Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

سورۃ العصر - زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے

  زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے سورۃ العصر قرآن مجید کی اوّلین اور مختصر ترین سورتوں میں سے ایک ہے۔ اس لیے کہ یہ کُل تین آیات پ...



 

زمانے کی قسم انسان خسارے میں ہے

سورۃ العصر قرآن مجید کی اوّلین اور مختصر ترین سورتوں میں سے ایک ہے۔ اس لیے کہ یہ کُل تین آیات پر مشتمل ہے۔ قرآن مجید میں کوئی سورۃ تین سے کم آیات پر مشتمل نہیں ہے‘ بلکہ عجیب حسنِ اتفاق ہے کہ کُل تین ہی سورتیں قرآن مجید میں ایسی ہیں جو تین تین آیات پر مشتمل ہیں۔ انہی میں سے ایک سورۃ العصر ہے ‘اور اتنی مختصر ہے کہ اس کی پہلی آیت صرف ایک لفظ پر مشتمل ہے  یعنی  والعصر

 اس سورۃ میں زمانے کی قسم اس بات پر کھائی گئی ہے کہ انسان بڑے خسارے میں ہے ، اور اس خسارے سے صرف وہی لوگ بچے ہوئے ہیں جن کے اندر چار صفتیں پائی جاتی ہیں ۔
( 1 ) ایمان
( 2 ) عمل صالح
( 3 ) ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرنا
( 4 ) ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنا ۔
 
اب اس کے ایک ایک جز کو الگ لے کر اس پر غور کرنا چاہیے تاکہ اس ارشاد کا پورا مطلب واضح ہوجائے ۔

 جہاں تک قسم کا تعلق ہے اس سے پہلے بارہا یہ وضاحت کی جاچکی ہے کہ اللہ تعالی نے مخلوقات میں سے کسی چیز کی قسم اس کی عظمت یا اس کے کمالات و عجائب کی بنا پر نہیں کھائی ہے ، بلکہ اس بنا پر کھائی ہے کہ وہ اس بات پر دلالت کرتی ہے جسے ثابت کرنا مقصود ہے ۔ پس زمانے کی قسم کا مطلب یہ ہے کہ زمانہ اس حقیقت پر گواہ ہے کہ انسان بڑے خسارے میں ہے سوائے ان لوگوں کے جن میں یہ چار صفتیں پائی جاتی ہوں ۔ 

زمانے کا لفظ گزرے ہوئے زمانے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے ، اور گزرتے ہوئے زمانے کے لیے بھی جس میں حال درحقیقت کسی لمبی مدت کا نام نہیں ہے ۔ ہر آن گزر کر ماضی بنتی چلی جارہی ہے ، اور ہر آن آکر مستقبل کو حال اور جاکر حال کو ماضی بنا رہی ہے ۔ گزرے ہوئے زمانے کی قسم کھانے کا مطلب یہ ہے کہ انسانی تاریخ اس بات پر شہادت دے رہی ہے کہ جو لوگ بھی ان صفات سے خالی تھے وہ بالآخر خسارے میں پڑ کر رہے ۔ اور گزرتے ہوئے زمانے کی قسم کھانے کا مطلب سمجھنے کے لیے یہ بات اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ جو زمانہ اب گزر رہا ہے وہ دراصل وہ وقت ہے جو ایک ایک شخص اور ایک ایک قوم کو دنیا میں کام کرنے کے لیے دیا گیا ہے ۔

 اس کی مثال اس وقت کی سی ہے جو امتحان گاہ میں طالب علم کو پرچے حل کرنے کے لیے دیا جاتا ہے ۔ یہ وقت جس تیز رفتاری کے ساتھ گزر رہا ہے اس کا اندازہ تھوڑی دیر کے لیے اپنی گھڑی میں سیکنڈ کی سوئی کو حرکت کرتے ہوئے دیکھنے سے آپ کو ہوجائے گا ۔ حالانکہ ایک سیکنڈ بھی وقت کی بہت بڑی مقدار ہے ۔ اسی ایک سیکنڈ میں روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کا راستہ طے کرلیتی ہے ، اور خدا کی خدائی میں بہت سی چیزیں ایسی بھی ہوسکتی ہیں جو اس سے بھی زیادہ تیز رفتار ہوں خواہ وہ ابھی تک ہمارے علم میں نہ آئی ہوں ۔ تاہم اگر وقت کے گزرنے کی رفتار وہی سمجھ لی جائے جو گھڑی میں سیکنڈ کی سوئی کے چلنے سے ہم کو نظر آتی ہے ، اور اس بات پر غور کیا جائے کہ ہم جو کچھ بھی اچھا یا برا فعل کرتے ہیں اور جن کاموں میں بھی ہم مشغول رہتے ہیں ، سب کچھ اس محدود مدت عمر ہی میں وقوع پذیر ہوتا ہے جو دنیا میں کام کرنے کے لیے دی گئی ہے ، تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارا اصل سرمایہ تو یہی وقت ہے جو تیزی 
سے گزر رہا ہے ۔ 

امام رازی نے کسی بزرگ کا قول نقل کیا ہے کہ میں نے سورہ عصر کا مطلب ایک برف فروش سے سمجھا جو بازار میں آواز لگا رہا تھا کہ رحم کرو اس شخص پر جس کا سرمایہ گھلا جارہا ہے ، رحم کرو اس شخص پر جس کا سرمایہ گھلا جارہا ہے ، اس کی یہ بات سن کر میں نے کہا یہ ہے وَالْعَصْرِ ۔ اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ ۔ کا مطلب ۔ عمر کی جو مدت انسان کو دی گئی ہے وہ برف کے گھلنے کی طرح تیزی سے گزر رہی ہے ۔ اس کو اگر ضائع کیا جائے ، یا غلط کاموں میں صرف کر ڈالا جائے تو یہی انسان کا خسارہ ہے ۔ پس گزرتے ہوئے زمانے کی قسم کھا کر جو بات اس سورہ میں کہی گئی ہے ، اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ تیز رفتار زمانہ شہادت دے رہا ہے کہ ان چار صفات سے خالی ہوکر انسان جن کاموں میں بھی اپنی مہلت عمر کو صرف کر رہا ہے وہ سب کے سب خسارے کے سودے ہیں ۔ نفع میں صرف وہ ولگ ہیں جو ان چاروں صفات سے متصف ہوکر دنیا میں کام کریں ۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے ہم اس طالب علم سے جو امتحان کے مقررہ وقت کو اپنا پرچہ حل کرنے کے بجائے کسی اور کام میں گزار رہا ہو ، کمرے کے اندر لگے ہوئے گھنٹے کی طرف اشارہ کر کے کہیں کہ یہ گزرتا ہوا وقت بتا رہا ہے کہ تم اپنا نقصان کر رہے ہو ، نفع میں صرف وہ طالب علم ہے جو اس وقت کا ہر لمحہ اپنا پرچہ حل کرنے میں صرف کررہا ہے ۔ اور اس کا اطلاق افراد ، گروہوں ، اقوام ، اور پوری نوع انسانی پر یکساں ہوتا ہے ۔ پس یہ حکم کہ مذکورہ چار صفات سے جو بھی خالی ہو وہ خسارے میں ہے ، ہر حالت میں ثابت ہوگا ، خواہ ان سے خالی کوئی شخص ہو ، یا کوئی قوم ، یا دنیا بھر کے انسان ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ہم اگر یہ حکم لگائیں کہ زہر انسان کے لیے مہلک ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ زہر بہرحال مہلک ہے خواہ ایک فرد اس کو کھائے ، یا ایک پوری قوم ، یا ساری دنیا کے انسان مل کر اسے کھا جائیں ۔ زہر کی مہلک خاصیت اپنی جگہ اٹل ہے ، اس میں اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایک شخص نے اس کو کھایا ہے ، یا ایک قوم نے اسے کھانے کا فیصلہ کیا ہے ، یا دنیا بھر کے انسانوں کا اجماع اس پر ہوگیا ہے کہ زہر کھانا چاہیے ۔ ٹھیک اسی طرح یہ بات اپنی جگہ اٹل ہے کہ چار مذکورہ بالا صفات سے خالی ہونا انسان کے لیے خسارے کا موجب ہے ۔ اس قاعدہ کلیہ میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی ایک شخص ان سے خالی ہو ، یا کسی قوم نے ، یا دنیا بھر کے انسانوں نے کفر ، بد عملی ، اور ایک دوسرے کو باطل کی ترغیب دینے اور بندگی نفس کی تلقین کرنے پر اتفاق کرلیا ہے ۔ 

اس کے ساتھ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اگرچہ قرآن کہ نزدیک حقیقی فلاح آخرت میں انسان کی کامیابی ، اور حقیقی خسارہ وہاں اس کی ناکامی ہے ، لیکن اس دنیا میں بھی جس چیز کا نام لوگوں نے فلاح رکھ چھوڑا ہے وہ دراصل فلاح نہیں ہے بلکہ اس کا انجام خود اسی دنیا میں خسارہ ہے ، اور جس چیز کو لوگ خسارہ سمجھتے ہیں وہ دراصل خسارہ نہیں ہے بلکہ اس دنیا میں بھی وہی فلاح کا ذریعہ ہے ۔ اس حقیقیت کو قرآن مجید میں کئی مقامات پر بیان کیا گیا ہے ۔پس جب قرآن پورے زور اور قطعیت کے ساتھ کہتا ہے کہ درحقیقت انسان بڑے خسارے میں ہے تو اس کا مطلب دنیا اور آخرت دونوں کا خسارہ ہے ، اور جب وہ کہتا ہے کہ اس خسارے سے صرف وہ لوگ بچے ہوئے ہیں جن کے اندر حسب ذیل چار صفات پائی جاتی ہیں تو اس کا مطلب دونوں جہانوں میں خسارے سے بچنا اور فلاح پانا ہے ۔ 

اب ہمیں ان چاروں صفات کو دیکھنا چاہیے جن کے پائے جانے پر اس سورۃ کی رو سے انسان کا خسارے سے محفوظ رہنا موقوف ہے ۔ ان میں پہلی صفت "ایمان " ہے ۔ یہ لفظ اگرچہ بعض مقامات پر قرآن مجید میں محض زبانی اقرار ایمان کے معنی میں بھی استعمال کیا گیا ہے ۔ ( مثلا النساء ، آیت 137 ۔ المائدہ ، آیت 54 ۔ الانفال ، آیت 20 ۔ 27 ۔ التوبہ آیت 38 ۔ الصف آیت 2 میں ) لیکن اس کا اصل استعمال سچے دل سے ماننے اور یقین کرنے کے معنی ہی میں کیا گیا ہے ۔قرآن دراصل جس ایمان کو حقیقی ایمان قرار دیتا ہے ، اس کو ان آیات میں پوری طرح واضح کردیا گیا ہے ۔ 
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوْا ( الحجرات ۔ 15 ) مومن تو حقیقت میں وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور پھر شک میں نہ پڑے ۔ 

اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ ثُمَّ اسْـتَقَامُوْا ( حم السجدہ ۔ فصلت ۔ آیت 30 ) جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر اس پر ڈٹ گئے ۔ 

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ ( الانفال 2 ) جائے تو ان کے دل لرز جاتے ہیں ۔ 

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ ( البقرہ ، 165 ) اور جو لوگ ایمان لائے ہیں وہ سب سے 
بڑھ کر اللہ سے محبت رکھتے ہیں ۔

 فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا ( النساء ، 65 ) پس نہیں ( اے نبی ) تمہارے رب کی قسم وہ ہرگز مومن نہیں ہیں جب تک کہ اپنے باہمی اختلاف میں تمہیں فیصلہ کرنے والا نہ 
مان لیں ، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی محسوس نہ کریں بلکہ سر بسر تسلیم کرلیں ۔

 ان میں بھی زیادہ اس آیت میں زبانی اقرار ایمان اور حقیقی ایمان کا فرق ظاہر کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اصل مطلوب حقیقی ایمان ہے نہ کہ زبانی اقرار: يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ( النساء ، آیت 136 ) اے لوگ جو ایمان لائے ہو ، 
ایمان لاؤ اور اس کے رسول پر ۔

 اب رہا یہ سوال کہ ایمان لانے سے کن چیزوں پر ایمان لانا مراد ہے ، تو قرآن مجید میں پوری طرح اس بات کو بھی کھول کھول کر بیان کردیا گیا ہے ۔ اس سے مراد اولا اللہ کو ماننا ہے ۔ محض اس کے وجود کو ماننا نہیں بلکہ اسے اس حیثیت سے ماننا ہے کہ وہی ایک خدا ہے ، خدائی میں کوئی اس کا شریک نہیں ہے ، وہی اس کا مستحق ہے کہ انسان اس کی عبادت ، بندگی اور اطاعت بجا لائے ۔ وہی قسمتیں بنانے اور بگاڑنے والا ہے ، بندے کو اسی سے دعا مانگنی چاہیے اور اسی پر توکل کرنا چاہیے ۔ وہی حکم دینے اور منع کرنے والا ہے ۔ بندے کا فرض ہے کہ اس کے حکم کی اطاعت کرے اور جس چیز سے اس نے منع کیا ہے اس سے رک جائے ۔ وہ سب کچھ دیکھنے اور سننے والا ہے ، اس سے انسان کا کوئی فعل تو درکنار ، وہ مقصد اور نیت بھی مخفی نہیں ہے جس کے ساتھ اس نے کوئی فعل کیا ہے ۔ ثانیا رسول کو ماننا ، اس حیثیت سے کہ وہ اللہ تعالی کا مامور کیا ہوا ھادی اور رہنما ہے ، اور جس چیز کی تعلیم بھی اس نے دی ہے وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے ، برحق ہے ، اور واجب التسلیم ہے ۔ اسی ایمان بالرسالت میں ملائکہ ، انبیاء اور کتب الہیہ پر ، اور خود قرآن پر بھی ایمان لانا شامل ہے ، کیونکہ یہ ان تعلیمات میں سے ہے جو اللہ کے رسول نے دی ہیں ۔ ثالثا آخرت کو ماننا ، اس حیثیت سے کہ انسان کی موجودہ زندگی پہلی اور آخری زندگی نہیں ہے ، بلکہ مرنے کے بعد انسان کو دوبارہ زندہ ہوکر اٹھنا ہے ، اپنے ان اعمال کا جو اس نے دنیا کی اس زندگی میں کیے ہیں ، خدا کو حساب دینا ہے ، اور اس محاسبہ میں جو لوگ نیک قرار پائیں انہیں جزاء ، اور جو بد قرار پائیں ان کو سزا ملنی ہے ۔ یہ ایمان اخلاق اور سیرت و کردار کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کردیتا ہے جس پر ایک پاکیزہ زندگی کی عمارت قائم ہوسکتی ہے ۔ ورنہ جہاں سرے سے یہ ایمان ہی موجود نہ ہو وہاں انسان کی زندگی خواہ کتنی ہی خوشنما کیوں نہ ہو ، اس کا حال ایک بے لنگر کے جہاز کا سا ہوتا ہے جو موجوں کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے اور کہیں قرار نہیں پکڑ سکتا ۔ 

ایمان کے بعد دوسری صفت جو انسان کو خسارے سے بچانے کے لیے ضروری ہے وہ "صالحات ( نیک کاموں ) پر عمل کرنا " ہے ۔ صالحات کا لفظ تمام نیکیوں کا جامع ہے جس سے نیکی اور بھلائی کو کوئی قسم چھوٹی نہیں رہ جاتی ۔ لیکن قرآن کی رو سے کوئی عمل بھی اس وقت تک عمل صالح نہیں ہوسکتا جب تک اس کی جڑ میں ایمان موجود نہ ہو ، اور وہ اس ہدایت کی پیروی میں نہ کیا جائے جو اللہ اور اس کے رسول نے دی ہے ۔ اسی لیے قرآن مجید میں ہر جگہ عمل صالح سے پہلے ایمان کا ذکر کیا گیا ہے اور اس سورہ میں بھی اس کا ذکر ایمان کے بعد ہی آیا ہے ۔ کسی ایک جگہ بھی قرآن میں ایمان کے بغیر کسی عمل کو صالح نہیں کہا گیا ہے اور نہ عمل بلا ایمان پر کسی اجر کی امید دلائی گئی ہے ۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایمان وہی معتبر اور مفید ہے جس کے صادق ہونے کا ثبوت انسان اپنے عمل سے پیش کرے ۔ ورنہ ایمان بلا عمل صالح محض ایک دعوی ہے جس کی تردید آدمی خود ہی کردیتا ہے جب وہ اس دعوے کے باوجود اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے سے ہٹ کر چلتا ہے ۔ ایمان اور عمل صالح کا تعلق بیج اور درخت کا سا ہے ۔ جب تک بیج زمین میں نہ ہو ، کوئی درخت پیدا نہیں ہوسکتا۔   لیکن اگر بیج زمین میں ہو اور کوئی درخت پیدا نہ ہورہا ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ بیج زمین میں دفن ہوکر رہ گیا ۔ اسی بنا پر قرآن پاک میں جتنی بشارتیں بھی دی گئی ہیں انہی لوگوں کو دی گئی ہیں جو ایمان لاکر عمل صالح کریں ، اور یہی بات اس سورہ میں بھی کہی گئی ہے کہ انسان کو خسارے سے بچانے کے لیے جو دوسری صفت ضروری ہے وہ ایمان کے بعد صالحات پر عمل کرنا ہے ۔ بالفاظ دیگر عمل صالح کے بغیر محض ایمان آدمی کو خسارے سے نہیں بچا سکتا ۔ مذکورہ بالا دو صفتیں تو وہ ہیں جو ایک ایک فرد میں ہونی چاہیں ۔
اس کے بعد یہ سورۃ دو مزید صفتیں بیان کرتی ہے جو خسارے سے بچنے کے لیے ضروری ہیں ، اور وہ یہ ہیں کہ ایمان لانے اور عمل صالح کرنے والے لوگ "ایک دوسرے کو حق کی نصیحت"  اور "صبر کی تلقین کریں "۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اول تو ایمان لانے اور نیک عمل کرنے والوں کو فرد فرد بن کر نہیں رہنا چاہیے بلکہ ان کے اجتماع سے ایک مومن و صالح معاشرہ وجود میں آنا چاہیے ۔ دوسرے اس معاشرے کے ہر فرد کو اپنی یہ ذمہ داری محسوس کرنی چاہیے کہ وہ معاشرے کو بگڑنے نہ دے ، اس لیے اس کے تمام افراد پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کریں ۔ حق کا لفظ باطل کی ضد ہے اور بالعموم یہ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ ایک صحیح اور سچی اور مطابق عدل و انصاف اور مطابق حقیقت بات ، خواہ وہ عقیدہ ایمان سے تعلق رکھتی ہو یا دنیا کے معاملات سے ۔ دوسرے وہ حق جس کا ادا کرنا انسان پر واجب ہو ، خواہ وہ خدا کا حق ہو یا بندوں کا حق یا خود اپنے نفس کا حق ۔ پس ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان کا یہ معاشرہ ایسا بے حس نہ ہو کہ اس میں باطل سر اٹھا رہا ہو اور حق کے خلاف کام کیے جارہے ہوں ، مگر لوگ خاموشی کے ساتھ اس کا تماشا دیکھتے رہیں ، بلکہ اس معاشرے میں یہ روح جاری و ساری رہے کہ جب اور جہاں بھی باطل سر اٹھائے کلمہ حق کہنے والے اس کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوں ، اور معاشرے کا ہر فرد صرف خود ہی حق پرستی اور راستبازی اور عدل و انصاف پر قائم رہنے اور حق داروں کے حقوق ادا کرنے پر اکتفا نہ کرے بلکہ دوسروں کو بھی اس طرز عمل کی نصیحت کرے ۔ یہ وہ چیز ہے جو معاشرے کو اخلاقی زوال و انحطاط سے بچانے کی ضامن ہے ۔ اگر یہ روح کسی معاشرے میں موجود نہ رہے تو وہ خسران سے نہیں بچ سکتا اور اس خسران میں وہ لوگ بھی آخر کار مبتلا ہوکر رہتے ہیں جو اپنی جگہ حق پر قائم ہوں مگر اپنے معاشرے میں حق کو پامال ہوتے ہوئے دیکھتے رہیں ۔ یہی بات ہے جو سورہ مائدہ میں فرمائی گئی ہے کہ بنی اسرائیل پر حضرت داؤد اور حضرت عیسی ابن مریم کی زبان سے لعنت کی گئی اور اس لعنت کی وجہ یہ تھی کہ ان کے معاشرے میں گناہوں اور زیادتیوں کا ارتکاب عام ہو رہا تھا اور لوگوں نے ایک دوسرے کو برے افعال سے روکنا چھوڑ دیا تھا ( آیات ، 78 ۔ 79 ) پھر اسی بات کو سورہ اعراف میں اس طرح بیان فرمایا گیا ہے کہ بنی اسرائیل نے جب کھلم کھلا سبت کے احکام کی خلاف ورزی کر کے مچھلیاں پکڑنی شروع کردیں تو ان پر عذاب نازل کردیا گیا اور اس عذاب سے صرف وہی لوگ بچائے گئے جو اس گناہ سے روکنے کی کوشش کرتے تھے ( آیات ، 163 تا 166 ) اور اسی بات کو سورہ انفال میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ بچو اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف انہی لوگوں تک محدود نہ رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو ( آیت 25 ) اسی لیے *امر بالمعروف اور نہی عن المنکر* کو امت مسلمہ کا فریضہ قرار دیا گیا ہے ( آل عمران ۔ 104 ) اور اس امت کو بہترین امت کہا گیا ہے جو یہ فریضہ انجام دے ( آل عمران 110 ) حق کی نصیحت کے ساتھ دوسری چیز جو اہل ایمان اور ان کے معاشرے کو خسارے سے بچانے کے لیے شرط لازم قرار دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس معاشرہ کے افراد ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرتے رہیں ۔ یعنی حق کی پیروی اور اس کی حمایت میں جو مشکلات پیش آتی ہیں ، اور اس راہ میں جن تکالیف سے ، جن مشقتوں سے ، جن مصائب سے اور جن نقصانات اور محرومیوں سے انسان کو سابقہ پیش آتا ہے ان کے مقابلے میں وہ ایک دوسرے کو ثابت قدم رہنے کی تلقین کرتے رہیں ۔ ان کا ہر فرد دوسرے کی ہمت بندھاتا رہے کہ وہ ان حالات کو صبر کے ساتھ برداشت کرے ۔
(منقول)