Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

مرض لگنے کے اوقات

    ماہر امراض دل  ہونے کے ناطے مجھے دنیا بھر سے طبی اجتماعات اور محاضرات میں شرکت کی دعوت ملتی ہے۔ مگر یہ والا محاضرہ (سیمینار) مجھے دع...

 
  ماہر امراض دل  ہونے کے ناطے مجھے دنیا بھر سے طبی اجتماعات اور محاضرات میں شرکت کی دعوت ملتی ہے۔ مگر یہ والا محاضرہ (سیمینار) مجھے دعوت نہ ملنے کے باوجود بھی شمولیت پر اکسا رہا تھا۔ اور  اس شدت سے شرکت کی خواہش کا سبب اس سیمینار کا  اچھوتا عنوان تھا جس کے مطابق امراض لگنے کا   بھی کوئی وقت ہوتا ہے جیسے  برین ہیمبرج کتنے بجے ہوگا، شوگر کا مرض دن کے کتنے بجے لگے گا یا دل کا دورہ کس وقت پڑ سکتا ہے یا دماض کی شریانیں پھٹنے کا کونسا وقت ہوتا ہے؟

کیا کسی مرض کے لگنے کا ایک وقت بھی ہوتا ہے؟ اور پھر  یہ سب کچھ جاننے کیلیئے   میرا شوق اور تجسس جیت گیا،   میں نے ویزہ لگوایا اور ٹکٹ کٹوا کر  جرمنی کے شہر  (Düsseldorf) میں ہو رہے اس مناسبت کیلیئے رخت سفر باندھ لیا۔
سیمینار کے دوران میری کوشش رہی کہ کسی بھی موضوع پر ہو رہی گفتگو میں اپنی شمولیت لازمی بناؤں مگر  امراض دل سے متعلق کوئی بھی نشست چوکنے نہ پائے۔
پہلے دن  کی نشست میں ایک جرمن مقرر جن کا مذہب کوئی بھی ہو مگر مسلمان نہیں تھا اور نہ ہی اس کا  ہمارے دین اسلام سے کوئی تعلق تھا،   تقریر کر رہے تھے۔  آپ کے مطابق : 
دنیا بھر سے مریضوں کے اعداد و شمار اکٹھے کرنے کے بعد، طبی علوم کے علماء نے یہ جانا ہے کہ  دل کے منجملہ اعراض اور مشاکل جیسے دل کی شریانوں کا بند ہوجانا،   یا دماغی امراض جیسے دماغ کو جاتی شریانوں کا بند ہوجانا   یا پھٹ جانا صبح کے آٹھ بجے واقع ہوتے ہیں۔
کیا آپ اس بیان کی تفسیر جاننا چاہتے ہیں؟
میں بتاتا ہوں: جب ہم رات کو سوتے ہیں تو ہمارے  جسم میں خون کا دوران سست پڑ جاتا ہے۔ اگر شریانیں پہلے سے ہی جامد مواد سے اٹی ہوئی ہوں تو خون کے  بہاؤ میں رکاوٹیں نیند کے بعد بڑھتی رہتی ہیں، خون  شریانوں میں بہتے ہوئے یا خاص طور پر ان اٹی ہوئی جگہوں سے  گزرتے ہوئے لوتھڑوں (Clots - coagulate)کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمارے جسمانی نظام میں ایسا طریقہ رکھ چھوڑا ہے  (کیمیاوی عمل بنا دیا ہے)  جو دباؤ کی حالت میں ان شریانوں میں اکڑاؤ  پیدا کر کے  انہیں  پھٹنے سے بچاتا ہے، لیکن شریانوں کا یہ اکڑاؤ اور اُس میں جم جانے والے خون کے لوتھڑوں کی وجہ سے دل کا دوران خون رُک جاتا ہے جو دل کے دورے  یا دماغی شریانوں کے پھٹنے کا سبب بن جاتا ہے۔
جرمن مقرر جس کا ہمارے دین سے کوئی تعلق نہیں تھا وہ بتا رہا تھا کہ اس عارضے سے بس وہی بچ سکتے ہیں جو صبح سویرے  جاگ جائیں اور  اگر نیند کی دوبارہ حاجت محسوس ہو رہی ہو تو گھنٹہ بھر جاگنے کے بعد سونا چاہیں تو پھر سے سو جائیں۔ اس سے ہمارے  جسم سے بنا ہو وہ ا میکینزم جو شریانوں کو اکڑا کر پھٹنے سے بچا رہا ہے وہ میکینزم بند ہو جائے گا اور طبیعی سلسلے پھر سے بحال ہو جائیں گے۔
مقرر  بولتا جا رہا تھا اور میرا دماغ بس ایک ہی بات کو سوچ رہا تھا کہ یہ مقرر  شاید  مجھے " نماز نیند سے بہتر ہے – نماز نیند سے بہتر ہے" کو سمجھانا چاہ رہا ہے مگر اس کے پاس مناسب الفاظ نہیں ہیں۔
دیکھیئے: اللہ  تبارک و تعالٰی ہماری صبح کی میٹھی نیند کو اور اس میٹھی نیند کیلیئے ہماری خواہش کو خوب سمجھتے ہیں، کہیں آپ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ اللہ پاک نے ہمیں صبح سویرے جگا کر کسی عذاب میں ڈالا ہے۔ سچ جانیئے کہ اللہ پاک  نے ہمیں اس وقت جگا کر ہماری زندگی کو بچایا ہے۔
میرے کلینک پر کئی مسیحی بھائی بھی علاج کیلیئے آتے ہیں، اگر مجھے ادراک ہو جائے کہ یہ آدمی کسی بڑی مصیبت سے دوچار ہونے والا ہے تو اُسے کہتا ہوں  بھائی صبح سویرے چار یا پانچ بجے جاگ کر اپنے گھر کا ایک چکر لگایا کرو، پانی وغیرہ پینے کی حاجت ہو تو پانی پی لیا کرو، دیگر کسی حوائج  سے فراغت کی ضرورت ہو تو اُس سے فارغ ہو لیا کرو اور دوبارہ سونے کی حاجت ہو تو پھر سو جایا کرو مگر اپنے آپ پر اُس وقت جاگنا لازمی کر لو۔
یہ سب اس لیئے ہے کہ آپ بھائیوں کی تو بات کچھ  اور  ہے، اب اُس مسیحی بھائی کو تو میں  کہنے سے رہا کہ صبح اُٹھ کر نماز پڑھنے جایا کرو۔ اب  اس عمر میں بھلا اچھا تھوڑا لگے گا  کہ میں اپنے کلینک پر (مسیحی) لوگوں  سے مار کھاتا پھروں۔
بھائیو: سائنس سے ثابت کیا ہے اور علمی بحوثات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ صبح نماز کیلیئے جاگنے سے جسم کے اندر بن رہے کیمیاوی تغییرات بند ہو جاتے ہیں، اونچا ہو رہا خون کا دباؤ راہ راست پر آ جاتا ہے، خون کے جامد اجزاء پھر سے تحلیل ہو کر بہاؤ کے عمل کو آسان بنا دیتے ہیں  اور ہمیں بہت سارے  متوقع امراض سے  نجات مل جاتی ہے۔  فللہ الحمد))۔
*** یہ  ایک عرب ماہر امراض دل  اور دینی علوم کے مقرر کے خطاب کا ترجمہ ہے۔ طبی اصطلاحات کا صحیح ترجمہ نہ ہو پایا ہو تو درگزر کر دیجیئے۔ جس سیمینار کا ذکر ہو رہا ہے اس کا نام جرمنی ہونے کی وجہ سے مجھے سمجھ اور تلاش میں مشکل پیش آئی ہے لیکن بات سچ ہی ہوگی۔ سیمینار کا زمانہ بقول مقرر دس سال قبل کا ہے۔ شکریہ