Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

قرآن پاک میں صحت سے متعلق بیان

♻   صحت کے اصول قرآن اور حدیث سے:    واقعہ کچھ ایسا ہے کہ خلیفہ ہارون رشید کے دربار میں ایک مرتبہ ایک عیسائی آیا جو پادری بھی تھا ...


  صحت کے اصول قرآن اور حدیث سے:
  

واقعہ کچھ ایسا ہے کہ خلیفہ ہارون رشید کے دربار میں ایک مرتبہ ایک عیسائی آیا جو پادری بھی تھا اور حکیم بھی تھا اور وہ زمانہ ایسا تھا کہ وقت کے بادشاہوں اور خلفاء کے پاس علماء کرام بھی ہوتے تھے اور اس وقت کے لوگ اہل علم کی قدر دانی کیا کرتے تھے۔ علم دین کے قدر دان ہوا کرتے تھے۔ وہ عیسائی پادری آیا اور کہنے لگا: دیکھو تم لوگ یہ کہتے ہو کہ تمہارے رب نے تمہیں سب کچھ بتادیاہے تو کیا قرآن مجید جس کو تم اللہ کی کتاب کہتے ہو، اس میں صحت کے متعلق بھی کوئی اصول ہے ؟ تو خلیفہ ہارون رشید نے علماء کی طرف دیکھا تو ایک عالم کھڑے ہوئے، کہنے لگے: میں جواب دوں؟ کہا :ہاں جی آپ جواب دے دیجیے۔ تو انہوں نے جواب دیا۔

  قرآن مجید کے اندر صحت کے بارے میں حکم :
قرآن پاک میں صحت سے متعلق یوں بیان کیا گیا ہے:
﴿کُلُوْا وَاشْرَبُوْاوَ لَا تُسْرِ فُوْا﴾ (سورۃ الاعراف:31)
’’کھاؤ اور پیو اور اسراف نہ کرو‘‘۔
اوور ایٹنگ ( Overeating) نہ کرو، ضرورت کے درجے میں ضرور کھاؤ لیکن غیر ضروری چیزیں نہ کھاؤ، اسراف نہ کرو۔ اس نے یہ بات سنی تو خاموش ہوگیا۔ پھر کہنے لگا کہ تم کہتے ہو کہ حضور پاکﷺ تمہارے نبی ہیں اور تمہیں انہوں نے ہر چیز کے بارے میں رہنمائی دی ہے تو کیا صحت کے بارے میں بھی کوئی رہنمائی ہے ؟ تو ہارون رشید نے پھر علماء کی طرف دیکھا وہی عالم دوبارہ کھڑے ہوئے کہنے لگے کہ میں جواب دوں؟ جی جواب دیں۔ تو انہوں نے بتایا کہ دیکھو حضور پاکﷺ نے صحت کے متعلق ہمیں تین باتیں سمجھائی ہیں۔ آج آپ کسی بھی ڈاکٹر کو یہ اصول بتادیں ان شاء اللہ وہ اس کی تائید ہی کرے گا اور قیامت تک اس کی تائیدہوتی رہے گی۔

💗  تین اہم باتیں:
پہلی بات: یہ فرمائی’’ کہ معدہ تمام بیماریوں کی جڑ ہے‘‘۔
دوسری بات:  یہ فرمائی’’تم معدہ کو وہی دو جس کی معدہ کو ضرورت ہے‘‘اور
تیسری بات: ارشاد فرمائی ’’کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے‘‘۔

یہ تین اصول ایسے بیان فرمائے کہ اگر ہم ان کو اپنالیں تو ہمارے لیے آسانی ہوجائے گی۔ اس عیسائی پادری نے جب یہ بات سنی تو سر جھکا یا پھر کہنے لگا کہ تمہارے خدا اور تمہارے نبی نے جالینوس کے لیے کچھ نہیں چھوڑا۔ یعنی اب حکمت کے پاس کچھ نہیں رہا، حکیم کے پاس کچھ نہیں رہا،اور واقعی ایسا ہی تھا۔