Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

​ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے متعدد نکاح کیوں فرمائے

✍کافی عرصہ کی با ت ہے کہ جب میں لیاقت میڈیکل کالج جامشورو میں سروس کررہا تھا تو وہاں لڑکوں نے سیرت نبیۖ کانفرس منعقد کرائی اور تمام ا...



✍کافی عرصہ کی با ت ہے کہ جب میں لیاقت میڈیکل کالج جامشورو میں سروس کررہا تھا تو وہاں لڑکوں نے سیرت نبیۖ کانفرس منعقد کرائی اور تمام اساتذہ کرام کو مدعو کیا ۔ چنانچہ میں نے ڈاکٹر عنایت اللہ جوکھیو ( جو ہڈی جوڑ کے ماہر تھے ) کے ہمراہ اس مجلس میں شرکت کی۔ اس مجلس میں ایک اسلامیات کے لیکچرار نے حضور اقدس کی پرائیویٹ زندگی پر مفصل بیان کیا اور آپ کی ایک ایک شادی کی تفصیل بتائی کہ یہ شادی کیوں کی اور اس سے امت کو کیا فائدہ ھوا۔  یہ بیان اتنا موثر تھا کہ حاضرین مجلس نے اس کو بہت سراہا ۔

 کانفرس کے اختتام پر ہم دونوں جب جامشورو سے حیدرآباد بذریعہ کار آرہے تھے تو ڈاکٹر عنایت اللہ جوکھیو نے عجیب بات کی...  اس نے کہا کہ آج رات میں دوبارہ مسلمان ھوا ھوں ۔ میں نے تفصیل پوچھی تو اس نے بتایا کہ آٹھ سال قبل جب وہ FRCS کے لیے انگلستان گیا تو کراچی سے انگلستان کا سفر کافی لمبا تھا، ھوائی جہاز میں ایک ائیر ہوسٹس میرے ساتھ آ کر بیٹھ گئی ۔ ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی کے بعد اس عورت نے مجھ سے پو چھا کہ تمہارا مذہب کیا ہے؟  میں نے بتایا، اسلام ۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پوچھا، میں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بتایا ، پھر اس لڑکی نے سوال کیا کہ کیا تم کو معلوم ہے کہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ شادیاں کی تھیں؟ میں نے لاعلمی ظاہر کی تو اس لڑکی نے کہا یہ بات حق اور سچ ہے ۔ اس کے بعد اس لڑکی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں دو تین اور باتیں کیں ، جس کے سننے کے بعد میرے دل میں (نعوذ بااللہ ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں نفرت پیدا ہوئی ۔ جب میں لندن کے ھوائی اڈے  پر اترا تو میں مسلمان نہیں تھا۔ آٹھ سال انگلستان میں قیام کے دوران میں کسی مسلمان کو نہیں ملتا تھا ، حتیٰ کہ عید کی نماز تک میں نے ترک کردی۔ اتوار کو میں گرجو ں میں جاتا اور وہاں کے مسلمان مجھے عیسائی کہتے تھے ۔ جب میں آٹھ سال بعد واپس پاکستان آیا تو ہڈی جوڑ کا ماہر بن کر لیاقت میڈیکل کالج میں کام شروع کیا ۔ یہاں بھی میری وہی عادت رہی ۔ آج رات اس لیکچرار کا بیان سن کر میرا دل صاف ہو گیا اورمیں نے پھر سے کلمہ پڑھا ہے ۔ غور کیجئے ایک عورت کے چند کلمات نے مسلمان کو کتنا گمراہ کیا اور اگر ڈاکٹر عنایت اللہ یہ بیان نہ سنتا تو پتہ نہیں اس کا کیا بنتا ۔ اس کی وجہ ہم مسلمانوں کی کم علمی ہے ۔ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے متعلق نہ پڑھتے ہیں اور نہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ کئی میٹنگو ں میں جب کوئی ایسی بات کرتا ہے تو مسلمان کوئی جواب نہیں دیتے، ٹال دیتے ہیں۔ جس سے اعتراض کرنے والوں کےحوصلے بلند ہو جا تے ہیں ۔ اس لیے بہت اہم ہے کہ ہم اس مو ضوع کا مطالعہ کریں اور موقع پر صحیح بات لوگوں کو بتائیں ۔ 

ایک دفعہ بہاولپور سے ملتان بذریعہ بس میں سفر کر رہا تھا کہ ایک آدمی لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شادیوں کے بارے میں گمراہ کررہا تھا ۔ میں نے اس کے قریب جانے کی کو شش کی اور بات شروع کی تو وہ چپ ہوگیا اور باقی لوگ بھی ادھر ادھر ہوگئے۔ لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی خاطر جانیں قربان کی ہیں کیا ہمارے پاس اتنا وقت نہیں کہ ہم اس موضوع کے چیدہ چیدہ نکات کو یاد کر لیں اور موقع پر لوگوں کو بتائیں ۔ اس بات کا احساس مجھے ایک دوست ڈاکٹر نے دلایا جو انگلستان میں ہوتے ہیں اور یہاں ایک جماعت کے ساتھ آئے تھے ۔ انگلستان میں ڈاکٹر صاحب کے کافی دوست دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتے تھے ، وہ ان کو اس موضوع پر صحیح اطلاع کرتے رہتے ہیں ۔ انہوں نے چیدہ چیدہ نکات بتائے، جو میں پیش خدمت کر رہا ہو ں۔  اتوار کے دن ڈاکٹر صاحب اپنے دوستو ں کے ذریعے " گر جا گھر " چلے جا تے ہیں ، وہاں اپنا تعارف اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعارف کر اتے ہیں ۔ عیسائی لوگ خاص کر مستورات آپ کی شادیوں پر اعتراض کرتی ہیں ۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں:

 1⃣ میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم شباب میں (25 سال کی عمر میں ) ایک سن رسیدہ بیوہ خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ سے شادی کی ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی عمر 40 سال تھی اور جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ زندہ رہیں آپ نے دوسری شادی نہیں کی۔  50 سال کی عمر تک آپ نے ایک بیوی پر قناعت کی ۔ (اگر کسی شخص میں نفسانی خواہشات کا غلبہ ہو تو وہ عالم ِ شباب کے 25 سال ایک بیوہ خاتون کے ساتھ گزارنے پر اکتفا نہیں کرتا ) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد مختلف وجوہات کی بناء پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کئے ۔ پھر اسی مجمع سے ڈاکٹر صاحب نے سوال کیا کہ یہاں بہت سے نوجوان بیٹھے ہیں ...... آپ میں سے کون جوان ہے جو 40 سال کی بیوہ سے شادی کرے گا....؟ سب خاموش رھے ۔  ڈاکٹر صاحب نے ان کو بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیا ہے ، پھر ڈاکٹر صاحب نے سب کو بتایا کہ جو گیارہ شادیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہیں سوائے ایک کے، باقی سب بیوگان تھیں ۔ یہ سن کر سب حیران ہوئے ۔ 

پھر مجمع کو بتایا کہ جنگ اُحد میں ستر صحابہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے ۔ نصف سے زیادہ گھرانے بے آسرا ہوگئے ، بیوگان اور یتیموں کا کوئی سہارا نہ رہا۔ اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ کو بیوگان سے شادی کرنے کو کہا ، لو گو ں کو ترغیب دینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہ ، حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ اور حضرت زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنہ سے مختلف اوقات میں نکاح کیے ۔ آپ کی دیکھا دیکھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے بیوگان سے شادیاں کیں جس کی وجہ سے بےآسرا گھرانے آباد ہوگئے - 

2⃣ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ عربو ں میں دستور تھا کہ جو شخص ان کا داماد بن جاتا اس کے خلاف جنگ کرنا اپنی عزت کے خلاف سمجھتے۔  ابوسفیان رضی اللہ عنہ اسلام لانے سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شدید ترین مخالف تھا۔ مگر جب ان کی بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہ سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکاح ہوا تو یہ دشمنی کم ہوگئی۔ ہوا یہ کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہ شروع میں مسلمان ہو کر اپنے مسلمان شوہر کے ساتھ حبشہ ہجرت کرگئیں ، وہاں ان کا خاوند نصرانی ہو گیا ۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہ نے اس سے علیحدگی اختیار کی اور بہت مشکلات سے گھر پہنچیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دل جوئی فرمائی اور بادشاہ حبشہ کے ذریعے ان سے نکاح کیا.

3⃣ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہ کا والد قبیلہ معطلق کا سردار تھا۔ یہ قبیلہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان رہتا تھا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلہ سے جہاد کیا ، ان کا سردار مارا گیا ۔ حضرت جویریہ رضی اللہ عنہ قید ہو کر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورہ کر کے سردار کی بیٹی کا نکاح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا اور اس نکاح کی برکت سے اس قبیلہ کے سو گھرانے آزاد ہوئے اور سب مسلمان ہو گئے ۔

4⃣ خیبر کی لڑائی میں یہودی سردار کی بیٹی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ قید ہو کر ایک صحابی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورے سے ان کا نکاح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کرادیا ۔ اسی طر ح میمونہ رضی الله عنہ سے نکاح کی وجہ سے نجد کے علاقہ میں اسلام پھیلا ۔ ان شادیوں کا مقصد یہ بھی تھا کہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آسکیں ، اخلاقِ نبی کا مطالعہ کر سکیں تاکہ انہیں راہ ہدایت نصیب ہو ۔ 

5⃣ حضرت زینب بنت حجش سے نکاح متبنی کی رسم توڑنے کے لیے کیا ۔ حضرت زید رضی الله عنہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے متبنی کہلائے تھے، ان کا نکاح حضرت زینب بنت حجش سے ہوا ۔ مناسبت نہ ہونے پر حضرت زید رضی الله عنہ نے طلا ق دے دی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کر لیا اور ثابت کر دیا کہ متبنی ہرگز حقیقی بیٹے کے ذیل میں نہیں آتا.
 اپنا کلام جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ علوم اسلامیہ کا سرچشمہ قرآنِ پاک اور حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی سیرت پاک ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی سیرت پاک کا ہر ایک پہلو محفوظ کرنے کے لیے مردوں میں خاص کر اصحاب ِ صفہ رضی الله عنہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ عورتوں میں اس کام کے لیے ایک جماعت کی ضرورت تھی۔ ایک صحابیہ سے کام کرنا مشکل تھا ۔ اس کام کی تکمیل کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی نکاح کیے ۔ آپ نے حکما ً ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا تھا کہ ہر اس بات کو نوٹ کریں جو رات کے اندھیرے میں دیکھیں ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ جو بہت ذہین ، زیرک اور فہیم تھیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نسوانی احکام و مسائل کے متعلق آپ کو خاص طور پر تعلیم دی ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ 45 سال تک زندہ رہیں اور 2210 احادیث آپ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ جب کسی مسئلے میں شک ہوتا ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کو اس کا علم ہوتا ۔ اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کی روایات کی تعداد 368 ہے ۔ ان حالات سے ظاہر ہوا کہ ازدواجِ مطہرات رضی اللہ عنہ کے گھر، عورتوں کی دینی درسگاہیں تھیں کیونکہ یہ تعلیم قیامت تک کے لیے تھی اور سار ی دنیا کے لیے تھی اور ذرائع ابلاغ محدود تھے، اس لیے کتنا جانفشانی سے یہ کام کیا گیا ہوگا، اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ 

آخر میں ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ یہ مذکورہ بالا بیان میں گرجوں میں لوگوں کو سناتا ہوں اور وہ سنتے ہیں ۔ با قی ہدایت دینا تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔ اگر پڑھے لکھے مسلمان ان نکات کو یاد کر لیں اور کوئی بدبخت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ کرے تو ہم سب اس کا دفاع کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے اور عمل کرنے والا بنائے ۔ (آمین )