Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

سود ۔ رِبا اور ہم

جس زمانے میں میرے پاس حکومت کی ذمہ داری تھی تو سود کی حرمت کے بارے میں سپریم کورٹ کانیا نیا فیصلہ آیا ہوا تھا۔ اس زمانے میں گورنمن...


جس زمانے میں میرے پاس حکومت کی ذمہ داری تھی تو سود کی حرمت کے بارے میں سپریم کورٹ کانیا نیا فیصلہ آیا ہوا تھا۔ اس زمانے میں گورنمنٹ نے ایک کمیٹی بنائی، میں اسکا چئیرمین تھا، ہمیں ان قوانین پر نظرِ ثانی کرنے کو کہا گیا جو سودی قوانین تھے۔ اخبار میں اسکی تفصیلات آتی رہتی تھیں، کوئی مبالغہ نہیں کر رہا ہوں، بلا مبالغہ  میرے پاس روزانہ تین چار آدمی  ملنے آتے تھے ، اور بہت سے خطوط ملتے تھے ، روزانہ کبھی درجن ، کبھی دو درجن کبھی کتنے کبھی کتنے خطوط آیا کرتے تھے، جسمیں یہ لکھا ہوتا تھا کہ  میرے ذمے فلاں بینک کا، فلاں شخص کا، فلاں کمپنی کا  اتنا سود Interest/Usury/Profit واجب الادا ء (قابلِ ادائیگی Payable) ہے، سود کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے تو آپ  اس سے کہیں کہ مجھ سے سود کا مطالبہ نہ کرے۔ لیکن اس دوران ایک آدمی  بھی ایسا نہیں آیا ، میں قسم کھاتا ہوں کہ  جس نے کہا ہو کہ میرے ذمے فلاح کا سود واجب الاداء ہے، میں اسکو دینا چاہتا ہوں، آپ بتائیے اب میں کیا کروں؟ یا کسی نے یہ نہیں کہا کہ میرا سود  کسی کے ذمے واجب الادا ہے، میں لینا نہیں چاہتا، بتایئے کہ میں اسکا کیا کروں۔ ایسا کوئی شخص نہیں آیا۔ اگر آج پاکستان کے سارے مسلمان سود لینے سے توبہ کر لیں تو سودی نظام ختم ہو جائے گا۔ پاکستان کا کوئی قانون ایسا نہیں ہے، آج بھی ایسا نہیں ہے، پہلے بھی نہیں تھا جو مجھے یا آپ کو یا کسی اور کو سود لینے پر مجبور کرے۔ یہ میں آپ کی اطلاع کے لئے عرض  کررہا ہوں کہ ایک بھی قانون ایسا نہیں ہے ، جسکے تحت  کوئی شخص سود لینے پر مجبور ہو اور پابند ہو۔اسلئے آج تمام لوگ طے کر لیں کہ سود نہیں لیں تو سود  ختم ہوسکتا ہے، اور  یہ سمجھنا کہ سود کے بغیر کاروبار نہیں چل سکتا ، بالکل غلط اور بے بنیاد بات ہے۔ میں پاکستان کے ایک درجن ایسے بڑے کاروباری حضرات کو جانتا ہوں جنکا اربوں روپے کا کاروبار ہے ۔ انھوں نے خود مجھ سے بیان کیا ہے کہ انھوں نے کبھی بھی کسی سودی بنک سے قرض نہیں لیا ، ایک روپیہ بھی نہیں لیا، اور کبھی بھی کسی سودی کاروبار میں ملوث نہیں ہوئے۔ میں نے خود جاکر انکی فیکٹریاں اور کمپنیاں دیکھی ہیں، تو یہ سمجھنا یہ فلاں کام حکومت کر دے گی تو ہم بھی فلاں کام انجام دے دیں گے، ورنہ نہیں ہوسکتا ، یہ  غلط بات ہے۔ 
  یہ تو وہ چیزیں تھیں جو افراد کی ذمہ داری ہیں ۔  ایک ذمہ داری حکومت کی بھی ہے۔۔ ۔آج سیکولرازم اور لامذہبیت کے حوالہ سے (کچھ)لوگوں  نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ ریاست (State)کا لوگوں کے مذہب   سے کوئی تعلق  نہیں ، یہ بات درست نہیں، لوگوں  کا مذہب سے تعلق ہے، ریاست اسلام کی محافظ ہے، اسلام کے تحفظ دینے کی پابند ہے، اور اگر کچھ قوتیں اسلام کے خلاف کام کر رہی ہیں تو ریاست اسکی ذمہ دار ہے۔ اسکی مکلف ہے کہ ان قوتوں کو روکے ۔ اس تصور کےخلاف اگر کچھ لوگ خیالات رکھتے ہیں تو وہ اسلامی خیالات نہیں ہیں ۔ وہ سیکولر خیالات ہیں، لیکن اصل ذمہ داری اسمیں افراد کی ہے۔ اسلئے کہ ایک حد تک ایسے معاملات ہیں جسمیں ریاست دخل نہیں دے سکتی ، ریاست کو دخل نہیں دینا چاہئے۔ میرے دماغ میں کیا ہے؟ میرے دل میں کیا ہے؟ یہ میں جانتا ہوں یا میرا اللہ جانتا ہے۔ یہاں ریاست کو دخل دینے کا حق نہیں ہے۔لیکن اگر میں کھلم کھلا ایسے خیالات کا پرچار کروں جو شریعت کے متفقہ عقائد کے خلاف ہوں تو ریاست کو مداخلت کرنی چاہئیے۔ اگر میں ایسے فاسد خیالات کا اظہار نہیں کرتا ، یا کوئی اور شخص جو خیالات رکھنے کے باوجود انکا اظہار نہیں کرتا تو ریاست کو مداخلت کا اختیار نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی شریعت کے خلاف ایسے غلط خیالات کا اظہار کرتا ہے تو ریاست کو اسکا راستہ روکنا چاہئے ۔ 

یہاں آزادی رائے  (Freedom of Speech  )کا اسلامی تصور مغرب کے تصور سے متعارض (مختلف)ہے۔ مغرب میں مذہب محض ایک رائے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اہلِ مغرب کی نظر میں مذہب محض ایک رائے (Opinion)ہے۔آپکو اپنی رائے قائم کرنے کا اختیار ہے۔ انکو اپنی رائے قائم کرنے کا اختیار ہے۔ آپ نے اِسطرح کی ٹوپی اوڑھ رکھی ہے، انھوں نے اُس طرح کی ٹوپی اوڑھ رکھی ہے۔ آپ کو ایسی ٹوپی اوڑھنے پر کوئی مجبور کرے گا تو یہ بری بات ہوگی، آپکو برا لگے گا۔ وہ مذہب کے بارے میں اسی طرح کی رائے رکھتے ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ مذہب ایک ذاتی رائے (Personal Opinion)ہے ۔ آپ جو چاہیں رکھیں،  نہ رکھیں تو نہ رکھیں ۔ اسلام میں مذہب کا یہ تصور نہیں ہے۔ 

اسلام  دین اور شریعت پورے معاشرے کی اساس ہے، پوری تہذیب کی اساس ہے۔ وہاں کے نظام کی اساس کو چیلنج کرنے والا وہاں بھی برداشت نہیں کیا جاتا۔ کوئی آدمی جو سیکولرڈیموکریسی(لامذہب جمہوریت Secular Democracy) کو چیلنج کرے وہ یورپ میں پنپ نہیں سکتا۔ وہ قومیں جو سیکولر ڈیموکریسی پر زبانی  ماننے کا اظہار کرتیں ہیں لیکن عملاً انکے معاشرے میں ایسے لوگ ہیں جو سیکولر ڈیموکریسی پر عمل پیرا نہیں ہیں ، وہ انکے لئے قابلِ برداشت نہیں ہیں تو اگر معاشرے کی اساس اور ریاست کی اساس کے خلاف اظہارِ خیال قابلِ قبول نہیں ہے تو اسلام میں معاشرے اور ریاست کی اساس دین اور اسلام ہے، اسکے خلاف کوئی بات قابلِ قبول نہیں ہونی چاہئے۔ وہ (مغرب)اگر اپنی اساس کے بارے میں حساس ہوں تو قابلِ قبول ہے ، ہم(مسلمان)  اگر اپنی اساس کے بارے میں حساس (Sensitive) ہوں تو ناقابلِ قبول ہے۔ یہ بات مسلمان پسند نہیں کرتے، مسلمانون کو اس سے اتفاق نہیں۔ (اقتباس خطباتِ کراچی از ڈاکٹر محمود احمد غازی۔ جولائی 2008)

 وہ مشروط اضافہ جو معاہدہ لین دین میں بغیر کسی حق کے حاصل کیا جاتا ہے "سود یا رِبا Interest or Usury" کہلاتا ہے۔
قرآن کہتا ہے: ''اللّہ نے بیع کو حلال کیا ہے ور سود کو حرام کیا ہے (البقرۃ:۲۷۵)'' اور یہ کہ ''اے لوگو! جو ایمان لائےہو اللّہ سے ڈرو اور جو کچھ تمھارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو۔ اگر واقعی تم ایمان لائے ہو۔لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا تو آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ اور اسکے رسول کیطرف سے تمھارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔۔(البقرۃ:۲۷۹)''۔رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: ''سود کے اگر ستر (70) حصے کئے جائیں تو اسکا کمزور حصہ بھی (گناہ میں) اپنی ماں سے زِنا کے برابر ہے (ابنِ ماجہ)۔

'سود 'یہود و نصارٰی میں بھی حرام تھا (خروج22: 25؛ احبار25: 36، 37:25؛ استثناء23: 19) ۔( متی21: 13؛مرقس 11: 17؛لوقا20: 45) ۔تاہم پردیسی ( غیر یہودی) کے لئے اسے جائز کر دیا گیا (استثناء 23-20)۔ سرمایہ دارانہ نظام کے بعد کیتھولک عیسائیت نظری طور پر گو سود کو گناہ(sinful) قرار دیتی ہے مگر عملاً اسکے لئے اسکی روک تھام ممکن نہیں رہی۔اسکے بالمقابل پروٹسٹنٹ عیسائیت میں مختلف تشریحات و تاویلا ت کے ساتھ سود کو جائز قرار دے دیا گیا ہے۔ قرآن یہود و نصاریٰ کے سود لینے دینے کو  حکم ربی  قرار دینے کی نفی کرتا ہے (النساء4: 161)۔

*بنیادی نکات:* 
▪رِبا کے حرام ہونے کا تعلق حقوق اللّہ سے ہے اسلئے فریقین کی رضامندی سے سود جائز نہیں ہوسکتا۔ 
▪کسی کاروبار، تجارت یا لین دین کے حلال وحرام ہونے میں اصل اعتبار اسکے مندرجات اور اسکے مضمون کا ہے، اسکی ظاہری صورت یا عنوان کا نہیں ہے۔ دینے اور لینے والا کوئی بھی ہو، فرد ہو یا انجمن، ادارہ ہو یا حکومت، رضامندی سے ہو یا ناراضگی سے، اسکا نام رِبا رکھا جائے، منافع profitرکھا جائے یا فائدہ benefit or Interest، کچھ بھی رکھا جائے، لینے والے ضرورتمند ہوں یا غنی ہوں۔ لینے والے کا مقصد تجارتی ہو یا صرفی ، ذاتی ہو یا کاروباری۔جب جہاں اور جس صورت میں رِبا کی حقیقت پائی جائے گی وہ سود یا رِبا ہو گا۔
▪روایتی بنکاری Conventional Banking کی اصل سود یا رِبا ہے۔ جبکہ اسلامی بنکاری بھی کئی سطحوں پر غیر اسلامی عالمی مالیاتی و بنکاری نظام کا حصہ اور اسکا مددگار یا ماتحت dependent ہے، دجالی سرمایہ دارانہ نظام کی بقا اور استحکام  کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف شرعی قباحتوں سے بھی پاک نہیں۔  مختلف مسالک کے مستند علماءِ کرام (مثلاً اہلحدیث اور دیوبند) نے اس غیر سودی بنکاری کی نام نہاد اسلامی  شکل کے عدم جواز کا فتویٰ دیا ہے ۔نیز ماہرین ِ معاشیات Economist نے بھی اسکی کئی بنیادی خرابیوں کی نشاندہی کی ہے۔ 
▪اگر پاکستانی قوم مل کر یہ فیصلہ کرلے کہ وہ ہر قسم کے سود ی معاملہ سے خود کو دور رکھے گی تو  کوئی انھیں سود لینے یا دینے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ یاد رکھئے! ہر شخص نے انفرادی طور پر *اللہ تعالیٰ* کے سامنے جوابدہ ہونا ہے۔
▪انفرادی سطح پر، گروہی سطح پر ، ریاستی سطح پر اور بحیثیتِ ملتِ اسلامیہ  ہر ہر سطح پر  سودی معاملات اور لین دین سے اجتناب ضروری ہے۔