Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

قرآن اور ‏سائنس

قرآن مجید میں پرندوں کی پرواز یا اڑان کے متعلق معلومات اور جدید سائنس ۔"" "" "" "" "" &quo...




قرآن مجید میں پرندوں کی پرواز یا اڑان کے متعلق معلومات اور جدید سائنس
۔"" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" ""

 ● قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ پرندوں کی پرواز کے متعلق درج ذیل آیت کریمہ میں ارشاد فرماتاہے:
اَلَمْ یَرَوْااِلیَ الطَّیْرِ مُسَخَّرٰ تٍ فِیْ جَوِّ السَّمَآءِ ط مَا یُمْسِکُہُنَّ اِلَّا اللّٰہُ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لاَ یٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ °
ترجمہ : ''کیا انہوں نے پرندوں کو نہیں دیکھا کہ آسمانی فضا میں کیسے مسخر ہیں ، انہیں اللہ ہی تھامے ہوئے ہے، جو لوگ ایمان لاتے ہیں ان کے لئے اس میں بہت سی نشانیا ں ہیں ''
(سورۃ النحل : ۷٩)

کوئی چیز فضا میں ٹھہر نہیں سکتی، وہ ہوا کی لطافت اور زمین کی کشش ثقل کی وجہ سے زمین پر آ گرتی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے پروں اور ان کی دُم کی ساخت میں کچھ ایسا توازن قائم کیا ہے کہ نہ زمین کی کشش ثقل انہیں اپنی طرف کھینچتی ہے اور نہ ہوا کی لطافت انہیں نیچے گراتی ہے اور فضا میں بے تکلف تیرتے پھرتے ہیں۔ پھر یہ فن انہیں سیکھنے کی بھی ضرورت نہیں۔ یہ سب باتیں ان کی فطرت میں رکھ دی گئی ہیں۔ پرندے جب اڑنے لگتے ہیں تو اپنے پروں کو پھڑپھڑاتے اور پھیلاتے ہیں۔ پھر جب فضا میں پہنچ جاتے ہیں تو ضروری نہیں کہ وہ ہر وقت پروں کو پھیلائے رکھیں۔ وہ انہیں بند بھی کر لیتے ہیں لیکن پھر بھی گرتے نہیں۔ انسان نے پرندوں کی اڑان اور ان کی ساخت میں غور و فکر کر کے ہوائی جہاز تو ایجاد کر لیا۔ مگر جس ہستی نے ایسے طبعی قوانین بنا دیئے ہیں جن کی بناء پر پرندے یا ہوائی جہاز فضا میں اڑتے پھرتے ہیں۔ اس ہستی کی معرفت حاصل کرنے کے لئے انسان نے کوئی کوشش نہ کی۔
(تیسیر القرآن ، جلد دوم، النحل ،حاشیہ ٨٠)

● دوسری جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
اَوَلَمْ یَرَوْااِلیَ الطَّیْرفَوْقَہُمْ صٰفّٰتٍ وَّیَقْبِضْنَ ط مَا یُمْسِکُہُنَّ اِلَّا الرَّحْمٰنُ ط اِنَّہُ بِکُلِّ شَیْئٍ م بَصِیْر°
ترجمہ : ''کیا انہوں نے اپنے اوپر پرندوں کو نہیں دیکھا کہ وہ کیسے اپنے پر کھولتے اور بند کر لیتے ہیں۔ رحمٰن کے سوا کوئی نہیں ہے جو انہیں تھامے رکھے، وہ یقیناً ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔''
(سورۃ الملک : ١٩)

صٰفٰت، صفّ یعنی صف بنانا، سیدھی قطار بنانا اور صف بمعنی ہر شئے کی سیدھی قطار اور صف الطیر بمعنی پرندوں نے اپنی اڑان میں اپنے پروں کو قطار کی طرح سیدھا کر دیا۔ نیز اس کا معنی پرندوں کا اپنے پروں کو ہوا میں پھیلا دینا اور بالکل بے حرکت بنا دینا بھی ہے۔ جبکہ سب ایک ہی حالت میں ہوں۔ مطلب یہ ہے کہ پرندے ہوا میں اڑتے ہوئے کبھی اپنے پر پھیلا بھی دیتے ہیں اور کبھی سکیڑ بھی لیتے ہیں۔
(تیسیر القرآن ، جلد چہارم، الملک ، حاشیہ ٢١)

جدید سائنسی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کچھ خاص قسم کے پرندوں کی اڑان ان کے اندر موجود کسی نظام کے تحت ہوتی ہے اور اسی فطری نظام کے تحت پرندے انتہائی لمبے سفر انتہائی کامیابی سے طے کرتے ہیں اور پھر واپس اپنی روانگی کی جگہ پر کامیابی سے پہنچ بھی جاتے ہیں۔ پروفیسر ہمبرگر نے اپنی کتاب 'پاور ایند فریگیلٹی '' میں گوشت والے پرندوں کی مثال دیتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ پرندے بحرالکاہل کے پاس رہتے ہیں اور چوبیس ہزار (٢۴٠٠٠) کلومیٹر سے زیادہ کا سفر اختیار کرتے ہیں اور اڑتے ہوئے یہ '٨' کے ہندسے کی شکل میں اجتماعی سفر کرتے ہیں۔ اور یہ سفر چھ ماہ سے زائد عرصے میں طے کرتے ہیں اور پھر زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ کی تاخیر سے یہ واپس اپنی روانگی کی جگہ پر بھی پہنچ جاتے ہیں۔ اس لمبے سفر کے لئے انتہائی پیچیدہ ہدایات یقیناً پرندے کے اعصابی خلیوں میں موجود ہوتی ہیں۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پرندے کے اندر یہ حساس نظام پیدا کرنے والا کون ہے؟ قرآن فرماتا ہے کہ وہ رب العالمین ہے۔
(قرآن اینڈ ماڈرن سائنس از ڈاکٹر ذاکر نائیک صفحہ ٣۷ تا ٣٨)

  وسطی ایشیا کے ممالک سائبیریا اور روس سے بھی نایاب آبی پرندے ہر سال موسم سرما میں پاکستان کی تحصیل نورپور تھل کی یونین کونسل رنگپور کا رخ کرتے ہیں اور یہاں چشمہ جہلم لنک کینال سے رسنے والے پانی سے بننے والے جوہڑوں میں ڈیرے جما لیتے ہیں۔ ان نایاب پرندوں میں مرغابیاں ، گڈول، میلڈ ، سرخاب، کوک ، بٹیر ، تلور، باز ، باری، چرخ ، چکی ، نیل ، سر، بھٹڑ اور دوسرے ان گنت نایاب پرندے شامل ہیں۔ یہ نایاب پرندے موسم گرما کے شروع ہوتے ہی ماہ اپریل میں واپسی کا سفرشروع کر دیتے ہیں۔ (روزنامہ اردو نیوز جدہ، ۵ اپریل ٢٠٠۵ء)

جنوبی پنجاب میں کی طرف بھی یہ پرندے رُخ کرتے ہیں ۔

پرندے ترکِ وطن کے لئے وقت کا انتخاب کس طرح کرتے ہیں۔
۔"" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" "" ""
یہ موضوع ایک عرصے سے غور و فکر کرنے والوں کے لئے دلچسپی کا باعث بنا ہوا ہے کہ پرندوں نے ترکِ وطن کا آغاز کیسے کیا تھا۔ اور یہ فیصلہ انہوں نے کیوں کر کیا ہو گا۔ کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ایسا موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے ہوا۔ جبکہ دوسروں کے خیال میں یہ تلاش خوراک کی وجہ سے ہوا۔ مگر سب سے زیادہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ پرندے جن کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہوتا۔ ان کے جسموں میں کوئی ٹیکنیکل مشینری فٹ نہیں ہوتی ، وہ خطرات کی زد میں رہتے ہیں۔ مگر صرف جسموں کو لے کر اتنے طویل سفر طے کر لیتے ہیں۔ ترکِ وطن کے لئے کچھ مہارت اور تجربے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً سمت کا تعین کر لیا جائے، خوراک کا ذخیرہ کر لیا جائے اور طویل مدت کے لئے اڑ کر جانے کی صلاحیت ہو۔ جس جانور میں یہ صفات نہ ہوں وہ نقل مکانی نہیں کرے گا۔

اس مسٔلہ پر توجہ دینے کے لئے ایک تجربہ کیا گیا جو یہ تھا :
سبزہ زاروں میں رہنے والی بلبلوں کو تجربے کے لئے ایک ایسی لیبارٹری میں لایا گیا تھا جہاں کا درجہ حرارت اور روشنی مختلف تھی۔ اندر کی فضا کو باہر کی فضا سے مختلف رکھا گیا تھا۔ مثال کے طور پر اگر تجربہ گاہ سے باہر موسم سرما تھا تو اندر بہار کی آب و ہوا پیدا کر لی گئی تھی۔ اور پرندوں نے بھی اپنے جسموں کو اندر کے ماحول کے مطابق ڈھال لیا تھا۔ پرندوں نے چربی کو ذخیرہ کر لیا تھا تا کہ بعد میں خوراک کے طور پر استعمال کی جا سکے۔ جیسا کہ وہ اس وقت کرتے ہیں جب ترک ِوطن کا زمانہ آتا ہے۔ بے شک پرندوں نے مصنوعی آب و ہوا کے مطابق خود کو ڈھال لیا تھا اور تیار تھے کہ جیسے ترکِ وطن کرنے والے ہوں مگر نقل مکانی کا وقت آنے سے پہلے وہ سفر پر روانہ نہ ہوئے تھے۔ انہوں نے باہر کے موسم کا جائزہ لے لیا تھا اور قبل از وقت نقل مکانی نہیں کی تھی۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ پرندے ترکِ وطن کے لئے موسمی حالات پر انحصار نہیں کرتے۔

تو پھر پرندے ترکِ وطن کے لئے وقت کا تعین کیسے کرتے ہیں؟ سائنس دانوں کے پاس ابھی تک اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے۔ ان کے خیال میں جانوروں کے جسموں میں ''جسمانی گھڑیاں'' فٹ ہیں۔ یہ بند ماحول میں وقت جاننے میں ان کی مدد کرتی ہیں۔ ان سے وہ موسمی تبدیلیوں میں بھی فرق محسوس کر لیتے ہیں۔ مگر یہ جواب کہ ان کے جسموں میں گھڑیاں فٹ ہوتی ہیں، جن سے یہ ترکِ وطن کا وقت معلوم کرتے ہیں، بڑا غیر سائنسی جواب ہے۔ یہ کس قسم کی گھڑی ہے اور جسم کے کون سے عضو سے یہ کام کرتی ہے اور یہ وجود میں کیسے آئی؟ اگر یہ گھڑ ی خراب ہو جائے یا ابھی نہ لگی ہو تو کیا ہو گا؟ یہ سوچتے ہوئے کہ ایسا ہی ایک نظام صرف ترکِ وطن کرنے والے ایک پرندے میں نہیں ہوتا بلکہ تمام نقل مکانی کرنے والے جانوروں میں بھی ہوتا ہے۔ زیادہ اہمیت درج بالا سوالوں کو دی جانی چاہیئے۔

جیسا کہ یہ بات مشہور ہے کہ پرندے ایک ہی مقام سے ترک ِوطن نہیں کرتے، اس لئے کہ جب نقل مکانی کا زمانہ آتا ہے تو یہ سب اس وقت ایک ہی مقام پر موجود نہیں ہوتے۔ بہت سی انواع کے یہ پرندے ایک خاص مقام پر پہلے اکٹھے ہوتے ہیں اور پھر وہاں سے مل کر نقل مکانی کرتے ہیں۔ ایسے اوقات کا تعین یہ کیسے کرتے ہیں؟ یہ ''جسمانی گھڑیاں'' جو پرندوں کے جسموں میں بتائی جاتی ہیں ان میں اس قدر ''ہم آہنگی'' اور یکسانیت کیسے پائی جاتی ہے؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ اس قسم کا منظّم اور جامع و بے نقص نظام کبھی خود بخود اچانک وجود میں آ جائے؟

ایک منصوبہ بندی کے تحت عمل میں آنے والا کام بھی اچانک خودبخود وجود میں نہیں آ سکتا۔ مزید یہ کہ ان پرندوں اور جانوروں میں کوئی ایسا انتظام نہیں کہ وہ ان جسمانی گھڑیوں سے وقت کا تعین کر لیں۔ کچھ لوگوں کے خیال میں ان ''گھڑیوں'' سے مراد یہ ہے کہ تمام جانوروں پر اللہ کا کنڑول ہے۔ یہ ترکِ وطن کرنے والے جانور کائنا ت کی ہر شے کی طرح اللہ کے احکامات کی تعمیل کرتے ہیں۔

توانائی کا استعمال :
۔"" "" "" "" "" "" ""
پرندے پرواز کے دوران بڑی توانائی استعمال کرتے ہیں۔ انہیں تمام آبی اور خشکی کے جانوروں سے زیادہ ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً اڑ کر 3000 کلومیٹر کا سفر طے کرنے کے لئے جو ہوائی اور الاسکا کے درمیان ہو گا۔ ایک چھوٹا سا پرندہ شکر خورہ (لمبی چونچ والا پھولوں کا رس چوسنے والا ) جس کا وزن چند گرام ہوتا ہے، اپنے پروں کو 25 لاکھ مرتبہ پھڑ پھڑاتا ہے۔ اس کے باوجود وہ ہوا میں 36 گھنٹوں تک رہ سکتا ہے۔ اس کی اوسط رفتار اس سفر کے دوران تقریباً 80 کلو میٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ اس طرح کے مشکل سفر میں پرندے کے جسم میں موجود تیزاب کی مقدار بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اس سے پرندے کے جسم کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے اس کے بے ہوش ہو جانے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ کچھ پرندے اس خطرے سے بچنے کے لئے زمین پر اتر جاتے ہیں۔ مگر جو پرندے سمندر کے اوپر اڑ رہے ہوں وہ ایسے موقعوں پر کیا کریں گے؟ وہ کیسے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکتے ہیں؟ ماہرینِ طیور نے تحقیق سے یہ بات معلوم کی ہے کہ ایسے حالات میں یہ پرندے اپنے پر اتنے پھیلا لیتے ہیں جتنے وہ پھیلا سکیں اور اس طرح آرام کر لینے کے بعد اپنے جسموں کو ٹھنڈا کر لیتے ہیں۔ ترکِ وطن کرنے والے پرندے کا تحول (Metabolism) اس قدر مضبوط ہوتا ہے کہ وہ ایسا کام کر سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر شکر خورے کے جسم میں جو دنیا کا سب سے چھوٹا پرندہ ہے تحول کی کارکردگی ہاتھی کے تحول سے 20 گنا زیادہ ہوتی ہے۔ اس پرندے کے جسم کا درجہ حرارت 62 سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے۔

پرواز کے طریقے :
۔"" "" "" "" "" ""
اس قسم کی خطرناک اور مشکل پروازوں کو برداشت کرنے کی صلاحیتوں سمیت تخلیق کئے جانے کے علاوہ پرندوں کو ایسی مہارتوں سے بھی نوازا جاتا ہے کہ وہ موافق ہواؤں سے بھی فائدہ اٹھا سکیں۔ مثال کے طور پر سارس یا بگلا 2000 میٹر کی بلندی تک گرم ہوا کی لہروں کے ساتھ اڑتا ہے اور پھر اپنے پر پھڑ پھڑائے بغیر اگلی لہر میں اتر جاتا ہے۔ پرندوں کے غول پرواز کے دوران ایک اور طریقہ استعمال کرتے ہیں جو وی (V) شکل کی پرواز ہوتی ہے۔ اس میں بڑے بڑے مضبوط پرندے مخالف ہوائی لہروں کے مقابلے میں ڈھال بن کر اڑتے ہیں اور یوں کمزور پرندوں کے لئے راستہ بناتے جاتے ہیں۔ ایک ایروناٹیکل انجنئیر Dietrich Hummel نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس طرح کی منظم پرواز کے دوران عموماً غول میں 23% کی بچت ہو جاتی ہے۔

 بلندی پر پرواز :
۔"" "" "" "" "" "
کچھ ترکِ وطن کرنے والے پرندے بہت بلندی پر اڑتے ہیں۔ مثال کے طور پر مرغابیاں 8000 میٹر کی بلندی پر اڑ سکتی ہیں۔ یہ بلندی ناقابل یقین نظر آتی ہے کیونکہ 5000 میٹر کی بلندی پر سطح سمندر کی نسبت کرہ ہوا 63 فی صد کم کثیف ہوتا ہے۔ ایک ایسی بلندی پر اڑنا جہاں کرۂ ہوا اس قدر لطیف ہو پرندے کو اپنے پر زیادہ تیز مارنے پڑتے ہیں اور یوں اسے زیادہ آکسیجن درکار ہوتی ہے۔ تا ہم ان جانوروں کے پھیپھڑے اس طرح تخلیق کئے جاتے ہیں کہ ایسی بلندیوں پر موجود آکسیجن سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ان کے پھیپھڑے جو دوسرے دودھیلے جانوروں سے مختلف ہوتے ہیں ان کو ہوا کی کمی میں بھی توانائی کی بلند سطح برقرار رکھنے میں مدد دیتے ہیں۔

ایک عمدہ حسِ سماعت :
۔"" "" "" "" "" "" "" "" ""
ترکِ وطن کے دوران پرندے فضائی مظاہر قدرت کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر طوفا ن سے بچنے کے لئے وہ اپنی سمت بدل لیتے ہیں۔ ایک ماہر طیور Melvin L.Kreithen جس نے پرندوں کی حسِ سماعت پر تحقیق کی، اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ کچھ پرندے بہت کم سطح کی وقوع پذیر ہونے والی آوازیں سن لیتے ہیں، جو کرۂ ہوائی میں طویل فاصلوں تک منتشر ہو جاتی ہیں۔ ایک نقل مکانی کرنے والا پرندہ دور کسی پہاڑ پر برپا ہونے والے طوفان اور بہت آگے سیکڑوں کلومیٹر کے فاصلے پر سمندر میں پیدا ہونے والی گرج سن لیتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان علاقوں میں جہاں ہوائی حالات خطرناک ہوں پرندے بڑی احتیاط سے نقل مکانی کے راستوں کا تعین کر لیتے ہیں۔

سمت کا ادراک :
۔"" "" "" "" "" "
پرندے ہزاروں کلومیٹر کی طویل پروازوں کے دوران ایک نقشے، قطب نما یا ایسے ہی کسی دوسرے آلے کے بغیر اپنی سمت کیسے تلاش کر لیتے ہیں؟
پہلا نظریہ جو اس بارے میں پیش کیا گیا یہ تھا کہ پرندے اپنی نیچے کی زمین کی خصوصیات یاد کر لیتے ہیں۔ اور یوں بغیر کسی پریشانی کے اپنی منزل تک پہنچ جاتے ہیں۔ مگر تجربات سے ثابت ہوا کہ یہ نظریہ غلط ہے۔ ایک ایسے تجربے میں جہاں کبوتروں کو شامل تجربہ کیا گیا تھا۔ کبوتروں کی نظروں میں دھندلاہٹ پیدا کرنے کے لئے غیر شفاف عدسے استعمال کئے گئے تھے۔ یوں ان کو زمینی نشانات سے شناسا ہوئے بغیر اڑنے کا موقع فراہم کیا گیا تھا۔ مگر یہ کبوتر اس صورت حال میں بھی اپنے غولوں سے کچھ کلو میٹر پیچھے رہ جانے کے باوجود اپنی سمت تلاش کر لیتے تھے۔

حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق نے یہ ثابت کیا ہے کہ کرۂ ارضی کا مقناطیسی میدان پرندوں کی انواع (Species) پر اثر کرتا ہے۔ کئی ایک تحقیقی مطالعات سے پتہ چلا ہے کہ پرندوں نے بڑی ترقی کر لی ہے۔ مقناطیسی برقی آنکھیں زمین کے مقناطیسی میدان سے فائدہ اٹھا کر اپنا راستہ تلاش کرنے میں ان کی مدد کرتی ہیں۔ نقل مکانی کے دوران یہ نظام پرندوں کی مدد کرتا ہے کہ وہ زمین کے مقناطیسی میدان میں تبدیلی کو محسوس کر کے اپنی سمت کا تعین کر لیں۔ تجربات سے پتہ چلا ہے کہ اگر زمین کے مقناطیسی میدان میں فی صد فرق بھی ہو تو نقل مکانی کرنے والے پرندے اس کا بھی ادراک کر لیتے ہیں۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان پرندوں کے جسموں میں قطب نما لگا ہوتا ہے۔ مگر اصل سوال پھر بھی یہی سامنے آتا ہے کہ پرندوں میں اس قسم کا ''قدرتی قطب نما'' کیسے فٹ ہو گیا۔ ہم جانتے ہیں کہ قطب نما ایک ایجاد ہے جو انسانی عقل و شعور کا کارنامہ ہے۔ تو پھر ایک انسانی ایجاد جو اس نے اپنے مجموعی علم سے بنائی پرندوں کے جسم میں کیسے پہنچ گئی؟ کیا یہ ممکن ہے کہ کچھ برس پہلے پرندوں کی ایک نوع نے سمت کی تلاش کے دوران زمین کے مقناطیسی میدان کو استعمال کرنے کے بارے میں سوچا ہو گا۔ اور اپنے جسم کے لئے اس نے ایک مقناطیسی آنکھ ایجاد کر لی ہو گی۔ یا پھر کیا اس کے برعکس ایسا ہوا ہو گا کہ پرندوں کی ایک نوع ، برسوں پہلے ''انطباق'' (یعنی اتفاق) سے اس قسم کے میکانی عمل سے لیس ہو گی ؟
قینا نہیں ... نہ تو پرندہ نہ ہی انطباق (Coincidence) جسم میں نہایت جدید قطب نما لگا سکتا تھا۔ پرندے کے جسم کی ساخت، پھیپھڑے، پنکھ، نظام ہضم اور سمت تلاش کرنے کی اس کی صلاحیت، سبھی اللہ کی جامع و بے نقص تخلیق کی مثالیں ہیں:
اَلَمْ تَرَاَنَّ اللّٰہ یُسَبِّحُ لَہ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وِالطَّیْرُ صٰفّٰتٍ ط کُلّ قَدْ عَلِمَ صَلَا تَہ وَتَسْبِیْحَہ ط وَاللّٰہُ عَلِیْم بِمَا یَفْعَلُوْنَ°
ترجمہ : ''کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں وہ سب جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور وہ پرندے جو پر پھیلائے اڑ رہے ہیں؟ ہر ایک اپنی نماز اور تسبیح کا طریقہ جانتا ہے اور یہ سب جو کچھ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر رہتا ہے''۔
(سورة النور : ۴١)

چنانچہ ماہرین طیور کی تحقیق نے اللہ تعالیٰ ٰکے اس فرمان کو برحق ثابت کر دیا ہے کہ پرندوں کے اندر عقل مند لوگوں کے غور و فکر کے لئے بڑی نشانیاں ہیں کہ جو ان کو کائنات کے خالق کی طرف جانے والے راستے کی طرف گامزن کر سکتی ہیں۔ (اللہ کی نشانیاں ، عقل والوں کے لئے، صفحہ ١٩٩ تا ٢٠۷)
https://www.facebook.com/مجھے-ہے-حکمِ-اذاں-106052177954257/
🔰WJS🔰