Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

استاذکی ناراضگی

    حضرت مولانا جمشید صاحب استاذکی ناراضگی لمحہ لمحہ جان پر قیامت بنتی جا رہی تھی، وجہ معلوم نہ تھی کہ یہ مجسم شفقت آخر کس وجہ سے خفا ہے؟ تی...

 

 
حضرت مولانا جمشید صاحب

استاذکی ناراضگی لمحہ لمحہ جان پر قیامت بنتی جا رہی تھی، وجہ معلوم نہ تھی کہ یہ مجسم شفقت آخر کس وجہ سے خفا ہے؟ تین دن تک یہ ہستی خفا رہی․ بالآخر جماعت کے ساتھیوں کی مدد سے یہ عقدہ کھلاکہ استاذمحترم سے سوال کرتے ہوئے جوش سے ہاتھ حدیث کی کتاب ”ابو داؤد شریف “پہ لگ گیا، جوش کی وجہ سے مجھے اس کا احساس تک نہ ہوا، لیکن محترم استاد نے اس کو محسوس کیا اور اس بے ادبی کی وجہ سے استاد محترم تین دن سے چیں بجبیں تھے،مولانا جمشید صاحب نے دارالعلوم دیوبند میں دورئہ حدیث کی اہم کتاب ”ابو داؤد شریف“مجسم شفقت اور عظیم استاد حضرت مولانا اعزاز علی سے پڑھی تھی ۔

”صبح کا وقت تھا، جب میں تھانہ بھون پہنچا ،دروازہ پہ دستک دی، اندر سے کتابی چہرہ وارد ہوا ،کہاں سے آئے ہو اور کس کام سے آنا ہوا ؟اس بزرگ نے استفسار کیا ،طا لب علم ہوں ،دارالعلوم دیوبند میں پڑھتا ہوں ،اساتذہ نے بھیجا ہے․ طالبعلم نے ادب سے جواب دیا ․کیسے آئے ہو؟ اس نورانی بزرگ نے سوال کیا ۔حضرت پیدل آیا ہوں ․طا لب علم گویا ہوا․میری ظاہری حالت سے وہ بزرگ پہچان گئے کہ طا لب علم پیاسا ہے․ اندر تشریف لے گئے …کچھ دیر بعد جلوہ گر ہوئے ،ہاتھ میں پانی کا کٹورا تھا، پانی زیادہ تھا ،بظاہر لگتا تھا کہ گھر کی خواتین نے ڈال دیا ،بزرگ نے شفقت و محبت سے ڈوبے ہوئے لہجے میں کٹورا میری طرف بڑھاتے ہوئے پانی پینے کو کہا، میں بزرگ کے سامنے بیٹھ کر پانی پینے لگ گیا،تین سانس میں پانی پیا ،پانی بچ گیا،اس مقدار سے زیادہ پینا میرے بس میں نہیں تھا ،واپس کرتا ہوں تو ڈرتا ہوں کہ میرا جھوٹا کون پیے گا؟ گراتا ہوں تو بزرگ کی ڈانٹ کا ڈر ہے ․میں اسی سوچ و بچار میں تھااور بزرگ کھڑے، ٹکٹکی باندھے میری فراست و ذہانت کا امتحان لے رہے تھے،آخر خدا نے ذہن میں ڈالا کہ میرے قریب ہی ایک پودا تھا ،وہ پانی میں نے اس میں ڈال دیا ،تاکہ پانی ضائع نہ ہو،مولانا جمشید صاحب فرماتے ہیں کہ میری اس ذہانت سے حضرت تھانوی بہت مسرور ہوئے اور مجھے شاباش دی۔

حضرت مولانا جمشیدصاحب نے حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب علیگڑھی کے مدرسہ مفتاح العلوم جلال آباد میں تعلیم حاصل کی، اسی مدرسہ میں حضرت مولانا سلیم اللہ خاں صاحب حفظہ اللہ بھی زیر تعلیم تھے اور آپ سے اوپر والے درجات میں تھے اور اس وقت یہ رواج تھا کہ چھوٹے درجات کے طلبائے کرام اپنے سے اوپر والے طلبائے کرام سے پڑھتے تھے،یہیں مفتاح العلوم جلال آباد میں حضرت نے مولانا سلیم اللہ خاں صاحب حفظہ اللہ سے کچھ کتابیں پڑھیں ،ایک مرتبہ مولانا سلیم اللہ خان صاحب حفظہ اللہ جماعت میں کچھ وقت لگانے کے لیے رائیونڈ تشریف لائے اور اپنا نام صرف اتنا لکھوایا ”سلیم اللہ، کراچی“حضرت کی جماعت میں تشکیل ہوگئی،بعد میں مولانا جمشید صاحب کو معلوم ہوا تو نصرت کے لیے تشریف لے گئے ،وہاں جاکر دیکھا تو مولانا سلیم اللہ خان صاحب حفظہ اللہ برتن دھو رہے ہیں، جب جماعت کے ساتھیوں کو معلوم ہوا کہ مولانا سلیم اللہ خان صاحب تو ہمارے شیخ کے بھی استاذ ہیں، پھر تو پاؤں پڑگئے،لیکن حضرت شیخ حفظہ اللہ کی بے نفسی کہ جماعت والوں کو بھی آپ کی عظمت کا علم نہ ہوا اور خود برتن دھو رہے ہیں ،حقیقت یہ ہے کہ یہ نفوس قدسیہ صدی پون صدی ہمارے درمیان گزار کر تشریف لے جاتے ہیں، لیکن زندگی میں ان کی زیارت، خدمت، صحبت، معیت اور ان سے حصول علم کے لیے ہم کوشش نہیں کرتے اور ان کی حیات مبارکہ میں کچھ پیسے خرچ کر کے ان سے فیوض و برکات حاصل کرنے کے لیے سفر نہیں کرتے اور ان کی وفات پر ان کے چہرے کی زیارت پہ سارا زورو زر خرچ کر دیتے ہیں #
        ڈوبتی شعاعوں سے تمازت نہ مانگ
        بٹتی ہے سر عام عالم شباب میں

نماز کاوقت ہے اور ٹنڈو الہ یار میں ایک میواتی اضطراب وپریشانی کے عالم میں ہے ،رونے جیسا منھ بنایا ہوا ہے․ حضرت نے پریشانی کا سبب پوچھا تو وہ کہنے لگا کہ وضو کرنا ہے اور مسواک گم ہوگئی ہے۔ حضرت نے پوچھا کہ پریشان کیوں ہو؟ توکہنے لگاکہ مسواک کے ساتھ وضو سے ستر نمازوں کا ثواب ملتا ہے ،مسواک کے بغیر وضو سے میری ستر نمازیں ضائع ہو جائیں گی، حضرت نے پوچھا !کیاتم عالم ہو؟ نہیں، جماعت میں آیا ہوا ہوں․ حضرت فرماتے تھے کہ میں نے سوچا کہ ہم علماء ہیں اور لوگوں کو مسواک کی فضیلت بتاتے ہیں ،مگر ہمیں مسواک کا اتنا اہتمام نہیں جتنا اس جاہل کو ہے ،بس یہی بات میرے تبلیغ میں لگنے کا سبب بن گئی ۔

حضرت نے 1951ء میں ٹنڈوالہ یار میں پڑھانا شروع کیا اور ابتدائی دورتدریس میں صرف و نحو ومنطق وغیرہ کی بنیادی کتب پر خوب محنت فرمائی ،ایک مرتبہ جامعہ اشرفیہ لاہور میں مولانا موسیٰ خاں روحانی بازی کی ملاقات کے لیے تشریف لائے،مولانا روحانی بازی بڑی عقیدت و محبت اور نیازمندی سے ملے اور عرض کیا کہ حضرت میرے لیے دعا فرما دیں، حضرت نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے ،مولانا روحانی عرض کرتے جاتے، حضرت میرا نام لے کر دعا فرمائیں، لیکن حضرت دعامیں کہتے! اے اللہ! تمام امت کے مسئلے حل فرما دے ․حضرت روحانی نے اپنے بیٹے عزیرکے لیے عرض کیا کہ حضرت اس کے لیے بھی دعا فرمادیں، حضرت دعا فرماتے اے اللہ! تمام امت کی اولاد کونیک بنا ،دوسرے دن حضرت روحانی نے درسگاہ میں فرمایا کہ کل میرے پاس ایک بہت بڑے بزرگ عالم تشریف لائے تھے ،جو پوری امت کی بات کرتے ہیں ،فرمایا یہ صفت انبیائے کرام علیہم السلام کی ہے کہ وہ پوری امت کی فکر کرتے ہیں ،حضرت روحانی نے آپ کو پانی نوشِ جاں کرنے کے لیے دیا ،حضرت کا بچا ہوا پانی حضرت روحانی نے خود نوش فرمایااور باقی پانی گھر کے اندر بھیج کر فرمایا کہ تمام اہل خانہ ایک ایک گھونٹ بطور تبرک پی لیں ۔

حضرت روحانی کی بھی کمال تواضع تھی کہ جن کے علوم و کتب کو دیکھ کر بعض حضرات نے کہا!ماضی قریب میں ان کی مثال نہیں ملتی،بذات خود اتنے عظیم محدث ،صاحب سلسلہ بزرگ اور جلیل القدر عالم ومصنف ہیں، لیکن تواضع اور بے نفسی کا یہ عالم ہے کہ اپنے ایک معاصر دوست کے سامنے بچھے جارہے ہیں #
        نہ علم کا غرہ نہ بزرگی کا گھمنڈ
        اب ڈھونڈ انہیں چراغ رخ زیبا لے کر

حضرت کی طبیعت میں جلال تو تھا ہی،لیکن لطافت و ظرافت ،بذلہ سنجی ،نقطہ آفرینی اور مقفّیٰ و مسجّع عبارات کا استعمال بھی طبع مبارک کا جز تھا ۔

جامعہ خیر المدارس ملتان کے بزرگ استاد اور استاد حدیث مولانا منظور احمد حفظہ اللہ تشریف لائے،کیلے پیش خدمت کیے گئے، مولانا منظور احمد صاحب نے ایک کیلا تناول فرمایا، اس پر حضرت نے بطور ظرافت فرمایا،کیلا اکیلا نہیں، دودو۔اس پر مولانا نے دوسرا کیلا بھی تناول فرمایا، لیکن حضرت نے خود ایک کیلا کھایا،مولانا منظور احمد صاحب نے فرمایا ،حضرت آپ نے خود تو ایک کیلا لیا ہے ،مجھے آپ فرما رہے تھے کیلا اکیلا نہیں ،حضرت نے مسکرا کر فرمایا !

میرا مطلب تھا ،کیلا اکیلے نہیں کھانا چاہیے ،میں اکیلے نہیں کھا رہا،بلکہ دیگر احباب بھی ساتھ کھا رہے ہیں۔

راقم کو یاد ہے کہ کافی عرصہ پہلے مجلس صیانت المسلمین لاہور کے سالانہ اجتماع میں جامعہ اشرفیہ لاہور میں تشریف لائے․ حضرت حکیم اختر صاحب سے گرم جوشی سے معانقہ کیا اور دونوں بزرگوں نے لفظ جمشید پر ظریفانہ تکلم فرمایا․حضرت ایک عرصہ تک مجلس صیانت المسلمین کا کام بھی بڑی سرگرمی سے کرتے رہے ․سبق میں قلت لہ یا قال لہ کا ترجمہ جب کوئی طالب علم، میں نے اس کو کہا یا اس نے ”اس کو کہا“ سے کرتا تو اس پر بہت خفا ہوتے اور فرماتے کہ اس کو کہا کی بجائے اس سے کہا ،سے ترجمہ کرو اور مزاحا فرماتے!قال کے بعد جب لام آئے تو مِن کا ترجمہ ساتھ لائیں ۔

حضرت نے عرصہ دراز تک رائیونڈ میں جلالین اور شرح عقائد پڑھائی اور جلالین کی تکمیل پر طلبا ئے کرام کو نصائح کرتے ہوئے فرماتے کہ یہ وہ نصائح ہیں جو مولانا اعزاز علی صاحب نے ہمیں فرمائیں ، آپ نے ابو داؤد شریف مولانا اعزاز علی صاحب سے اور بخاری حضرت مدنی سے پڑھی، مولانا اعزاز علی صاحب میں بھی ادب کا مادہ بہت تھا ،وہی صفت ادب حضرت میں بھی بہت تھی ،سبق میں جب کوئی ادھرادھر متوجہ ہوتا تو اسے ڈانتے کہ یہ سبق کی بے ادبی ہے․رائیونڈ میں آپ کی نشست کی طرف کوئی پشت کر کے نہیں گزرتا کہ یہ بھی بے ادبی ہے،اس لیے آپ کی نشست پر کپڑا چڑھاہوتا ہے۔

آپ نے ساری زندگی سادگی میں ہی گزاردی ،چمڑے کا بنا ہوا مصلیٰ ہی آپ کی جائے نماز اور وہی بستر تھا اور اسی پر جلوہ افرو زہوجاتے۔

آپ کی تدفین کے بعد آپ کے اکلوتے بیٹے ، شاگرد اور رائیونڈ کے استاد مولانا عبیدالله خورشید صاحب حفظہ اللہ فرمانے لگے کہ اب میری اصلاح کون کرے گا ؟حضرت والد صاحب آخر عمر تک ذرا ذرا سی بات پہ روک ٹوک کرتے اور پوچھ گچھ کرتے ،سبق پر گرفت کرتے ،بیان کی اصلاح فرماتے۔

ایک مرتبہ عرب کے حضرات نے ہدیہ دیا ،اس پر گرفت فرمائی، یہ ہدیہ کہاں سے آیا ؟کس نے دیا ؟کیوں دیا ؟آپ نے کیوں لیا؟ اس طرح ان کی ایک مرتبہ کی اصلاح عمر بھر کے لیے مشعل راہ بن جاتی۔

مولانا طارق جمیل صاحب حفظہ اللہ جو آپ کے شاگردوں میں سے ہیں ان سے متعلق سنا ہے کہ مولانا حفظہ اللہ نے فرمایا،میں ایک مرتبہ مولانا جمشید صاحب کی خدمت میں شہد لے کر گیا ،حضرت میرے استاد تھے، میں رائیونڈ میں ان کے پاس پڑھتا تھا ،مجھ سے فرمانے لگے !کہاں سے لائے ہو؟ میں نے عرض کیا میرے اپنے باغ کا ہے،پھر پوچھا تمہارے باپ نے اپنی زمین میں سے اپنی بہنوں کو حصہ دیا ہے ؟میں نے سوچا ،بات شہد کی ہے اور مجھ سے باپ کی وراثت کا پوچھ رہے ہیں ،میں نے کہا، میرے والد صاحب کی کوئی بہن نہیں تھی ،پھر فرمانے لگے کہ تمہارے دادا نے اپنی بہنوں کو حصہ دیا تھا؟

میں نے کہا جتنا اللہ نے مجھے مکلف بنایاہے، آپ بھی مجھے اتنا ہی مکلف سمجھیں۔کہنے لگے اچھا اچھا ،ٹھیک ہے․ ٹھیک ہے۔پھر پوچھا یہ بوتل بھی ہدیہ ہے یا صرف شہد ہدیہ ہے؟

جن کو آخرت کا خوف ہوتا ہے وہ ایسی ہی تحقیق کرتے ہیں ۔

مولانا چھوٹے تھے اور بچپن سے ہی حضرت تھانوی کے گھر آنا جانا رہتا تھا اور حضرت تھانوی ان کی اصلاح بھی فرماتے اور دیگر حضرات کی اصلاح کو بھی آپ ملاحظہ فرماتے تھے۔ پھر جلال آباد میں حضرت تھانوی کے عظیم خلیفہ حضرت مولانا مسیح اللہ خاں شیروانی سے تلمذ اور بیعت کا تعلق رہا، گو حضرت سے خلافت نہ ملی،لیکن اس قدر جزرسی کے ساتھ فکرآخرت اور خوف خدا انہی نفوس قدسیہ کی صحبت و معیت کی دین ہے،مولانا طارق جمیل صاحب حفظہ اللہ ،رائیونڈ کے امام مولانا معاذ صاحب ،مولانا عبیدالله خورشید صاحب ،رائیونڈ کے بزرگ استاد مولانا عبد الرحمن صاحب اور دیگر سینکڑوں مبلغین علمائے کرام آپ کے شاگرد ہیں اور آپ کی فکر اور مہم کے امین و وارث ہیں ۔
        آتی ہی رہے گی تیرے انفاس کی خوش بو
        گلشن تیری یادوں کا مہکتا ہی رہے گا