیکن بالخصوص فرمایا: "کسی کے ایمان (لانے) کے بعد اسے فاسق و بدکردار کہنا بہت ہی برا نام ہے۔" اور ہمارا یہ حال یہ جو دینی سکالر پسند نہ ہو، جو سیاسی اختلاف رکھتا ہو، اسکو تو فوراً دائرہ اسلام سے باہر دھکا دو۔ مومن ایک جسم کی مانند ہیں۔ کیا کوئی اپنے ہی جسم کو یوں عیب لگاتا ہے؟ اور جب آپ اپنے جسم کو خود ہی عیب لگائیں تو عیب دار تو پھر آپ خود بھی ہوئے! دوسرے پر کیچڑ اچھالنے والے کے اپنے ہاتھ بھی صاف نہیں رہتے۔

 

ایک مومن کے لئے یہ بات سخت شرمناک ہے کہ مومن ہونے کے باوجود وہ بد زبانی اور شہد پن میں نام پیدا کرے ۔ ایک کافر اگر اس لحاظ سے مشہور ہو کہ وہ لوگوں کا مذاق خوب اڑاتا ہے ، یا پھبتیاں خوب کستا ہے ، یا برے برے نام خوب تجویز کرتا ہے ، تو یہ انسانیت کے لحاظ سے خواہ اچھی شہرت نہ ہو کم از کم اس کے کفر کو تو زیب دیتی ہے ۔ مگر ایک آدمی اللہ اور اس کے رسول اور آخرت پر ایمان لانے کے بعد ایسے ذلیل اوصاف میں شہرت حاصل کرے تو یہ ڈوب مرنے کے لائق بات ہے ۔

 

ہاں اس حکم سے صرف وہ القاب مستثنیٰ ہیں جو اپنی ظاہری صورت کے اعتبار سے تو بد نما ہیں مگر ان سے مذمت مقصود نہیں ہوتی بلکہ وہ ان لوگوں کی پہچان کا ذریعہ بن جاتے ہیں جن کو ان القاب سے یاد کیا جاتا ہے ۔ اسی بنا پر محدثین نے اسماء الرجال میں سلیمان الاعمش ( چندے سلیمان ) اور واصل الاخدَب ( کبڑے واصل ) جیسے القاب کو جائز رکھا ہے ۔ ایک نام کے کئی آدمی موجود ہوں اور ان میں سے کسی خاص شخص کی پہچان اس کے کسی خاص لقب ہی سے ہوتی ہو تو وہ لقب استعمال کیا جا سکتا ہے ۔ اگرچہ وہ بجائے خود برا ہو ۔ مثلاً عبداللہ نام کے کئی آدمی ہوں اور ایک ان میں سے نابینا ہو تو آپ اس کی پہچان کے لئے نابینا عبداللہ کہہ سکتے ہیں ۔ اسی طرح ایسے القاب بھی اس حکم کے تحت نہیں آتے جن میں بظاہر تنقیص کا پہلو نکلتا ہے مگر در حقیقت وہ محبت کی بناء پر رکھے جاتے ہیں اور خود وہ لوگ بھی جنہیں ان القاب سے یاد کیا جاتا ہے ، انہیں پسند کرتے ہیں ، جیسے ابو ہریرہ اور ابو تراب ۔

بِئْسَ الاِسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيْمَانِ: کتنا برا نام ہے مسلمان ہونے کے بعد فاسق کہلانا۔ بڑے پیار انداز سے اپنے بندوں کو تنبیہ فرمائی جا رہی ہے کہ تم اب میرے ہو چکے ہو، تمہیں اب ایسی کوئی نازیبا حرکت نہیں کرنی چاہیئے جس کی وجہ سے تمہیں بدکار اور فاسق کہا جائے۔ اگر تم اسلام قبول نہ کرتے، میرے محبوب رسول پر ایمان نہ لاتے اور شتر بے مہار بنے من مانیاں کرتے رہتے تو تم سے کسی کو شکایت نہ ہوتی۔ اب تم مشرف بہ اسلام ہو چکے ہو۔ لوگ بجا طور پر تم سے توقع رکھتے ہیں کہ تم خیر و صلاح کا عملی نمونہ پیش کرتے رہو گے۔ غلامان مصطفےٰ کہلا کر اگر تم فسق و فجور سے اپنا دامن نہیں بچاتے تو بڑی بے حیائی اور افسوس کی بات ہے۔ آخر میں فرمایا جو شخص ان ناشائستہ حرکات سے تائب نہیں ہوتا وہ ظالم ہے۔

 

خیر جو ہو گیا، وہ تو پلٹ نہیں سکتا۔ ہاں توبہ کی جا سکتی ہے۔ توبہ کی شرائط پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں :

اخلاص ہو، شرمندگی ہو، چھوڑ دیا جائے، دوبارہ نہ دہرانے کا عہد کیا جائے۔ 

 

جب ہم "اللھم انک عفو کریم تحب العفو فاعف عنی" کا ورد کر رہے ہوتے ہیں، بہتر ہو کہ اپنے گناہوں پر واقعی شرمندہ ہو کر معافی طلب کریں۔

 

ﷲ رب العزت ہمیں قرآنِ پاک پڑھنے، سمجھنے آور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ۔

🔰WJS🔰