Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

ڈرو اس دن سے

قسط نمبر : ⫷ ١١ ⫸ ( سُوۡرَۃٌ لُقْمٰن : ٣٣ )   📖 ارشاد باری تعالیٰ ﷻ : یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمۡ  وَ اخۡشَوۡا ...




قسط نمبر : ١١

( سُوۡرَۃٌ لُقْمٰن : ٣٣ )

 

📖 ارشاد باری تعالیٰ ﷻ :

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمۡ  وَ اخۡشَوۡا یَوۡمًا  لَّا یَجۡزِیۡ وَالِدٌ عَنۡ وَّلَدِہٖ ۫ وَ لَا مَوۡلُوۡدٌ  ہُوَ  جَازٍ عَنۡ وَّالِدِہٖ شَیۡئًا ؕ اِنَّ وَعۡدَ اللّٰہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا ٝ وَ لَا یَغُرَّنَّکُمۡ  بِاللّٰہِ الۡغَرُوۡرُ ﴿۳۳

 

📚 ترجمہ :

اے لوگو ! اپنے پروردگار (کی ناراضی) سے بچو ، اور ڈرو اس دن سے جب کوئی باپ اپنے بیٹے کے کام نہیں آئے گا ، اور نہ کسی بیٹے کی یہ مجال ہو گی کہ وہ اپنے باپ کے ذرا بھی کام آ جائے ۔ یقین جانو کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے ، اس لئے ایسا ہرگز نہ ہونے پائے کہ یہ دنیوی زندگی تمہیں دھوکے میں ڈال دے ، اور ایسا ہرگز نہ ہونے پائے کہ وہ ( شیطان ) تمہیں اللہ کے معاملے میں دھوکے میں ڈال دے جو سب سے بڑا دھوکا باز ہے ۔

 

تفسیر :

اللہ تعالیٰ لوگوں کو قیامت کے دن سے ڈرا رہا ہے اور اپنے تقوے کا حکم فرما رہا ہے۔ ارشاد ہے اس دن باپ اپنے بچے کو یا بچہ اپنے باپ کو کچھ کام نہ آئے گا ایک دوسرے کا فدیہ نہ ہو سکے گا۔

 دوست، لیڈر، پیر اور اسی طرح کے دوسرے لوگ تو پھر بھی دور کا تعلق رکھنے والے ہیں، دنیا میں قریب ترین تعلق اگر کوئی ہے تو وہ اولاد اور والدین کا ہے۔

طوفان کے وقت جہاز کے مسافروں میں سخت افراتفری ہوتی ہے۔ ہر ایک اپنی جان بچانے کی فکر میں رہتا ہے۔ تاہم ماں باپ اولاد سے اور اولاد ماں باپ سے بالکل غافل نہیں ہو جاتی۔ ایک دوسرے کے بچانے کی تدبیر کرتا ہے۔ بلکہ بسا اوقات والدین کی شفقت چاہتی ہے کہ ہو سکے تو بچہ کی مصیبت اپنے سر لے کر اس کو بچا لیں لیکن ایک ہولناک اور ہوش ربا دن آنے والا ہے جب ہر طرف نفسی نفسی ہو گی۔ اولاد اور والدین میں سے کوئی ایثار کر کے دوسرے کی مصیبت اپنے سر لینے کو تیار نہ ہو گا۔ اور تیار بھی ہو تو یہ تجویز چل نہ سکے گی۔ 

 حالت یہ ہو گی کہ بیٹا پکڑا گیا ہو تو باپ آگے بڑھ کر یہ نہیں کہے گا کہ اسکے گناہ میں مجھے پکڑ لیا جائے، اور باپ کی شامت آ رہی ہو تو بیٹے میں یہ کہنے کی ہمت نہیں ہو گی کہ اس کے بدلے مجھے جہنم میں بھیج دیا جائے۔ اس حالت میں یہ توقع کرنے کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ کوئی دوسرا شخص وہاں کسی کے کچھ کام آئے گا۔ لہٰذا نادان ہے وہ شخص جو دنیا میں دوسروں کی خاطر اپنی عاقبت خراب کرتا ہے، یا کسی کے بھروسے پر گمراہی اور گناہ کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ اس مقام پر سورہ لقمان آیت نمبر ۱۵ کا مضمون بھی نگاہ میں رہنا چاہیئے جس میں اولاد کو تلقین کی گئی تھی کہ دنیوی زندگی کے معاملات میں والدین کی خدمت کرنا تو بے شک ہے مگر دین و اعتقاد کے معاملے میں والدین کے کہنے پر گمراہی قبول کر لینا ہرگز صحیح نہیں ہے ۔ چاہیئے کہ آدمی اس دن سے ڈر کر غضب الہٰی سے بچنے کا سامان کرے۔ آج اگر سمندر کے طوفان سے بچ گئے تو کل اس سے کیونکر بچو گے۔ 

 

 اللہ کے وعدے سے مراد یہ وعدہ ہے کہ قیامت آنے والی ہے اور ایک روز اللہ کی عدالت قائم ہو کر رہے گی جس میں ہر ایک کو اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہو گی ۔  

 دنیا کی زندگی سطح بیں انسانوں کو مختلف قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلا کرتی ہے۔ کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جینا اور مرنا جو کچھ ہے بس اسی دنیا میں ہے، اس کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے، لہٰذا جتنا کچھ بھی تمہیں کرنا ہے بس یہیں کر لو، کوئی اپنی دولت اور طاقت اور خوشحالی کے نشے میں بدمست ہو کر اپنی موت کو بھول جاتا ہے اور اس خیال خام میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اس کا عیش اور اس کا اقتدار لازوال ہے۔ کوئی اخلاقی و روحانی مقاصد کو فراموش کر کے صرف مادی فوائد اور لذتوں کو مقصود بالذات سمجھ لیتا ہے اور معیارِ زندگی    کی بلندی کے سوا کسی دوسرے مقصد کو کوئی اہمیت نہیں دیتا، خواہ نتیجے میں اس کا معیار آدمیت کتنا ہی پست ہوتا چلا جائے۔ کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ دنیوی خوشحالی ہی حق و باطل کا اصل معیار ہے، ہر وہ طریقہ حق ہے جس پر چل کر یہ نتیجہ حاصل ہو اور اس کے برعکس جو کچھ بھی ہے باطل ہے۔ کوئی اسی خوشحالی کو مقبول بارگاہ الٰہی ہونے کی علامت سمجھتا ہے اور یہ قاعدہ کلیہ بنا کر بیٹھ جاتا ہے کہ جس کی دنیا خوب بن رہی ہے، خواہ کیسے ہی طریقوں سے بنے، وہ خدا کا محبوب ہے، اور جس کی دنیا خراب ہے، چاہے وہ حق پسندی و راست بازی ہی کی بدولت خراب ہو ، اس کی عاقبت بھی خراب ہے۔ یہ اور ایسی ہی جتنی غلط فہمیاں بھی ہیں ، ان سب کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دنیوی زندگی کے دھوکے سے تعبیر فرمایا ہے۔ لہٰذا دنیا کی چند روزہ بہار اور چہل پہل سے دھوکا نہ کھاؤ کہ ہمیشہ اسی طرح رہے گی۔ اور یہاں آرام سے ہو تو وہاں بھی آرام کرو گے؟

نیز فرمایا کہ اس دغا باز شیطان کے اغواء سے ہوشیار رہو جو اللہ کا نام لے کر دھوکا دیتا ہے۔ کہتا ہے میاں اللہ غفور الرحیم ہے خوب گناہ سمیٹو، مزے اڑاؤ، بوڑھے ہو کر اکٹھی توبہ کر لینا۔ اللہ سب بخش دے گا۔ تقدیر میں اگر اس نے جنت لکھ دی ہے تو گناہ کتنے ہی ہوں ضرور پہنچ کر رہو گے اور دوزخ لکھی ہے تو کسی طرح بچ نہیں سکتے پھر کاہے کے لئے دنیا کا مزہ چھوڑیں ۔

 

اصل میں لفظ الغرور استعمال ہوا ہے۔ الغرور ( دھوکے باز  ) سے مراد شیطان بھی ہو سکتا ہے، کوئی انسان یا انسانوں کا کوئی گروہ بھی ہو سکتا ہے۔ انسان کا اپنا نفس بھی ہو سکتا ہے۔ اور کوئی دوسری چیز بھی ہو سکتی ہے۔ کسی شخص خاص یا شئے خاص کا تعین کئے بغیر اس وسیع المعنی لفظ کو اس کی مطلق صورت میں رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ مختلف لوگوں کے لئے فریب خوردگی کے بنیادی اسباب مختلف ہوتے ہیں۔ جس شخص نے خاص طور پر جس ذریعہ سے بھی وہ اصل فریب کھایا ہو جس کے اثر سے اس کی زندگی کا رخ صحیح سمت سے غلط سمت میں مڑ گیا وہی اس کے لئے الغرور ہے۔

اللہ کے معاملے میں دھوکا دینے کے الفاظ بھی بہت وسیع ہیں جن میں بے شمار مختلف قسم کے دھوکے آ جاتے ہیں۔ کسی کو اس کا    دھوکے باز یہ یقین دلاتا ہے کہ خدا سرے سے ہے ہی نہیں۔ کسی کو یہ سمجھاتا ہے کہ خدا اس دنیا کو بنا کر الگ جا بیٹھا ہے اور اب یہ دنیا بندوں کے حوالے ہے۔ کسی کو اس غلط فہمی میں ڈالتا ہے کہ خدا کے کچھ پیارے ایسے ہیں جن کا تقرب حاصل کر لو تو جو کچھ بھی تم چاہو کرتے رہو ، بخشش تمہاری یقینی ہے۔ کسی کو اس دھوکے میں مبتلا کرتا ہے کہ خدا تو غفور الرحیم ہے، تم گناہ کرتے چلے جاؤ ، وہ بخشتا چلا جائے گا۔ کسی کو جبر کا عقیدہ سمجھاتا ہے اور اس غلط فہمی میں ڈال دیتا ہے تم تو مجبور ہو ، بدی کرتے ہو تو خدا تم سے کراتا ہے اور نیکی سے دور بھاگتے ہو تو خدا ہی تمہیں اس کی توفیق نہیں دیتا۔ اس طرح کے نہ معلوم کتنے دھوکے ہیں جو انسان خدا کے بارے میں کھا رہا ہے۔ اور اگر تجزیہ کر کے دیکھا جائے تو آخر کار تمام گمراہیوں اور گناہوں اور جرائم کا بنیادی سبب یہی نکلتا ہے کہ انسان نے خدا کے بارے میں کوئی نہ کوئی دھوکا کھایا ہے تب ہی اس سے کسی اعتقادی ضلالت یا اخلاقی بے راہ روی کا صدور ہوا ہے۔

 

ﷲ رب العزت ہمیں قرآنِ پاک پڑھنے، سمجھنے آور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ۔

🔰WJS🔰