Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

نیاز اور صدقہ میں کیا فرق ہے؟

سوال: نیاز اور صدقہ میں کیا فرق ہے؟ جواب: جو مال اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اللہ کی راہ میں غرباء و مساکین کو دیا جاتا ہے یا خیر کے ک...


سوال: نیاز اور صدقہ میں کیا فرق ہے؟
جواب: جو مال اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے اللہ کی راہ میں غرباء و مساکین کو دیا جاتا ہے یا خیر کے کسی کام میں خرچ کیا جاتا ہے، اسے “صدقہ” کہتے ہیں، 

صدقہ کی تین قسمیں ہیں:
۱:فرض، جیسے زکات۔
۲:واجب، جیسے نذر، صدقہٴ فطر اور قربانی وغیرہ۔
۳:نفلی صدقات، جیسے عام خیرات۔


پہلی دو قسموں کے صدقات  (زکات، صدقہ فطر وغیرہ)  مستحق کو دینا ہی ضروری ہے، جب کہ نفلی صدقات  غریب اور امیر دونوں کو دے سکتے ہیں۔
اور کسی کام کے ہونے پر کچھ صدقہ کرنے کی یا کسی عبادت کے بجا لانے کی منت مانی جائے تو اس کو "نذر" کہتے ہیں۔ مصرف کے اعتبار سے "نذر" کا حکم زکات کا حکم ہے، اس کو صرف غرباء کھاسکتے ہیں، غنی نہیں کھاسکتے، "نیاز" کے معنی بھی نذر ہی کے ہیں۔

اور نیاز کا ایک معنی عرف میں  یہ بھی ہے کہ لوگ بزرگوں کے ایصال وثواب کے لیے یا اپنے فوت شدہ اقارب کے لیے کھانا وغیرہ بنواکراس پر فاتحہ وغیرہ پڑھ کر اسے  تقسیم کرتے ہیں تو اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر یہ نیاز انہی بزرگوں کے نام کی ہو، یعنی ان سے ان بزرگوں کا تقرب مقصود ہو تو  یہ حرام ہے ، اس کا کھانا بھی حرام ہے؛ کیوں کہ یہ نذر لغیر اللہ ہے۔ اور اگر یہ نذر  اللہ کی رضا کے لیے ہو، صرف  اس کا ثواب بزرگوں یا فوت شدگان کو پہنچایا جائے تو  اس کے جائز ہونے کے لیے چند شرائط ہیں:

1۔۔ اس کے لیے کوئی تاریخ ہمیشہ کے لیے مقرر نہ کی جائے، یعنی کسی دن کی تخصیص نہ کی جائے۔
2۔۔  نذر مانی گئی ہو تو جو کھانا کھلانا ہو وہ صرف فقراء کو کھلائے، مال داروں کو نہ کھلائے۔
3۔۔ اس کو لازم اور واجب نہ سمجھا جائے، اور نہ کرنے والوں پر لعن طعن نہ کی جائے۔
4۔۔ قرض لے کر اپنی وسعت سے زیادہ خرچ نہ کرے۔
5۔۔ اور بھی کوئی خلافِ شرع کام اس کے ساتھ نہ ملائے۔
6۔۔ جن دنوں میں اہلِ بدعت وغیرہ کا شعار ہو ان دنوں میں بھی نہ کیا جائے۔
مذکورہ شرائط کے ساتھ نذر ونیاز  جائز ہے، لیکن موجودہ زمانہ میں اس کے جو طریقے رائج ہیں، ان میں مذکورہ شرائط کی رعایت نہیں کی جاتی، اور اس میں دیگر  بھی کئی مفاسد شامل ہوگئے ہیں، لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔(مستفاد: آپ کے مسائل اور ان کا حل، امداد المفتیین) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144004201208
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
مفتی محمود الحسن لاہور