Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

رب کی پکار

رب کی پکار ام محمد سلمان -------------- آج تو ٹھنڈ کچھ زیادہ ہی ہو رہی ہے۔ لگتا ہے کہیں قریب ہی بارش ہوئی ہے تب ہی ہوا میں اتنی خنکی ہے۔ ناع...



رب کی پکار

ام محمد سلمان
--------------
آج تو ٹھنڈ کچھ زیادہ ہی ہو رہی ہے۔ لگتا ہے کہیں قریب ہی بارش ہوئی ہے تب ہی ہوا میں اتنی خنکی ہے۔ ناعمہ نے کمبل اپنے اردگرد اچھی طرح لپیٹتے ہوئے کہا ۔ 

"ہممم... ٹھیک کہہ رہی ہیں آپی! آج واقعی سردی بہت ہے۔ رات کے گیارہ بج رہے ہیں اور اتنی لمبی رات ہم نے ایسے ہی ضائع کر دی۔ سات بجے کھانے سے فارغ ہو گئے تھے، آٹھ بجے تک عشاء بھی پڑھ لی اور جب سے ہی بستر میں لیٹے ہم دونوں موبائل میں لگے ہیں فیس بک پہ کہانیاں پڑھتے، لوگوں کی پوسٹوں پہ کمنٹ کرتے... ادھر ادھر جھانکتے کتنا وقت گنوا دیا۔ فائزہ نے موبائل بند کر کے سائیڈ ٹیبل پہ رکھتے ہوئے کہا اور ایک گہری سانس بھر کے لیٹ گئی۔ اب میں بھی تہجد پڑھا کروں گی آپی! ابھی ایک بہت خوب صورت تحریر پڑھی نماز تہجد کی فضیلت کے بارے میں ۔"
  
"ہاں ہاں ضرور پڑھیں گے ان شاء اللہ..." ناعمہ آپی نے موبائل میں مگن رہتے ہوئے جواب دیا ۔ 

"آپی! آپ کو یاد ہے اماں کیا کہا کرتی تھیں...؟ کہتی تھیں سردیوں کی لمبی لمبی راتیں تو رب کا فیضان ہیں۔ بندہ خوب جی بھر کے سوئے بھی اور تہجد کے لیے بھی آرام سے اٹھ جائے۔"

ٹھیک کہتی ہو فائزہ.. اماں تھیں بھی تو کتنی سیدھی سادی۔ عشاء پڑھتے ہی سو جاتیں اور صبح تین چار بجے سے اٹھی بیٹھی ہوتیں مصلے پہ۔ پتا نہیں کون سے راز و نیاز کرتی تھیں رب سے! 
 کہا کرتی تھیں رات کے آخری پہر بے چینی سی لگ جاتی ہے۔ پھر بستر پہ قرار نہیں آتا، سکون نہیں ملتا۔ آنکھ کھلتی ہے تو یوں لگتا ہے وہ سامنے میرا رب مجھے پکار رہا ہے مجھے بلا رہا ہے کہہ رہا ہے... 
"زینب بی بی!! تم نے اپنے رب سے نہیں ملنا؟ کچھ کہنا بھی نہیں؟ کچھ مانگنا بھی نہیں؟؟؟ 
دیکھو میں بخشش و رحمت کے پروانے لیے انتظار میں ہوں کہ تم آؤ اور اپنی دنیا و آخرت دونوں کے بارے میں مجھ سے سوال کرو مجھ سے مانگو اور میں تمہیں عطا کروں ۔ 
بس پھر مجھ سے لیٹا ہی نہیں جاتا۔ میں اللہ کی پاکی بیان کرتے ہوئے اٹھ جاتی ہوں اور وضو کر کے اس کے دربار میں حاضر ہو جاتی ہوں۔ 
تم کیا جانو مجھے کیسا سکون ملتا ہے۔ میں اس سے ایسے باتیں کرتی ہوں جیسے مدتوں سے پردیس میں بیاہی بچھڑی بیٹی اپنی ماں کے گلے لگ کے اسے ساری روئداد سناتی ہے۔ 
میں دن بھر کے سارے دکھ تکلیفیں پریشانیاں اس کے سامنے رکھ دیتی ہوں۔ اس سے مدد مانگتی ہوں، اس کی نعمتوں کا اعتراف کرتی ہوں۔ پیارے اللہ نے سب کچھ دیا کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی ۔" 

وہ زینب بی بی جس نے ساری زندگی روکھی سوکھی کھائی، زندگی کی مشقتیں جھیلیں... رات کو رب کے سامنے شکر سے معمور دل لیے اس کی نعمتوں کا کتنی محبت سے اعتراف کرتی تھیں۔ 

ایک دن میری آنکھ کھلی.. میں نے دیکھا اماں دونوں ہاتھ پھیلائے آسمان کی طرف نگاہ اٹھائے کہہ رہی تھیں... 
"پیارے اللہ!! میں تجھ سے تجھی کو مانگتی ہوں. جسے تو مل جائے، سب کچھ اس کا ہے! پھر بڑے جذب سے یہ دعا مانگنے لگیں: 
  "اللَّهمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ حُبَّكَ، وَحُبَّ مَنْ يُحِبُّكَ، وَالعمَل الَّذِي يُبَلِّغُني حُبَّكَ، اللَّهُمَّ اجْعل حُبَّكَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِن نَفسي، وأَهْلي، ومِن الماءِ البارِدِ۔ (روَاهُ الترمذيُّ)
اے اللہ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتی ہوں اور اس کی محبت جو تجھ سے محبت کرے، اور اس عمل کی محبت جو مجھے تیری محبت کا حق دار بنا دے. اے اللہ! اپنی محبت کو میرے لیے ایسا محبوب بنا دے جو مجھے میری جان میرے اہل و عیال اور سخت گرمی میں ٹھنڈے پانی سے زیادہ محبوب ہو۔ "
اللہ!! تو نے مجھے بہت نوازا... تیرا کیسے شکر ادا کروں میرے مولیٰ! بس اب تو یہی چاہت ہے تجھ سے آن ملوں۔" 

میں نے بھی اماں کو ایک رات اسی طرح باتیں کرتے دیکھا تو پوچھا.. اماں کون سی نعمتیں ہیں تجھ پر؟ ساری زندگی تو نے غربت اور بیماری کا دکھ جھیلا اور تو شکر ایسے کرتی ہے جیسے کسی محل کی رانی ہو! 
تو پتا ہے اماں کیا کہنے لگیں..؟ کہنے لگیں : میری بچی! مجھ پہ تو اللہ کا بڑا احسان ہے کون سی نعمت ہے جو اس نے مجھے نہیں دی؟ ہاتھ پیر سلامت، عقل اور دین سلامت! کھاتی ہوں، پیتی ہوں، چلتی پھرتی ہوں مجھے اور کیا چاہیے؟ 
 اور بھلا تو کیا جانے رب کی محبت اس کا قرب کیا چیز ہے!! کتنی بڑی نعمت ہے کہ جب وہ مل جائے بندے کو تو پھر کسی چیز کی طلب ہی نہیں رہتی۔ بس بندہ دنیا میں مسافر کی طرح ہو جاتا ہے۔ ضرورتیں پوری کرتا ہے اور بس اپنے رب سے لو لگائے اس کے راستے پہ چلتا رہتا ہے.. منزل بہ منزل اس سے قریب ہوتا رہتا ہے اور پھر آخر کار ایک دن اس سے جا ملتا ہے۔" 

اور پھر یوں ہوا کہ ایک دن اماں جا ہی ملیں اپنے رب سے. 
بھائی کی اچھی نوکری لگی تو ہم نے سکھ کے دن دیکھے، اچھا کھانا پینا نصیب ہوا اور زندگی کی کچھ سہولیات ہمیں بھی ملنے لگیں۔ مگر اماں بہت جلد اس دنیا سے چلی گئیں۔ فائزہ کا لہجہ بھیگ گیا ماں کی شبیہ آنکھوں میں گھوم گئی ۔  

"فائزہ تمہیں یاد ہے اماں کیسے تذکرہ کیا کرتی تھیں جنت کے بالا خانوں کا، ان شیشے کے محلات کا، جو راتوں کو جاگ کر اللہ کی عبادت کرنے والوں کو ملتے ہیں جو اللہ کے لیے لوگوں سے خوش اخلاقی برتتے ہیں اور (حاجت مندوں کو) کھانا کھلاتے ہیں۔
پیارے اللہ! میری اماں کو جنت کے ان بالا خانوں میں ضرور پہنچا دینا، اپنا قرب عطا کرنا، اپنے محبوب بندوں میں انھیں ہمیشہ شامل رکھنا، ان پر ہمیشہ اپنی رحمت و مغفرت کی پھوار برسائے رکھنا ۔ آمین!!" دونوں بہنوں نے خلوص دل سے کہا. 

"ساڑھے بارہ بج گئے آپی! چلیں ہم بھی سو جاتے ہیں ۔" 

"ہاں لیکن سونے سے پہلے تہجد کا الارم ضرور لگا لینا فائزہ... فجر کا وقت تو ساڑھے پانچ بجے کے ہی بعد شروع ہو رہا ہے، تم سوا چار سے ساڑھے چار تک دو تین الارم لگا لو۔ فجر سے ایک گھنٹا پہلے اٹھیں گے۔ اب سے ہم بھی تہجد پڑھا کریں گے ان شاء اللہ۔ ناعمہ نے کروٹ لیتے ہوئے کہا اور سورہ ملک تلاوت کرتے ہوئے سو گئی۔ 

**** 

سوا چار بجے تو الارم بجنے لگا... ایک عربی نشید تھی جس میں اللہ کی محبت اور جنت کی شوق و طلب کے اشعار تھے۔  
فائزہ گہری نیند سے اٹھی اور نیند میں ہی الارم بند کر کے سو گئی۔ پانچ منٹ بعد الارم پھر بجنے لگا.. فائزہ نے پھر بند کیا اور سو گئی... پانچ منٹ بعد الارم پھر بجنے لگا اور وہ خوب صورت نشید کانوں میں گونجنے لگی... 
"کہاں ہیں جنت کے چاہنے والے کہاں ہیں رب سے ملنے کا شوق رکھنے والے.. 
اٹھو کہ تمہارا رب تمہیں بلا رہا ہے...
وہ اپنے لاڈلے بندوں کو پکار رہا ہے... 
کون ہے جو اس کی پکار پہ لبیک کہے!!  
اب کی بار فائزہ کی آنکھیں پوری طرح کھل چکی تھیں۔ وہ اس خوب صورت نشید میں کھو گئی. ایسا لگا... رب کہہ رہا ہے.. 
"اٹھو نا فائزہ بی بی!! میں کب سے پکار رہا ہوں!! کیا تمہیں اپنے رب کی چاہ نہیں؟ تمہیں مجھ سے کچھ نہیں کہنا؟ 
کچھ نہیں مانگنا؟ تمہاری ساری ضرورتیں پوری ہو گئیں کیا؟ 
کیا تم مجھ سے بے نیاز ہو گئی ہو؟ 
کیا تمہیں میرا قرب نہیں چاہیے؟ کیا تم مقربین کی صف میں نہیں آنا چاہتیں...؟ 
جنت کو نہیں پانا چاہتیں، جہنم کے عذاب سے پناہ نہیں چاہتیں؟ 
کس چیز نے تمہیں رب سے غافل کر دیا!! 
اٹھو فائزہ.. اٹھو تمہارا رب تمہیں بلا رہا ہے!"

اور فائزہ ایک دم بستر پہ اٹھ کر بیٹھ گئی.. دھیرے سے بڑی بہن ناعمہ کو جگایا... آپی اٹھ جائیں! ہمارا رب ہمیں پکار رہا ہے۔ 
ناعمہ بھی اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اتنے میں فائزہ وضو کر کے آ چکی تھی۔ مصلیٰ بچھایا اور نیت باندھ لی۔ 
اللہ اکبر کہنے کی دیر تھی! دل پر رقت سی طاری ہو گئی۔ فاتحہ کے بعد سورۃ الذاريات کی تلاوت شروع کر دی اور جب ان آیات پر پہنچی تو آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے...
”إِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّعُیُوْنٍ، اٰخِذِیْنَ مَآاٰتٰہُمْ رَبُّہُمْ إِنَّہُمْ کَانُوْا قَبْلَ ذٰلِکَ مُحْسِنِیْنَ، کَانُوْا قَلِیْلاً مِّنَ اللَّیْلِ مَا یَھْجَعُوْنَ، وَبِالأَسْحَارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ“۔ 
”بے شک پرہیزگار بہشتوں اور چشموں میں ہوں گے اور اپنے رب کی عطا کردہ نعمتیں لے رہے ہوں گے (اس بات پر کہ) بے شک یہ لوگ اس سے پہلے (دنیا میں) نیکو کار تھے، رات کو (تہجد پڑھنے کی وجہ سے) بہت کم سوتے تھے اور اخیر شب میں استغفار کیا کرتے تھے۔"
 
دو دو کر کے چار رکعتیں پڑھ کے وہ بھی رب کے سامنے ہاتھ پھیلا کر بیٹھ گئی۔ تادیر اپنے گناہوں کی معافی مانگتی رہی.. اسے یوں لگا رب العالمین اسے بڑی محبت سے مسکرا کر دیکھ رہا ہو... اور کہہ رہا ہو
مانگو فائزہ بی بی!! مانگو.. !!
جو کچھ بھی تمہیں چاہیے۔
اپنی دنیا و آخرت کی ہر ضرورت اور خواہش کے لیے مجھ سے سوال کرو ۔ میں وہ رب ہوں جس کے خزانے بے شمار ہیں جو اپنے بندوں کو دے کر خوش ہوتا ہے جسے اپنے خزانوں میں کمی کا کوئی ڈر نہیں. وہ رب جو ساری دنیا کے تمام جن و انس چرند پرند اور درندے... یہاں تک کہ ساری مخلوقات کو ایک ساتھ بے شمار نوازے، سب کی تمام حاجات و خواہشات کو پورا کر دے تو بھی اس کے خزانوں میں رتی برابر کمی نہیں آتی!
اے میرے بندو!! اور کہاں پاؤ گے ایسا عظیم الشان رب!!
کہاں بھاگے چلے جاتے ہو
لوٹ آؤ اپنے رب کی طرف!!
لوٹ آؤ
لوٹ آؤ......!!!

================