Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

انشورنس اور تکافل میں کیا فرق ھے؟

سوال: انشورنس اور تکافل میں کیا فرق ھے؟ جبکہ دونوں میں پالیسی خریدی جاتی ھے اور اقساط جمع کرائی جاتی ھیں۔ اور حادثہ کی صورت میں ایک...


سوال:
انشورنس اور تکافل میں کیا فرق ھے؟ جبکہ دونوں میں پالیسی خریدی جاتی ھے اور اقساط جمع کرائی جاتی ھیں۔ اور حادثہ کی صورت میں ایک معتمد بہ رقم ملتی ھے اور حادثہ پیش نہ آنے کی صورت میں اقساط مکمل ھونے پر کل رقم مع اضافہ مل جاتی ھے۔ انشورنس میں بھی یہی ھوتا ھے اور تکافل میں بھی یہی ھوتاھے۔ پھر ایک (انشورنس) ناجائز اور دوسرا (تکافل) جائز کیوں؟
جواب:
یہ درست ھے کہ دونوں کی ظاھری  صورت تو ایک جیسی ھے مگر دونوں میں ایک جوھری فرق ہے جس کی وجہ سے حکم میں فرق ھے۔

انشورنس میں حادثہ کی صورت میں دی جانی والی رقم قبل از وقت متعین کر دی جاتی ھے۔ مثلا حادثہ پیش آنے کی صورت میں دس لاکھ روپے دئے جائیں گے۔ بصورت دیگر اقساط مکمل ھونے کی صورت میں مکمل رقم مع نفع دیا جائےگا۔
اس میں جوا بھی ھے اور سود بھی۔ جوا اس لئے کہ معلوم نہیں حادثہ پیش آئے گا۔یانہیں ۔اگر پیش آگیا تو دس لاکھ ملیں گے اور حادثہ  پیش نہ آنے کی صورت میں فی الحال کچھ نہیں ملے گا۔ یہی تو جوا ھوتا ھے۔ اور سودی بینک چونکہ  رقوم آگے قرض پر دے کر منافع حاصل کرتے ھیں اور قرض پر نفع کمانا سود ھے۔لھذا یہ نفع سود ھے۔  اور مدت پوری ھونے پر کل رقم کے ساتھ جو نفع ملے گا وہ سود ھوگا کیونکہ اس کو قرض پر کمایا گیا ھے۔ اسلئے انشورنس جوا اور سود پر مشتمل ھونے کی وجہ سے ناجائز ھے۔

جبکہ تکافل میں جو پالیسی خرید کر اس کی اقساط ادا کی جاتی ھیں۔ اس میں اسلامی بینک لوگوں کو قرض نہیں دیتے بلکہ لوگوں کوحلال کاروبار میں لگانے کیلئے دیتے ھیں۔ اور حلال کاروبار کے ذریعے جو حلال نفع اسلامی بینک کو ھوتا ھے اس حل نفع میں سے اسلامی بینک تکافل کی پالیسی کے خریداروں کو ان کا حصہ دیتا ھے۔خواہ وہ کم ھو یا زیادہ ، پہلے سے متعین نہیں ھوتا ۔اسی طرح تکافل میں حادثہ کی صورت میں کوئی رقم  متعین نہیں کی جاتی۔ بلکہ یہ کہا جاتا ھے کہ حادثہ تک جو بھی آپ کا نفع ھو گا وہ نفع مع آپ کی  اصل رقم   آپ کو مل جائے گی۔ لھذا جوا نہ ھوا ۔اور حادثہ نہ پیش آنے کی صورت میں مدت پوری ھونے پر اصل رقم اور اس پر کاروبار میں حاصل ھونے والا نفع  واپس کر دیا جائے گا ۔ لھذا حلال  کاروبار کے ذریعے سے چونکہ نفع کمایا گیا ھے اسلئے یہ منافع  بھی حلال ھے سود نہیں۔ تو جب تکافل جوا اور سود سے پاک ھو گیا۔ تو حلال اور جائز ھوا۔

Mufti Mahmood ul Hassan lahore