Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

ذرہ بھر نیکی اور ذرہ بھر برائی

فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ۔ وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ  شَرًّا یَّرَہٗ۔ ترجمہ: پس جس نے ذرہ ب...


فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ۔ وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ  شَرًّا یَّرَہٗ۔

ترجمہ:
پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا (الذلزال99: 7-8)

تفسیر و تشریح:
اس ارشاد کا ایک سیدھا سادھا مطلب تو یہ ہے اور یہ بالکل صحیح ہے کہ آدمی کی کوئی ذرہ برابر نیکی یا بدی بھی ایسی نہیں ہوگی جو اس کے نامہ اعمال میں درج ہونے سے رہ گئی ہو ، اسے وہ بہرحال دیکھ لے گا ۔ لیکن اگر دیکھنے سے مراد اس کی جزا و سزا دیکھنا لیا جائے تو اس کا یہ مطلب لینا بالکل غلط ہے کہ آخرت میں ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کی جزا اور ہر چھوٹی سے چھوٹی بدی کی سزا ہر شخص کو دی جائے گی ، اور کوئی شخص بھی وہاں اپنی کسی نیکی کی جزا اور کسی بدی کی سزا پانے سے نہ بچے گا ۔ کیونکہ یوں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ایک ایک برے عمل کی سزا اور ایک ایک اچھے عمل کی جزا الگ الگ دی جائے گی ۔

 دوسرے اسکے معنی یہ بھی ہیں کہ کوئی بڑے سے بڑا صالح مومن بھی کسی چھوٹے سے چھوٹے قصور کی سزا پانے سے نہ بچے گا اور کوئی بدترین کافر و ظالم اور بدکار انسان بھی کسی چھوٹے سے چھوٹے اچھے فعل کا اجر پائے بغیر نہ رہے گا ۔ یہ دونوں معنی قرآن اور حدیث کی تصریحات کے بھی خلاف ہیں ، اور عقل بھی اسے نہیں مانتی کہ یہ تقاضائے انصاف ہے ۔
 
عقل کے لحاظ سے دیکھیے تو یہ بات آخر کیسے سمجھ میں آنے کے قابل ہے کہ آپ کا کوئی خادم نہایت وفادار اور خدمت گزار ہو ، لیکن آپ اس کے کسی چھوٹے سے قصور کو بھی معاف نہ کریں ، اور اس کی ایک ایک خدمت کا اجر و انعام دینے کے ساتھ اس کے ایک ایک قصور کو گن گن کر ہر ایک کی سزا بھی اسے دے ڈالیں ۔ اسی طرح یہ بھی عقلا ناقابل فہم ہے کہ آپ کا پروردہ کوئی شخص جس پر آپ کے بے شمار احسانات ہوں ، وہ آپ سے غداری اور بے وفائی کرے اور آپ کے احسانات کا جواب ہمیشہ نمک حرامی ہی سے دیتا رہے ، مگر آپ اس کے مجموعی رویے کو نظر انداز کر کے اس کی ایک ایک غداری کی الگ سزا اور اس کی ایک ایک خدمت کی ، خواہ وہ کسی وقت پانی لاکر دے دینے یا پنکھا جھل دینے ہی کی خدمت ہو ، الگ جزا دیں ۔
 
قرآن و حدیث تو وہ وضاحت کے ساتھ مومن ، منافق ، کافر ، مومن صالح ، مومن خطاکار ، مومن ظالم و فاسق ، محض کافر ، اور کافر مفسد و ظالم وغیرہ مختلف قسم کے لوگوں کی جزا و سزا کا ایک مفصل قانون بیان کرتے ہیں اور یہ جزا و سزا دنیا سے آخرت تک انسان کی پوری زندگی پر حاوی ہے ۔ اس سلسلے میں قرآن مجید اصولی طور پر چند باتیں بالکل وضاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے:

اول یہ کہ کافر و مشرک اور منافق کے اعمال ( یعنی وہ اعمال جن کو نیکی سمجھا جاتا ہے ) ضائع کردیے گئے ، آخرت میں وہ ان کا کوئی اجر نہیں پاسکیں گے ، ان کا اگر کوئی اجر ہے بھی تو وہ دنیا ہی میں ان کو مل جائے گا ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الاعراف 147 ۔ التوبہ 17 ۔ 67 تا 69 ۔ ہود 15 ۔ 16 ۔ ابراہیم 18 ۔ الکہف 104 ۔ 105 ۔ النور 39 ۔ الفرقان 23 ۔ الاحزاب 19 ۔ الزمر 65 ۔ الاحقاف 20 ۔ 

دوم یہ کہ بدی کی سزا اتنی ہی دی جائے گی جتنی بدی ہے ، مگر نیکیوں کی جزا اصل فعل سے زیادہ دی جائے گی ، بلکہ کہیں تصریح ہے کہ ہر نیکی کا اجر اس سے 10 گنا ہے ، اور کہیں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ اللہ جتنا چاہے نیکی کا اجر بڑھا کر دے ۔ ملاحظہ ہو البقرہ 261 ۔ الانعام 160 ۔ یونس 26 ۔ 27 ۔ النور 38 ۔ القصص 84 ۔ سباء 37 ۔ المومن 40 ۔ 

سوم یہ کہ مومن اگر بڑے گناہوں سے پرہیز کریں گے تو ان کے چھوٹے گناہ معاف کردیے جائیں گے ۔ النساء 31 ۔ الشوری 37 ۔ النجم 32 ۔ 

چہارم  یہ کہ مومن صالح سے ہلکا حساب لیا جائے گا ، اس کی برائیوں سے درگزر کیا جائے گا اور اس کے بہترین اعمال کے لحاظ سے اس کو اجر دیا جائے گا ۔ العنکبوت 7 ۔ الزمر 35 ۔ الاحقاف 16 ۔ الانشقاق 8 ۔ احادیث بھی اس معاملہ کو بالکل صاف کردیتی ہیں ۔
 
حضرت انس کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رسول اللہ ﷺکے ساتھ کھانا کھا رہے تھے ۔ اتنے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت ابوبکر نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ کیا میں اس ذرہ برابر برائی کا نتیجہ دیکھوں گا جو مجھ سے سرزد ہوئی ؟ حضور نے فرمایا اے ابوبکر دنیا میں جو معاملہ بھی تمہیں ایسا پیش آتا ہے جو تمہیں ناگوار ہو وہ ان ذرہ برابر برائیوں کا بدلہ ہے جو تم سے صادر ہوں ، اور جو ذرہ برابر نیکیاں بھی تمہاری ہیں انہیں اللہ آخرت میں تمہارے لیے محفوظ رکھ رہا ہے ( ابن جریر ، ابن ابی حاتم ، طبرانی فی الاوسط ، بیہقی فی الشعب ، ابن المنذر ، حاکم ، ابن مردویہ ، عبد بن حمید ) 

حضرت ابو ایوب انصاری سے بھی رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا کہ تم میں سے جو شخص نیکی کرے گا اس کی جزا آخرت میں ہے اور جو کسی قسم کی برائی کرے گا وہ اسی دنیا میں اس کی سزا مصائب اور امراض کی شکل میں بھگت لے گا ( ابن مردویہ )

مسروق حضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺسے پوچھا کہ عبداللہ بن جدعان جاہلیت کے زمانہ میں صلح رحمی کرتا تھا ، مسکین کو کھانا کھلاتا تھا ، مہمان نواز تھا ، اسیروں کو رہائی دلواتا تھا ۔ کیا آخرت میں یہ اس کے لیے نافع ہوگا ؟ حضور نے فرمایا نہیں ، اس نے مرتے وقت تک کبھی یہ نہیں کہا کہ رب اغفرلی خطیئتی یوم الدین میرے پروردگار ، روز جزا میں میری خطا معاف کیجیو ۔ ( ابن جریر ) اسی کے جوابات رسول اللہ ﷺنے بعض اور لوگوں کے بارے میں بھی دیے ہیں جو جاہلیت کے زمانہ میں نیک کام کرتے تھے ، مگر مرے کفر و شرک ہی کی حالت میں تھے ۔ لیکن حضور کے بعض ارشادات سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر کی نیکی اسے جہنم کے عذاب سے تو نہیں بچا سکتی ، البتہ جہنم میں اس کو وہ سخت سزا نہ دی جائے گی جو ظالم اور فاسق اور بدکار کافروں کو دی جائے گی ۔ مثلا حدیث میں آیا ہے کہ حاتم طائی کی سخاوت کی وجہ سے اس کو ہلکا عذاب دیا جائے گا ( روح المعانی ) ۔
 
تاہم یہ آیت انسان کو ایک بہت اہم حقیقت پر متنبہ کرتی ہے ، اور وہ یہ ہے کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی اپنا ایک وزن اور اپنی ایک قدر رکھتی ہے ، اور یہی حال بدی کا بھی ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی بدی بھی حساب میں آنے والی چیز ہے ، یونہی نظر انداز کر دینے والی چیز نہیں ہے ۔ اس لیے کسی چھوٹی نیکی کو چھوٹا سمجھ کر اسے چھوڑنا نہیں چاہیے ، کیونکہ ا یسی بہت سی نیکیاں مل کر اللہ تعالی کے حساب میں ایک بہت بڑی نیکی قرار پاسکتی ہیں ، اور کسی چھوٹی سے چھوٹی بدی کا ارتکاب بھی نہ کرنا چاہیے کیونکہ اس طرح کے بہت سے چھوٹے گناہ مل کر گناہوں کا ایک انبار بن سکتے ہیں ۔ یہی بات ہے جس کو متعدد احادیث میں رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا ہے ۔ بخاری و مسلم میں حضرت عدی بن حاتم سے یہ روایت منقول ہے کہ حضور نے فرمایا دوزخ کی آگ سے بچو خواہ وہ کھجور کا ایک ٹکڑا دینے یا ایک اچھی بات کہنے ہی کے ذریعہ سے ہو ۔ انہی حضرت عدی سے صحیح روایت میں حضور کا یہ قول نقل ہوا ہے کہ کسی نیک کام کو بھی حقیر نہ سمجھو خواہ وہ کسی پانی مانگنے والے کے برتن میں ایک ڈول ڈال دینا ہو ، یا یہی نیکی ہو کہ تم اپنے کسی بھائی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملو ۔

 بخاری میں حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ حضور ﷺ نے عورتوں کو خطاب کر کے فرمایا اے مسلمان عورتو ، کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن کے ہاں کوئی چیز بھیجنے کو حقیر نہ سمجھے خواہ وہ بکری کا ایک کھر ہی کیوں نہ ہو ۔ مسند احمد ، نسائی اور ابن ماجہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ حضور فرمایا کرتے تھے اے عائشہ ان گناہوں سے بچی رہنا جن کو چھوٹا سمجھا جاتا ہے کیونکہ اللہ کے ہاں ان کی پرستش بھی ہونی ہے ۔ مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا بیان ہے کہ حضور نے فرمایا خبردار ، چھوٹے گناہوں سے بچ کر رہنا ، کیونکہ وہ سب آدمی پر جمع ہوجائیں گے یہاں تک کہ اسے ہلاک کردیں گے۔