Page Nav

HIDE

Grid

GRID_STYLE
TRUE

Left Sidebar

False

Breaking News

latest

کہانی - ایک سپیرا اوراژدہا

مولانا روم مثنوی میں ایک حکایت بیان کرتے ہیں ،ایک سپیرا سانپ پکڑکر اپنی روٹی روزی کا سامان کیا کرتا تھا۔ دن رات نئے اورزہریلے سانپوں کی ...

مولانا روم مثنوی میں ایک حکایت بیان کرتے ہیں ،ایک سپیرا سانپ پکڑکر اپنی روٹی روزی کا سامان کیا کرتا تھا۔ دن رات نئے اورزہریلے سانپوں کی تلاش میں جنگلوں ویرانوں اورصحراﺅں میں سرگرداں رہتا۔

ایک بار برفباری کے موسم میں اسے ایک قوی الجثہ اژدہا مردہ حالت میں دکھائی دیا۔سپیرے نے اتنا بڑا اژدہا پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ،اسکے دیکھنے سے اسکے دل پر ہیبت طاری ہوئی ،پھر خیال آیا کہ اگر اسے کسی طریقے اٹھا کر شہر میں لے جاﺅں تو تماشیائیوں کا انبوہِ کثیر جمع ہوجائیگا اور میری آمدن میں بیش از بیش اضافہ ہوجائےگا۔

سو! وہ بڑی محنت اور مشقت سے اس مردہ اژدہے کو لیکر شہر میں آگیا،اژدہا کیاتھا،ایک طویل ستون محسوس ہورہا تھا۔ سپیرا اسے موٹے رسوں سے باندھ کرکھینچتا ہوا لایا اور شہر میں منادی کروا دی میں نے بڑی مشکل سے اپنی جان کو ازاحد جوکھم میں ڈال کر اس اژدہے کو قابو کیا، لیکن افسوس کہ یہاں تک پہنچتے پہنچتے یہ مرگیا ہے ۔


سپیرے کے اس کارنامے سے شہر بغداد میں دھوم مچ گئی ،لوگ جوق درجوق وہاں پہنچنے لگے ،سینکڑوں اور ہزاروں احمق جمع ہوگئے ۔


سپیرے نے ان سے پیسے بٹورنے کیلئے یہ انتظام بھی کیا کہ اژدہے کو لپیٹ لپاٹ کر ایک بڑے سے ٹوکرے میں بند کردیا تاکہ جب زیادہ سے زیادہ لوگ جمع ہوجائیں تب اس اژدہے کی رونمائی کرے، تھوڑی ہی دیر میں اس قدر لوگ جمع ہو گئے کہ شہر کے چوک میں تل دھرنے کے جگہ باقی نہ رہی ۔
دوسری طرف حقیقت یہ تھی کہ سپیرا اپنے گمانِ فاسد کےمطابق اسے مردہ سمجھ رہا تھا جب کہ وہ زندہ تھا،شدت کی سردی اوربرفباری کی وجہ سے اس کا جسم سُن ہوگیا تھا اوروہ مردہ دکھائی دے رہا تھا۔


شہر کی دھوپ اور لوگوں کی اژدہام کی وجہ سے اسکے وجود میں کچھ حرارت پیدا ہوئی اور یکایک اس نے ایک جنبش لی اور اپنا منہ کھول دیا ،پھر کیا تھا ایک قیامت برپا ہوگئی ، لوگ بدحواس ہوکر بھاگے ،بہت سے لوگ ہجوم میں بری طرح کچلے گئے ۔ اژدہے نے سارے رسے توڑ دیے ۔


دہشت کی وجہ سے سپیرے کے ہاتھ پاﺅں پھول گئے ،اس نے کہا یہ کیا غضب ہوگیا،یہ پہاڑ سے میں کس آفت کو اٹھا لایا ہوں اس اندھے بھیڑیے کو میں نے ہوشیار کردیاہے ،اپنے ہاتھوں سے اپنی موت بُلالی ہے

 ،
ابھی وہ اپنی جگہ سے ہلنے بھی نہ پایا تھا کہ اژدہے نے اپنا غار سا منہ کھول کر اسے نگل لیا،پھر رینگتا ہوا آگے بڑھا اورایک عمارت کے ستون سے اپنی آپ کو لپیٹ کر ایسا بل کھایا کہ اس سپیرے کی ہڈیاں بھی سرمہ ہوگئی ہوں گی۔


نتیجہ: اے عزیز! غور کر کہ تیرا نفس بھی اژدہا ہے ، اسے مردہ مت سمجھ' وہ وقتی بے سروسامانی کی وجہ سے منجمد نظر آتا ہے۔