میں نے تدر یسی فرائض کے دوران ایک کلاس میں سرسری طور پر سوال کیا کہ کشمیر کا کیا مسئلہ ہے بھئی؟ ہلکے پھلکے لہجے میں کیا ہوا یہ سوال کلاس...
میں نے تدر یسی فرائض کے دوران ایک کلاس میں سرسری طور پر سوال کیا کہ کشمیر کا کیا مسئلہ ہے بھئی؟ ہلکے پھلکے لہجے میں کیا ہوا یہ سوال کلاس میں موجود ہر طالب علم کے چہرے پر مسکراہٹ لے آیا۔ ہنستے ہوئے ایک نٹ کھٹ طالبعلم نے فرمایا کہ دودھ مانگو گے کھیر دیں گے کشمیر مانگو گے تو چیر دیں گے۔
میں نے کہا کہ جناب وہ مانگ تھوڑی رہے ہیں۔ وہ تو چھین رہے ہیں پھر بھی آپ ان کو کھیر دے رہے ہیں۔ بچے حیران ہو کر میرا منھ تکنے لگے۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ پچھلے برس کی دہم کلاس اور اس دہم کلاس کی سیاسی معلومات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
میں نے سنجیدہ ہو کر پوچھا کہ کس کس کو معلوم ہے کشمیر کا مسئلہ؟ کوئی جواب نہیں آیا۔۔۔ مجھے جو افسوس ہوا وہ اپنی جگہ لیکن ہزاروں سوال میرے اپنے دماغ میں کلبلانے لگے۔ پھر پوچھا کہ کشمیر تو چھوڑو یہ بتاؤ کہ پاکستان کیوں بنایا تھا؟ جواب آیا کہ ہندو مسلمانوں پر ظلم کرتے تھے۔ پوچھا کہ کیا ظلم کرتے تھے؟ خاموشی۔۔۔!
پوچھا کہ ہندو کب بھارت میں آئے تھے؟ خاموشی۔۔۔!
پوچھا کہ مسلمان تو عرب میں تھے تو بھارت آنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ خاموشی۔۔۔!
پوچھا کہ مسلمان کب بھارت آئے؟ خاموشی۔۔۔!
پوچھا کہ باب الاسلام کس کو کہتے ہیں؟ خاموشی۔۔۔!
آج کے کون کون سے ملک اس وقت بھارت کہلاتے تھے؟ سب چُپ۔۔۔!
بر صغیر کیا تھا؟ سب خاموش۔۔۔!
راجہ داہر کون تھا؟ موت کا سا سناٹا۔۔۔!
اشوک کی تہذیب کیا تھی؟ سب کے منھ لٹکے ہوئے۔۔۔!
ذات پات کا نظام کس نے نافذ کیا؟ منھ نیچے۔۔۔!
مسلمان بادشاہت کب شروع ہوئی؟ سب چُپ۔۔۔!
کسی مسلمان بادشاہ کا نام؟ سب چُپ۔۔۔!
انگریز کیوں انڈیا آئے؟ سب چُپ۔۔۔!
حاکم کیسے بنے؟ سب چُپ۔۔۔!
ایسٹ انڈیا کمپنی کیا تھی؟ سمندری قزاق کس نے بنائے؟ پہلا وائسرائے کون تھا؟
ارے۔۔۔!!!! وائسرائے ہوتا کیا ہے؟؟؟ نہیں معلوم؟ شاباش۔۔۔ ٹیپو سلطان کون تھے؟ سراج الدولہ؟ حیدر علی؟ اورنگزیب عالمگیر؟ انڈیا کی سیاسی تنظیم کون سی بنائی گئی؟ کب؟ کیوں؟ سب منھ کھولے سوالات سنتے رہے۔
پلاسی کی جنگ کیا تھی؟ میسور کی اہمیت؟ الفانسو کون تھا؟ میر جعفر کا کیا کردار تھا؟ میر مدن؟ میر صادق؟ ارے غداروں کو بھی نہیں جانتے؟؟؟ اچھا چلو آسان سوال پوچھتا ہوں۔
علامہ اقبال کون تھے؟ سب بول پڑے۔۔۔ شاعر مشرق!!! اب تو میرا منھ کھلا رہ گیا۔ پوچھا کہ شاعر کے علاوہ کیا تھے؟ اب کی بار بچوں کا منھ کھل گیا۔۔۔۔۔ شاید اب تک آپ کا منھ بھی کھل گیا ہو کہ آخر میں لکھنا کیا چاہتا ہوں۔۔۔!
اب لکھنے کو رہ کیا گیا ہے۔ سوال تو شاید یہ بنتا ہے کہ یہ بچے روزانہ چوبیش گھنٹے کس مصروفیت میں گذارتے ہیں؟ ان کے ماں باپ ان کو کیا بتاتے ہیں؟ کیا سکھاتے ہیں؟ تاریخ کا علم ماں باپ کو ہے بھی یا نہیں؟ کس ماحول میں دن رات بسر ہوتے ہیں ان طلبہ کے کہ بنیادی معلومات تک ان کے کانوں میں کبھی نہیں پڑی؟ اور اس حالت پر جب کوئی کہے کہ کشمیر مانگو گے تو چیر دیں گے۔۔۔ تو مجھے بتائیے کہ میں زور زور سے پیٹ پکڑ کر ہنسوں۔۔۔۔ یا سر پکڑ کر پھوٹ پھوٹ کر روؤں ؟
منقول
The region of Kashmir has been a central point of conflict between India and Pakistan since the partition of British India in 1947. Upon partition, the princely state of Jammu and Kashmir, despite having a Muslim-majority population, was acceded to India under controversial circumstances. This triggered the first war between India and Pakistan and led to the establishment of the United Nations Security Council Resolutions, which called for a free and impartial plebiscite to let the people of Kashmir decide their own future — a promise that remains unfulfilled. Over the decades, the local Kashmiri population has consistently expressed a strong desire for self-determination and independence, often facing heavy militarization, human rights violations, and political suppression. Pakistan’s narrative firmly supports the Kashmiri people's right to self-determination as enshrined in international law and UN resolutions. Pakistan advocates for a peaceful resolution through dialogue and emphasizes that the wishes of the Kashmiri people must be respected. The situation escalated further when India revoked Article 370 in August 2019, stripping Kashmir of its limited autonomy, a move strongly condemned by Pakistan and many international human rights organizations. Pakistan continues to raise the issue on global platforms, urging the international community to intervene and help resolve the Kashmir dispute in line with justice, freedom, and human dignity.
شمیر کا علاقہ 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے بعد سے ہی بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازعہ کا مرکزی نقطہ رہا ہے۔ تقسیم کے وقت، جموں و کشمیر کی ریاست، جس کی آبادی کی اکثریت مسلمان تھی، متنازعہ حالات میں بھارت سے الحاق کر گئی۔ اس واقعے نے بھارت اور پاکستان کے درمیان پہلی جنگ کو جنم دیا اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کا باعث بنا، جن میں کشمیری عوام کو آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری کا حق دینے پر زور دیا گیا — ایک وعدہ جو آج تک پورا نہیں ہو سکا۔ دہائیوں سے کشمیری عوام آزادی اور خودمختاری کے اپنے حق کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اس جدوجہد میں انہیں شدید عسکری دباؤ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور سیاسی جبر کا سامنا ہے۔ پاکستان کا مؤقف ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ کشمیریوں کو حقِ خودارادیت دیا جائے، جیسا کہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں تسلیم شدہ ہے۔ پاکستان مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے مذاکرات پر زور دیتا ہے اور اس بات کی وکالت کرتا ہے کہ کشمیری عوام کی خواہشات کا احترام کیا جانا چاہیے۔ اگست 2019 میں بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370 کے خاتمے اور کشمیر کی خودمختاری چھیننے کے اقدام نے حالات کو مزید سنگین کر دیا، جسے پاکستان اور متعدد عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید مذمت کا نشانہ بنایا۔ پاکستان عالمی فورمز پر اس مسئلے کو اجاگر کرتا رہتا ہے اور عالمی برادری سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ انصاف، آزادی اور انسانی وقار کے اصولوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے کردار ادا کرے۔