Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

بزرگوں کی تعلیمات

بزرگوں کی تعلیمات حضرت سید علی ہجویری رحمة اللہ علیہ کے عرس کے موقع پر،ایک خطیب نے اپنی مسجد میں جمعة المبارک کے اجتماع سے خطاب ...



بزرگوں کی تعلیمات

حضرت سید علی ہجویری رحمة اللہ علیہ کے عرس کے موقع پر،ایک خطیب نے اپنی مسجد میں جمعة المبارک کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے، ڈھول رقص اور دھمال کو بدعت قرار دیا کہ یہ بزگوں کی تعلیم نہیں ہے۔۔۔ وہ اسلام کی سادہ تعلیم دیتے اور اپنے مریدین و وابستگان کی تربیت کرتے تھے۔ جمعة کی نماز کے بعد انتظامیہ اور عوام نے ان کے  خلاف شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ عوام نے جو کچھ ان بزرگوں کے بارے میں خطیبوں سے  سن  رکھا تھا وہ تمام دلائل مولانا کی تقریر کو counter کرنے کے لئے دے دئیے مثلاً بابا بلھے شاہ نے کہاکہ ''مینوں نچ کے یار مناںڑ دے''۔۔ مادھولعل حسین کی دھمال اور معین الدین چشتی اجمیری کی قوالی   کے حوالے دئیے۔۔ عوام کا اصرار تھا کہ ہم دھمال اور ڈھول کے ساتھ چادر لے کر جاتے ہیں یہ سب اعمال و رسوم بزرگوں کی تعلیمات کے عین مطابق ہیں۔ انتظامیہ اور عوام کاکہنا تھا کہ "آپ وہابی نظریات پھیلا رہے ہیں". تادم تحریر محلہ و مسجد میں حالات کشیدہ ہیں۔
ایسی صورت حال کیوں پیدا ہوتی ہے؟اس کی بنیادی وجہ تصور دین سے دوری ہے۔ مغفرت وبخشش کے لئے معیار یہ بن گیا کہ جس نے ان خاص مواقع پہ اپنی محبت اور تعلق کا اظہار کر دیا اس کی بخشش ہو گئی۔ اگر بخشش اس طرح ہوتی تو اللہ کے انبیاء اور ان کے پیروکار ایمان و عمل صالح کے سنگلاخ راستوں پہ کیوں چلتے؟ اللہ کی راہ میں صعوبتیں کیوں برداشت کرتے؟اور جانوں کے نذرانے کیوں پیش کرتے۔؟حق کو لوگوں کے ذریعے نہیں بلکہ لوگوں کو حق  کے معیارپہ پرکھا جاتا ہے۔بزرگوں سے پہلے، قرآن و سنت کے معیارپہ دیکھنا چاہئیے کہ دین میں ان رسوم و بدعات کا کیا تصور ہے؟اگر بزرگوں نے اپنے کلام میں یا ان سے منسوب جن باتوں کو بیان کیاہے اس کی حقیقت کیا ہے؟۔ کیا ان سے منسوب ہر بات صحیح بھی ہے یا نہیں؟
حضرت فرید الدین گنج شکر رحمةاللہ علیہ نے  دروازے سے گزرتے وقت اتفاقاً  فرمایا "جنت کا یہی راستہ ہے جس پہ ہم چل رہے ہیں" تن پرور اور ضعیف الاعتقاد افراد نے خیال کر لیا کہ یہی بہشتی دروازہ  ہے جبکہ ان کی مراد  دین کا راستہ جس پہ وہ چل رہے تھے۔ آج لوگ قرآن وسنت کے مطابق زندگی بسر کریں یا نہ کریں۔۔بہر حال سال بعد بہشتی دروازے سے گزرنا  ضروری خیال کرتے ہیں۔
اگر اس طرح بہشت کے دروازے کُھلتے  اور بہشت اس طرح عطا ہوتی۔۔ توجیسے میں نے ذکر کیا ہے، انبیاء علیھم السلام اور ان کے پیروکار  اللہ کے دین کے لئے مشقتیں  برداشت نہ کرتے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم واپس دین کیطرف لوٹیں جس کا راستہ آسان اور سیدھا ہے۔ جس پہ چل کر ہی ہم سب کی نجات ہے۔۔۔(صاحبزادہ محمد امانت رسول)