Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

سَابِقُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ جَنَّۃٍ

  (سورة الْحَدِیْد : ٢١)    ۔ ؛•‍━━•••◆◉ ﷽ ◉◆•••‍━━•؛ 📖 ارشاد باری تعالیٰ ﷻ : سَابِقُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ جَنَّۃٍ...



 
(سورة الْحَدِیْد : ٢١)
 
 ۔ ؛•‍━━•••◆◉ ﷽ ◉◆•••‍━━•؛

📖 ارشاد باری تعالیٰ ﷻ :
سَابِقُوۡۤا اِلٰی مَغۡفِرَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ جَنَّۃٍ عَرۡضُہَا کَعَرۡضِ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ ۙ اُعِدَّتۡ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ ؕ ذٰلِکَ فَضۡلُ اللّٰہِ یُؤۡتِیۡہِ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰہُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِیۡمِ ﴿۲۱﴾

📚 ترجمہ :
ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو اپنے پروردگار کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمان اور زمین کی چوڑائی جیسی ہے ، یہ ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں ۔ یہ اللہ کا فضل ہے جو وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے ۔ اور اللہ بڑے فضل والا ہے ۔

✍ تفسیر :
اصل میں لفظ سَابِقُوْا استعمال ہوا ہے جس کا مفہوم محض دوڑو کے لفظ سے ادا نہیں ہو پاتا ۔ مسابقت کے معنی مقابلے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرنے کے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ تم دنیا کی دولت اور لذتیں اور فائدے سمیٹنے میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی جو کوشش کر رہے ہو اسے چھوڑ کر اس چیز کو ہدف مقصود بناؤ اور اس کی طرف دوڑنے میں بازی جیت لے جانے کی کوشش کرو۔ بعض مفسرین نے عرض کو چوڑائی کے معنی میں لیا ہے۔ لیکن دراصل یہاں یہ لفظ وسعت و پہنائی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ عربی زبان میں لفظ عرض صرف چوڑائی ہی کے لیے نہیں بولا جاتا جو طول کا مد مقابل ہے، بلکہ اسے مجرد وسعت کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے، جیسا کہ ایک دوسری جگہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے فَذُوْ دُعَآءٍ عَرِیْضٍ ، انسان پھر لمبی چوڑی دعائیں کرنے لگتا ہے ( حٰم السجدہ : ۵١ )۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیئے کہ اس ارشاد سے مقصود جنت کا رقبہ بتانا نہیں ہے بلکہ اس کی وسعت کا تصور دلانا ہے۔ یہاں اس کی وسعت آسمان و زمین جیسی بتائی گئی ہے ۔ اور سورہ آل عمران میں فرمایا گیا ہے سَارِعُوْآ اِلیٰ مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقَیْنَ ( آیت ۔ ١٣٣)۔ دوڑو اپنے رب کی مغفرت اور اس مغفرت اور اس جنت کی طرف جس کی وسعت ساری کائنات ہے ، جو مہیا کی گئی ہے متقی لوگوں کے لیے۔ ان دونوں آیتوں کو ملا کر پڑھنے سے کچھ ایسا تصور ذہن میں آتا ہے کہ جنت میں ایک انسان کو جو باغ اور محلات ملیں گے وہ تو صرف اس کے قیام کے لیے ہوں گے، مگر در حقیقت پوری کائنات اس کی سیر گاہ ہو گی۔ کہیں وہ بند نہ ہو گا ۔ وہاں اس کا حال اس دنیا کی طرح نہ ہو گا کہ چاند جیسے قریب ترین سیارے تک پہنچنے کے لیے بھی وہ برسوں پاپڑ بیلتا رہا اور اس ذرا سے سفر کی مشکلات کو رفع کرنے میں اسے بے تحاشا وسائل صرف کرنے پڑے۔ وہاں ساری کائنات اس کے لیے کھلی ہو گی۔ جو کچھ چاہے گا اپنی جگہ سے بیٹھے بیٹھے دیکھ لے گا اور جہاں چاہے گا بے تکلف جا سکے گا ۔  

اللّٰہ تعالٰی ہمیں قرآن پاک کو پڑھنے، سمجھنے، غور کرنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
🔰WJS🔰