Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

حضرت خضر علیہ السلام - حصّہ اوّل

قصص الانبياء ⫷ قِسط نمبر : ٢۵ ⫸   حضرت خضر علیہ السلام ۔ ( حصّہ اوّل )   نام و نسب سورۃ کہف کی آیات ٦٠ تا ٨٢ میں حضرت موسیٰ عل...


قصص الانبياء ⫷ قِسط نمبر : ٢۵ ⫸

 

حضرت خضر علیہ السلام ۔ ( حصّہ اوّل )

 

نام و نسب

سورۃ کہف کی آیات ٦٠ تا ٨٢ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ایک خاص شخصیت سے ملاقات کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہ شخصیت تین کام ایسے سرانجام دیتی ہے جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام حیرت میں ڈوب جاتے ہیں۔ اور ان سے اسی حیرت و استعجاب کا اظہار کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ حضر ت موسیٰ علیہ السلام سے اپنا راستہ الگ کر لیتےہیں۔ قرآن مجید میں اس شخصیت سے متعلق اس سے زیادہ کچھ نہیں ملتا۔ احادیث مبارکہ میں اس شخصیت کا تعین حضرت خضر علیہ السلام کے نام سے کیا گیا ہے۔

 

مفسرین و مؤرخین کے مطابق حضرت خضر علیہ السلام کی کنیت ابو العباس اور نام ''بلیا'' اور ان کے والد کا نام ''ملکان'' ہے۔ ''بلیا'' سریانی زبان کا لفظ ہے۔ عربی زبان میں اس کا ترجمہ ''احمد'' ہے۔

محمد حسین طباطبائی کے مطابق ان کا اصلى نام تالیا بن ملکان بن عبر بن ارفکشد بن سام بن نوح ہے۔

(الطباطبائی، المیزان فى تفسیر القران، جلد ١٣، صفحہ ۵٨۴)

 

 ''خضر'' ان کا لقب ہے اور اس لفظ کو تین طرح سے پڑھ سکتے ہیں۔ خَضِر، خَضْر، خِضْر۔ ''خضر'' کے معنی سبز چیز کے ہیں۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا: “درحقیقت ان کو خضر نام اس لئے دیا گیا کہ وہ ایک بنجر زمین کے ٹکڑے پر بیٹھ گئے تو اچانک وہ حصہ سبزہ سےلہلہانے لگا۔”

اس لئے لوگ ان کو ''خضر'' کہنے لگے۔

 

آپ بہت ہی عالی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور آپ کے آباؤ اجداد بادشاہ تھے۔ بعض عارفین نے فرمایا ہے کہ جو مسلمان ان کا اور ان کے والد کا نام اور ان کی کنیت یاد رکھے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ اُس کا خاتمہ ایمان پر ہو گا۔ 

(صاوی، ج۴، ص۱۲۰۷، پ۱۵، الکہف : ۶۵)

 

حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنین کے خالہ زاد بھائی بھی تھے۔ حضرت خضر علیہ السلام حضرت ذوالقرنین کے وزیر اور جنگلوں میں علمبردار رہے ہیں۔ یہ حضرت سام بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ تفسیر صاوی میں ہے کہ حضرت ذوالقرنین حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے دست حق پرست پر اسلام قبول کر کے مدتوں اُن کی صحبت میں رہے اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے ان کو کچھ وصیتیں بھی فرمائی تھیں۔ 

(صاوی، ج۴، ص۱۲۱۴، پ۱۶، الکہف : ۸۳)

 

تو اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خضر علیہ السلام کا دور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کے فوری بعد کا ہی ہے۔

 

خدمت بحر :

۔"" "" "" ""

عام اعتقادات کے مطابق خضر کا کام سمندر اور دریاؤں میں لوگوں کی رہنمائی کرنا ہے۔ عوام آپ کو خواجہ خضر کہتے ہیں۔ 

 

(یعنی سمندر میں لوگوں کی رہنمائی کرنا) انہیں سے متعلق (یعنی انہیں کے سپرد) ہے اور اِلیاس علیہ السلام '' بَرّ '' (خشکی) میں ہیں۔ 

(الاصابۃ فی تمیزالصحابۃ، حرف الخاء المعجمۃ، باب ماوردفی تعمیرہ، ج۲، ص۲۵۲)

 

حضرت خضرؑ کی نبوت :

۔"" "" "" "" "" "" "" "" ""

جمہور علماء امت نے حضرت خضر علیہ السلام کی نبوت کے بارے میں اختلاف کیا ہے ۔ بعض نےکہا وہ نبی ہیں بعض نے کہا وہ ولی ہیں اور ایک عبدصالح ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو علم خاص عبدیت اورب ہترین صفات کے ساتھ ذکر کیا۔مگر ان چیزوں کے ساتھ یہ نہیں فرمایا کہ وہ نبی یا رسول ہیں ۔ اور اس امر کا پتا نہیں چلتا کہ آپؑ نے کسی قوم کی ہدایت گوئی کی ہو۔

 

حضرت موسیٰؑ اورحضرت خضرؑ کا قصہ :


قرآن پاک میں حضرت خضرؑ کا تذکرہ سورۃ الکہف (٦٠ تا ٨٢) میں تفصیلاً ملتا ہے۔ جب حضرت موسیٰؑ نے اپنے علم کی فوقیت کا تذکرہ فرمایا، تو ﷲ رب العزت نے فرمایا (فوق کل ذی علم علیم )

 

ہر صاحب علم کے اوپر بھی کوئی صاحب علم ہوتا ہے۔تو پھر بحکمِ خداوندی حضرت موسیٰؑ اپنے سے زیادہ صاحبِ علم ہستی کی تلاش میں نکلے۔ آپ ؑکے شاگرد حضرت یوشعؑ بن نون آپؑ کےساتھ تھے ۔ بیان کردہ نشانیاں اور علاماات ظاہر ہونے کے بعد جب حضرت موسیٰؑ نے حضرت خضرؑ کو پا لیا تو اس موقع پر قرآن مجید حضرت خضرؑ کا تعارف کچھ یوں بیان فرماتا ہے :

فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَا آتَيْنَاهُ رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا° 

ترجمہ : ”تب انہیں ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ ملا جس کو ہم نے اپنی خصوصی رحمت سے نوازا تھا ، اور خاص اپنی طرف سے ایک علم سکھایا تھا ۔"

(سورۃ الکہف : ٦۵)

 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت خضرؑ کو اپنا بندہ خاص قرار دیا اور ان کے دو اوصاف رحمت اور علم کا ذکر وضاحت فرمایا۔

قرآنِ عزیز کہتا ہے کہ؛ 

فَانۡطَلَقَا ٝ حَتّٰۤی اِذَا رَکِبَا فِی السَّفِیۡنَۃِ خَرَقَہَا ؕ قَالَ اَخَرَقۡتَہَا لِتُغۡرِقَ اَہۡلَہَا ۚ لَقَدۡ جِئۡتَ شَیۡئًا اِمۡرًا ﴿۷۱﴾ قَالَ اَلَمۡ اَقُلۡ اِنَّکَ لَنۡ تَسۡتَطِیۡعَ مَعِیَ صَبۡرًا ﴿۷۲﴾ قَالَ لَا تُؤَاخِذۡنِیۡ بِمَا نَسِیۡتُ وَ لَا تُرۡہِقۡنِیۡ مِنۡ اَمۡرِیۡ عُسۡرًا ﴿۷۳﴾ فَانۡطَلَقَا ٝ حَتّٰۤی اِذَا لَقِیَا غُلٰمًا فَقَتَلَہٗ ۙ قَالَ اَقَتَلۡتَ نَفۡسًا زَکِیَّۃًۢ بِغَیۡرِ نَفۡسٍ ؕ لَقَدۡ جِئۡتَ شَیۡئًا نُّکۡرًا ﴿۷۴﴾

ترجمہ : ”چنانچہ دونوں روانہ ہو گئے ، یہاں تک کہ جب دونوں ایک کشتی میں سوار ہوئے تو ان صاحب نے کشتی میں چھید کر دیا۔ موسیٰؑ بولے : ارے کیا آپ نے اس میں چھید کر دیا تاکہ سارے کشتی والوں کو ڈبو ڈالیں؟ یہ تو آپ نے بڑا خوفناک کام کیا ۔ انہوں نے کہا : کیا میں نے کہا نہیں تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکیں گے؟ موسیٰ نے کہا : مجھ سے جو بھول ہو گئی ، اس پر میری گرفت نہ کیجیئے، اور میرے کام کو زیادہ مشکل نہ بنائیے۔ وہ دونوں پھر روانہ ہو گئے ، یہاں تک کہ ان کی ملاقات ایک لڑکے سے ہوئی تو ان صاحب نے اسے قتل کر ڈالا ۔ موسیٰؑ بول اٹھے : ارے کیا آپ نے ایک پاکیزہ جان کو ہلاک کر دیا ، جبکہ اس نے کسی کی جان نہیں لی تھی جس کا بدلہ اس سے لیا جائے؟ یہ تو آپ نے بہت ہی برا کام کیا !

(سورۃ الکہف : ۷١ تا ۷۴)

 

سورۃ الکہف کی ان آیات میں جو تین واقعات پیش آئے، ان تینوں واقعات کی بنیاد سراسر رحمت ہے۔

 

حضرت خضرؑ نے کشتی کے پشتہ کو توڑ کر اسے عیب دار بنایا اور اس طرح اسے غالب حکمران سے بچا لیا۔ غریب کشتی والے کے لئے یہ عمل رحمت ثابت ہوا۔

 

آگر خضر در بحر کشتی را شکست

صد درستی در شکست خضر پست

 

ایک معصوم بچے کو قتل کر کے بچے کے والدین کے ایمان کو بچا لیا۔ اسی طرح علاقہ کے لوگوں کے عمل سے بے نیاز ہو کر ایک گرتی دیوار کو بغیر مزدوری کے تعمیر کیا۔ جس سے یتیم بچوں کے مال کی حفاظت ممکن ہوئی۔ آپ کا یہ عمل یتیم بچوں کے لئے رحؐت کا اظہار تھا۔

 

کشتی مسکین ، جاں پاک دیوار یتیم

علم موسیٰؑ بھی ہے تیرے سامنے حیرت فروش

 

 علم خضرؑ :


اگرچہ حضرت موسیٰؑ انبیاء کرام میں خاص اور علم میں بے پناہ تھے مگر جو علم حضرت خضرؑ کو عطا ہوا اس کی نوعیت حضرت موسیٰؑ کےعلم سے مختلف تھی۔

تفسیرِ مظہری میں حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی کی تحریر کا خلاصہ یہ ہے کہ :

حق تعالیٰ جن حضرات کو وحی و نبوت سے سرفراز فرماتے ہیں، وہ عموماً وہی حضرات ہوتے ہیں جن کے سپرد اصلاحِ خلق کی خدمت ہوتی ہے۔ ان پر کتاب و شریعت نازل کی جاتی ہے۔ مگر دوسری طرف کچھ تکوینی خدمات بھی ہیں جن کے لئے ملائکة اللہ یا انبیاء میں سے بعض کو مخصوص کر لیا جاتا ہے ۔حضرت خضرؑ اس زمرے میں سے ہیں ۔

 

حضرت خضرؑ کو وہ علم لونی حاصل تھا، جو دوسرے انبیاء کو حاصل نہ تھا۔ جس کی مدد سے وہ مصیبت زدوں کی مدد کرتے اور گمراہ کی راہنمائی کرتے ۔

 

ترک لوگوں میں حضرت خضرؑ کا کونسیپٹ انتہائی مضبوط ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق جب کوئی انسان مشکل کا شکار ہو کر راستہ بھٹک جاتا ہے تو حضرت خضر علیہ السلام اس کی مدد کرنے کو عین وقت پہنچتے ہیں ۔

 

اگرچہ حضرت خضرؑ اللہ کے خاص بندے تھے مگر حضرت موسیٰؑ نے کسی ایسی بات پر صبر نہ کیا جس کو انہوں نے شریعت کے خلاف پایا۔ حضرت موسیٰؑ اسی وقت مطمئن ہوئے جب حضرت خضرؑ نے ان کو یہ اطمینان دلایا کہ جو بھی انہوں نے کیا ہے حکمِ خداوندی کی تعمیل میں کیا ہے ۔

 

کہہ دیا مجھ سے اے جوہائے اسرارِ ازل

چشم دلِ ما ہو تو تقدیر عالم بے حجاب

 

رسول اللہ ﷺ نے یہ واقعہ نقل کر کے فرمایا کہ موسیٰؑ کا پہلا اعتراض خضرؑ پر بھول سے ہوا تھا اور دوسرا بطورِ شرط کے اور تیسرا قصداً۔ ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ کر اس نے دریا میں سے ایک چونچ بھر پانی پیا۔ حضرت خضرؑ نے حضرت موسیٰؑ کو خطاب کر کے کہا: میرا اور آپ کا علم اللہ کے علم کے مقابلے میں بس اتنی ہی حیثیت ہے جتنا اسی چڑیا کی چونچ کے پانی کو اس سمندر کے ساتھ ہے ۔

 

۔─━━━═•✵⊰ جاری ہے ⊱✵•═━━─

🔰WJS🔰