Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

‏نادان لڑکی - شبنم اور جاوید

وہ ہانپتی کانپتی سیڑھیاں چڑھتی چھت پر پہنچی جانے کیوں نیچے جانے کے بجائے وہ اوپر آ گئی ۔  ٹرن ٹرن ۔۔ فون فور بجنے لگا ایک دم سے ا...


وہ ہانپتی کانپتی سیڑھیاں چڑھتی چھت پر پہنچی جانے کیوں نیچے جانے کے بجائے وہ اوپر آ گئی ۔ 

ٹرن ٹرن ۔۔ فون فور بجنے لگا ایک دم سے اس نے سائلنٹ کا بٹن دبایا اور سیڑھیوں کی جانب دیکھنے لگی۔۔ جاوید
وہ فون اٹھاتے ہوئے بوہکلائے انداز میں بولی ؛
میں نے سب سامان تیار کر لیا ہے تم کہاں ہو ؟ بولتے بولتے اس نے سیڑھیوں کی جانب دیکھا۔

میں بس پہنچنے والا ہوں تم اطمینان رکھو اور ہاں جلدی سے نیچے آنا ہمارے پاس وقت بہت کم ہے، جاوید نے جلدی سے  جواب دیتے فون بند کر دیا ۔

شبنم کے لئے یہ انتظار اتنا طویل ہوگیا جیسے برسوں وہ اس انتظار میں گزری ہو ۔۔ گھبراتے ہوئے وہ چھت کی دیوار کے پاس آئی ، اور یونہی نیچے جھانکنے لگی تھی مگر یہ کیا اسکا دل لمحے کے ہزارویں حصے میں جیسے رک سا گیا ہو۔۔ جاوید گلی کے نکڑ پر بائیک پر اپنے دو دوستوں کے ساتھ تھا اور اسکے دونوں دوست بائیک سے اتر کر ایک سائیڈ پر ہوگئے اور جاوید کا روخ شبنم کے گھر کی جانب تھا۔

شبنم نے دوبارہ اپنا فون نکالا
اور جاوید کا نمبر ملایا چھونٹتے ہی جاوید نے بولا :
جلدی نیچے آؤ میں آگیا ہوں اور ہاں دیکھو اپنا زیور اور نقدی ساتھ لیا ہے نا؟
تم اکیلے آئے ہو نا؟ شبنم نے اسکے سوالات کو نظر انداز کرتے ہوئے پوچھا ؟
ہاں میں نے اکیلے آنا تھا تو ظاہر ہے اکیلا ہی آیا ہوں نا۔۔
جاوید جھنجھلاتے ہوئے بولا تم فوراً آؤ وقت کم ہے وہ گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے دوبارہ بولا :
مگر شبنم پر تو جیسے سکوت طاری ہوگیا 

تم سچ کہ رہے ہو تم اکیلے آئے ہو؟
شبنم کی سوئی وہی اٹکی ہوئی تھی جاوید پر جیسے شک گزرا وہ فوراً نرم انداز اپنے ہوئے بولا :
کیا کوئی اپنی زندگی سے بھی جھوٹ بول سکتا ہے میں تمھیں کس طرح یقین دلاؤں کے میں تنہا ہوں تم آؤ اور خود دیکھ لو میں تنہا آیا ہوں اب کی بار وہ کچھ زیادہ ہی تفصیل سے جواب دے گیا۔ دونوں طرف سکوت چھا گیا ۔
شبنم کی آواز نے سکوت توڑا تو جیسے جاوید پر حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔۔۔
وہ کانپتی آواز میں بولی ؛

چلے جاؤ اور اب دوبار کبھی میرے گھر کا رخ نا کرنا اگر تم یہاں آئے تو جان لو مجھ سے برا کوئی نا ہوگا اسے اپنی آواز کسی کھائی سے آتی محسوس ہوئی ۔
کونسی دوست تھی میری ایسی جس نے مجھے تم سے ملنے سے نا روکا ہو مگر میں نے کسی کی نا سنی یہاں تک اپنی ماں باپ کو دھوکہ دینے چلی تھی، انکی آنکھوں میں دھول جھونک کر میں نے تمھیں اہم جانا اور تم نے آج بتا دیا، مجھ سے بڑھ کوئی پاگل ہو ہی نہیں سکتی بے دردی سے  وہ گال رگڑتی کال بند کرنے لگی کے وہ گویا ہوا ۔۔۔


تم اگر میری اصلیت جان ہی چکی ہو تو سیدھی طرح زیور اور نقدی مجھے دے دو ورنہ میں تمھاری تصاویر سوشل میڈیا پر ڈال دونگا پھر تم کسی کو تو کیا اپنے گھر والوں کو منہ دکھانے کے قابل نا رہو گی غصے سے بولتا وہ چپ ہوا ۔


ہر بےایمان انسان کیطرح وہ اپنی اصلیت پر اتر آیا مگر شبنم پر اس کا اثر نا پڑا ۔۔ وہ پھٹ پڑی ۔


جاؤ جو جی میں کر لو میں کسی صورت تمھیں پھوٹی کوڑی نہی دینے والی ۔۔ اور ایک بات یاد رکھنا جب کوئی توبہ کرے تو وہ اس نے آسمان کی طرف شہادت کی انگلی اٹھاتے ہوئے کہا وہ کسی کی توبہ رد نہیں کرتا اور جب آزماتا ہے تو اپنے بندے کو رسوا نہی کرتا یہ کہتے ہی اس نے فون بند کرتے ہی دیوار پر دے مارا ۔۔


اور ایسے رونے لگی جیسے اسکا کوئی اپنا مر گیا ۔۔۔ مر ہی تو گیا تھا ناں اسکا ضمیر ۔۔۔۔ آہ کیا ہوتا اگر میں چھت پر نا آتی اور اسکے دوستوں کو نا دیکھ لیتی یقینا میرا بھی ذکر ان لڑکیوں میں ہوتا جو اپنے والدین کی نافرمان ہوتی ہیں در در ٹھوکریں کھانے والی جہنیں پھر کبھی عزت نہی ملتی جو ماں باپ کی عزت کو اسکی دہلیز پر روند کر اپنی خواہشات کے پیچھے گھر سے نکلتی ہیں ۔۔۔!!! 


پچھتاوے کے آنسو بھاتی وہ اب سیڑھیاں اترتے نیچے آ رہی تھی جیسے صدیوں کا بوجھ اسکے کاندھوں پر آ پڑا ہو۔۔۔!!!!

اگر آپ کو یہ تحریر  پسند آئی ہو تو اپنے دوست و احباب سے ضرور شیئر کریں۔
☜اے کاش کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات ۔

میری خواہش صرف اتنی ہیکہ کچھ ایسے مضامیں لکھوں جس سے کوئی گمراہی کے راستے پر جاتے جاتے رک جائے، اگر نہ بھی رکے تو سوچنے پر مجبور ہوجائے۔