Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

درحقیقت بچے کے بگڑنے کی وجہ والدین ہیں

ایک بڑی تعداد ہے ایسے لوگوں کی جو کہتے ہیں ہمارا بچہ دوستوں میں رہ کر بگڑ گیا ہے،  باہر کے ماحول نے اسے بگاڑ دیا یے، بچہ ج...




ایک بڑی تعداد ہے ایسے لوگوں کی جو کہتے ہیں ہمارا بچہ دوستوں میں رہ کر بگڑ گیا ہے،

 باہر کے ماحول نے اسے بگاڑ دیا یے، بچہ جھوٹ بولے تو دوستوں نے سکھایا، بدتمیزی کرے تو دوستوں نے سکھایا، بچہ گالی دے تو دوستوں نے سکھایا ہے، یقین جانیں یہ سوچ ہی پُٹھی یے۔۔۔!!!

درحقیقت بچے کے بگڑنے کی وجہ والدین کے اپنے فرائض کی عدم ادایئگی ہے، شروع سے ہی بچے کی تربیت کو اہم فریضہ سمجھا جاتا، بچے کی پرورش کو اولین ترجیح دی جاتی تو یہ بچہ دوستوں میں جا کر کبھی خراب نہیں ہوتا بلکہ دوستوں کی اصلاح کا سبب بنتا۔۔۔!!!

بچہ پیدا ہوتے ہی دوستوں میں نہیں جا بیٹھتا، پیدا ہوتے ہی اسکے دوست اسے لینے نہیں آجاتے، پیدا ہوتے ہی آوارہ گردی شروع نہین کرتا، پیدا ہوتے ہی سگریٹ نہیں پکڑتا، کم کم و بیش شروع کے دس سال تک بچہ مکمل والدین کے ساتھ اٹیچ ہوتا ہے اور یہی وہ دورانیہ ہے جہاں اکثر و بیشتر والدین عدم توجہ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔۔۔!!!

بچہ جب پیدا ہوتا یے اسکا دل و دماغ بلکل کورا کاغذ ہوتا ہے کہ جو دیکھے گا سنے گا وہ اس پر چھپتا چلا جاۓ گا، اب ہم نے اس کاغذ پر کچھ نہیں لکھا زمانہ لکھتا چلا گیا، اگر ہم بچپن میں ہی اپنی تربیت اس کاغذ پر اتار دیتے تو زمانے کو برایئاں اتارنے واسطے جگہ ہی نا ملتی۔۔۔!!!

جب ماں اور باپ نے اپنی تربیت شروع میں ہی بچے کے اندر اتار دی تو یہ بچہ خراب لوگوں سے مل کر خود کبھی خراب نہیں ہوگا بلکہ خراب لوگوں کے لیۓ اصلاح کا سبب بنے گا۔۔۔!!!

ہمارے معاشرے میں تربیت کے نام پر رسمی جملے دہراۓ جاتے ہیں، بیٹا جھوٹ نہیں بولنا بری عادت ہے، بدتمیزی کرنا بری عادت ہے اور یہ رسمی جملے کبھی بچے کے اندر نہیں اترتے بلکہ نہایت ذمہ داری کے ساتھ، غور و فکر کے ساتھ اور دلچسپی سے کی جانے والی تربیت کو بچہ اپنے اندر اتارتا ہے، ہم معاشرہ دیکھ لیں ہر والدین بچے کو رٹے رٹاۓ جملے سکھاتے ہیں لیکن فائدہ کوئ نہیں، اور اسکی وجہ یہی کہ تربیت واسطے فکرمند نہیں، دلچسپی نہیں، ہاں سیکھ جاۓ گا، سمجھ جاۓ گا، ابھی چھوٹا ہے، اور اسی سوچ نے بیڑا غرق کرکے رکھ دیا ہے۔۔۔!!!

ڈرامے اور فلمیں دیکھتے ہوۓ مایئں بچوں کو دودھ پلارہی ہیں، ایک ہاتھ میں بچے کا فیڈر ہے تو دوسرے ہاتھ میں موبائل ہے، ذرا سا بچہ رونے لگ جاۓ تو ٹی وی کھول کر دے دیں گے، موبائل ہاتھ میں دے دیں گے، اسے کارٹون لگا دیں گے، کوئ موسیقی سن کر بچہ ہاتھ پیر ہلانے لگ جاۓ تو سارے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے، اب وہ ماں اپنے بچے کی اعلی پرورش کیسے کرسکتی ہے کہ اسکی خود کی زندگی ڈرامے، فلمیں، موسیقی، شاپنگ، گھومنا گھمانا، موبائل فیس بک تک محدود ہو۔۔۔!!!

ایک نظر باپ کی ذمہ داریوں پر ڈالیں تو بس وہی رسمی معاملات کہ بچے کے خرچے پورے ہورہے ہیں، ضرورتیات و خواہشات پوری ہورہی ہیں، پورا دن کام میں مصروف، گھر آۓ کھانا کھایا، بچے کو ایک راؤنڈ لگوا کر پھر دوستوں میں مصروف، اور پھر گھر آکر موبائل میں مصروف، اسی طرح دن پھر ہفتے اور پھر سال گذر جاتے ہیں لہذا اس بچے کی تربیت کا جو سب سے اہم دورانیہ تھا وہ والدین نے اپنی ہی مصروفیات، اپنی ہی مستیوں میں ضایع کردیا بعد میں سر پکڑ بیٹھے کے اولاد نا فرمان ہے، اولاد بدتمیز ہے، دوستوں نے بگاڑ دیا، ماحول نے خراب کردیا، ارے بھئ ماحول کے ساتھ تو وہ بعد میں جڑا یے، دوست تو اسکے بعد میں بنے ہیں، اتنے سالوں سے تو وہ آپ ہی کے پاس تھا۔۔۔!!!

ماں اور باپ دونوں کو مل کر ذمہ داری کے ساتھ بچے کی تربیت کرنی ہوگی، اپنے آپ کو لگانا ہے، اپنے آپ کو کھپانا ہے، اولاد کی تربیت واسطے ماں کی گود سب سے پہلی اور اہم درسگاہ ہے کہ ماں اسے سینے سے لگاۓ اپنی تربیت بچے میں منتقل کرے، اسے اللہ کی پہچان کرواۓ، اسے رسول اللہﷺ کی پہچان کرواۓ، اسے دنیا میں آنے کا مقصد سمجھاۓ، اسے روز مرہ معاملات کی دعایئں سکھاۓ، سچ سے محبت سچ میں عزت سچ پر فضیلت اسکے دل میں اتارے، جھوٹ سے نفرت، جھوٹ میں شرمندگی، جھوٹ پر گناہ کا یقین اسکے دل میں اتارے، گالی، غیبت، چغلی اور بری باتوں سے نفرت اسکے دل میں اتارے، رشتہ داروں سے محبت اور حسن سلوک اسکے دل میں اتارے، جب ماں کے اندر دین ہوگا، ماں کے اخلق اچھے ہونگے تو یہاں نسلوں کی نسلیں پروان چڑھیں گی۔۔۔!!!

اسی طرح باپ ہے کہ روزانہ بچے کے ساتھ بیٹھ کر کچھ وقت گزارے، روز مرہ کے معاملات کا پوچھے، صحیح غلط کی پہچان کرواۓ، بڑوں کا ادب، بڑوں کی عزت سمجھاۓ، غریبوں سے محبت، ضرورت مند کی مدد کا جذبہ اور شوق اسکے اندر پیدا کریں، اسکے سامنے یہ ٹیلوژن موبائل ڈرامے فلمیں وغیرہ کا استعمال بلکل نا ہو، اسکے سامنے لڑائ جھگڑے گالم گلوچ شور شرابہ بلکل نا ہو، بچے کے سامنے سب سے آپ جناب سے بات کریں، بچہ ذرا بڑا ہوجاۓ تو اسے نماز پر اپنے ساتھ لیکر جاۓ، اسے لوگوں سے ملنا جلنا سکھاۓ، اچھے کام پر اسکی حوصلہ افزائ ہو، فارغ اوقت میں پاس بٹھا کر رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام کے واقعات سناۓ۔۔۔!!!

ایسے ماحول سے نکل کر آپ کا شہزادہ جب باہر کی دنیا میں اتا ہے تو کبھی باہر کے لوگوں سے خراب ہوکر نہیں آۓ گا بلکہ انکے  لیۓ اصلاح کا سبب بنے گا، انکے لیۓ خیر کا سبب بنے گا، جہاں جاۓ گا اپنی اچھائ چھوڑ آۓ گا، جہاں جاۓ گا والدین کا نام چھوڑ کر آۓ گا۔۔۔!!!

اور یہ شہزادہ دنیا میں تو والدین کے لیۓ سربلندی کا باعث بنتا ہی ہے لیکن اپنے اچھے اعمال و کردار کی بدولت والدین کے انتقال کے بعد قبر میں بھی انکے لیۓ راحت و سکون کا ذریعہ بنے گا۔۔۔!!!