Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

گمراہوں کا مغالطہ

میری کلاس میں کئی مزاج کے طلباء پڑھتے ہیں۔ مثلاً کچھ ایسے ہیں جنہیں میں جتنا بھی سبق دے دوں، وہ تیار کرکے آتے ہیں۔ تقریباً ہر ٹیسٹ میں اچھے ...





میری کلاس میں کئی مزاج کے طلباء پڑھتے ہیں۔ مثلاً کچھ ایسے ہیں جنہیں میں جتنا بھی سبق دے دوں، وہ تیار کرکے آتے ہیں۔ تقریباً ہر ٹیسٹ میں اچھے نمبر لیتے ہیں۔ اُن سے میں نے پوچھا کہ کیوں جی، آپ لوگ صرف پڑھائی ہی کرتے رہتے ہیں یا کچھ دوسری Activities کو بھی ٹائم دیتے ہیں؟ ان کا جواب تھا؛ ”سر ہم کھیلتے ہیں، شادیاں اٹینڈ کرتے ہیں، دوستوں کے ساتھ گھومنے جاتے ہیں اور پڑھائی بھی کرتے ہیں۔۔ ہماری کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ ساری مصروفیات کے باوجود ہمارا دھیان کتابوں میں اٹکا رہتا ہے اور ہم آج کا کام آج ہی مکمل کر لیتے ہیں، چاہے ہمیں رات کو جاگنا پڑ جائے”۔۔!

دوسری ٹائپ کے سٹوڈنٹس وہ ہیں جنہیں کئی بار جھڑکنا پڑتا ہے، تنبیہ کرنی پڑتی ہے" تب جا کر وہ پڑھائی میں سیرئس ہوتے ہیں۔ آپ میرا یقین کریں کہ اس ذرا سی سرزنش سے میرا کوئی بھی ذاتی فائدہ وابستہ نہیں ہے" بلکہ میں انہی کی بہتری کیلئے اپنا لہجہ سخت کرتا ہوں۔۔! طلباء کی تیسری قسم ایسی ہے کہ خدا کی پناہ۔۔ جب تک ڈنڈے پیر کی سلامی قبول نہ کر لیں، مجال ہے کہ پڑھنے پر آمادہ ہوں۔ ایسے نابغوں پر ”پیار نہیں،، مار” کا فارمولہ کارگر ہے۔۔ میرا ایک اسٹوڈنٹ اس وقت ڈاکٹر ہے" حالانکہ میری کلاس میں وہ تیسری ٹائپ کے طلباء میں تھا۔۔ پچھلے دنوں مجھے ملا تو کہنے لگا، "استاد جی، ہم سب بھگوڑے تب تو آپکو دل میں بہت بُرا کہتے تھے، مگر آج آپکے وہ ہاتھ چومنے کا من کرتا ہے جس سے آپ ہم پر ڈنڈے برسایا کرتے تھے۔ یقیناً اسی میں ہی ہماری بھلائی تھی۔ مگر تب یہ بات سمجھ نہیں آتی تھی اور ہماری نظروں میں آپ ظالم تھے”۔!

میرے شاگردوں کی ایک کیٹگری وہ بھی ہے جنہوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ چاہے میں انہیں ڈراؤں، دھمکاؤں یا بالآخر مارنے پر مجبور ہو جاؤں، ایسے ڈنگروں کی خصلت میں سدھرنا لکھا ہی نہیں ہے۔ ڈھیٹ مزاج ہیں اور کلاس میں خود کو قیدی تصور کرتے ہیں۔ جاوید نام کا ایک لڑکا تھا۔ چند ماہ پیشتر میرا سبزی منڈی جانا ہوا تو وہ وہاں آوازیں لگا رہا تھا، ”بینگن سَٹھ، تے آلو ستر روپے دَھڑی”۔ بڑے ادب سے ملا اور کہنے لگا، "استاد جی، کاش مجھ پر بھی آپکی مار کٹائی کا اثر ہو جاتا”۔۔!

اس ساری تمہید کا مقصد آپ دوستوں کو یہ بتانا ہے کہ قرآن مجید میں بھی انسانوں کے مختلف مزاجوں کی بنا پر اللہ کریم کی طرف سے مختلف لہجوں کا استعمال ہوا ہے۔ نکٹھو اور کام چور لوگوں کیلئے دوزخ کا ڈراوا ہےکہ کسی طرح یہ میرے عذاب سے ڈر کر میری اطاعت کرنے لگ جائیں۔ جب اطاعت شروع کریں گے تو خود ہی سمجھ آ جائیگی کہ اسمیں انکا کیا فائدہ ہے۔ یہ رحمت کا اور اپنی طرف پکارنے ایک انداز ہے۔۔!

کچھ ایسے ہیں جنہیں انعام کا بہلاوا دے کر اپنی ذات کی طرف بلانا مقصود ہے کہ جب اس طمعِ جنت میں میری طرف آئیں گے تو میں انکو اپنی محبت و عبادت کا مزہ بھی چکھا دوں گا، مگر کسی طرح آئیں تو سہی۔ فائدہ انہی کا ہو گا، مگر سمجھنے پر تیار ہی نہیں ہیں۔ یہ بھی تو رحمت کا ہی ایک طرز ہے۔ ایک انداز وہ ہے کہ جس میں محبت جھلکتی ہے۔ اپنے ہونہار بندوں کو تکالیف پر صبر کی تلقین کی جاتی ہے۔ ایک اور طرز ہے جس میں بھٹکے ہوؤں کو تسلی دی جاتی ہے کہ صراطِ مستقیم پہ آ جاؤ, گھبراؤ نہیں, مجھے پتہ ہے تم اپنے گناہوں پر شرمندہ ہو اور ڈرتے ہو کہ کہیں سزا نہ دے دوں, فکر نہ کرو, میں تمہاری کوتاہیوں کو بھی نیکیوں میں بدل دوں گا۔ مجھ سے عہد و پیماں باندھنے کا ارداہ تو کرو, میری طرف چلو تو سہی۔ یہ بھی اسکے کرم کا ایک انداز ہے۔۔!

اسی طرح کہیں جہنم کے عذابوں کی تفصیل ہے تو کہیں بہشت کے انعامات کی لسٹ درج ہے۔ کچھ لوگوں کے مزاج عجیب فقیرانہ اور عمومیت سے قدرے بلند و ماوراء ہوتے ہیں, وہ اللہ سے اللہ کو مانگتے ہیں, وہ اس سب لین دین سے آزاد ہو کے کہتے ہیں کہ ؛؎ سجدوں کے عوض فردوس ملے یہ بات مجھے منظور نہیں بے, لوث عبادت کرتا ہوں، بندہ ہوں ترا مزدور نہیں ملحدین (خدا کے منکروں) کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے اسی فکری مغالطے کو پکڑ کر خود کو گمراہ کئے ہوئے ہیں کہ؛ "یہ مسلمان محض آگ کے خوف یا جنت کی لالچ میں اللہ کو مانتے اور پوجتے ہیں”۔۔!!
 ۔۔۔ 👇👇👇

🔰WJS🔰