کوئی چور تھا ، تو اس کے اندر کچھ پیسہ بنانے کی خواھش پیدا ہوئی، کیونکہ وہ اپنی محبوب بیوی کو کچھ دینا چاہتا تھا یا اپنی ذات کے لئے رکھ...
کوئی چور تھا ، تو اس کے اندر کچھ پیسہ بنانے کی خواھش پیدا ہوئی، کیونکہ وہ اپنی محبوب بیوی کو کچھ دینا چاہتا تھا یا اپنی ذات کے لئے رکھنا چاہتا تھا۔ اس نے ایک رات ایک گھر کے روشن دان میں سے کمرے میں داخل ہونے کی کوشش کی کہ یہ اچھا گھر ہے ، اور مجھے یہاں سے کوئی مال و متاع ملے گا ، لیکن جب وہ اتنا اونچا چڑھا ، اور روشن دان کے اندر سے گزرنے کی کوشش کی ، تو وہ روشن دان جس کا چوکھٹا بظاہر ٹھیک نظر آتا تھا ، ڈھیلا لگا تھا، وہ بمع چوکھٹے کے اندر کے فرش پر سر کے بل آگرا ، اور اس کو سخت چوٹیں آئیں ، چنانچہ اس نے وہ چوکھٹا اٹھایا اور قاضی وقت کے پاس شکایات کے لئے لے گیا۔
دیکھیں کیا کمال کے آدمی تھے ۔ اس نے کہا ، جناب دیکھیں میں چوری کرنے کے لئے وہاں گیا تھا۔ یہ کیسا نالائق مستری ہے کہ جس نے ایسا چوکھٹا بنایا کہ یہ ٹوٹ گیا ہے ، اور کرچیاں کرچیاں ہوگئیں ہیں تو اس کو سزا ملنی چاہئے۔
قاضی وقت نے کہا ، یہ تو واقعی بری بات ہے۔ اس لکڑی بیچنے والے کو بلایا گیا ، چنانچہ وہ پیش ہوگیا ۔ اس نے کہا ، جناب اس گھر کی کھڑکی تو میں نے بنائی تھی ۔ اس سے کہا گیا تم نے ایسا قسم کی ناکارہ لکڑی لگائی ۔ اس نے کہا جناب اس لکڑی کو بھی دیکھ لیں کسی سے ٹیسٹ کروائیں اس میں کوئی نقص نکلا تو میں ذمہ دار ہوں۔
حضور بات یہ ہے کہ اس میں خرابی ہماری لکڑی کی نہیں اس ترکھان کی ہے جس نے یہ چوکھٹا ڈائیمنشن کے مطابق نہیں بنایا۔
انھوں نے ترکھان یا بڑھئی کو بلایا ہے وہ پیش ہوگیا ۔ ترکھان نے کہا میں نے چوکھٹا بلکل ٹھیک بنایا ہے یہ میرا قصور نہیں آپ ماہرین بلوا لیں وہ بتادیں گے میرے چوکھٹے میں کوئی خرابی نہیں ۔ میں یقین سے کہتا ہوں یہ چوکھٹا بلکل ٹھیک ہے ۔ راج معمار جس نے اس کو فٹ کیا تھا یہ ساری کوتاہی اس کی ہے چنانچہ راج معمار کو بلوایا گیا وہ عدالت میں پیش ہوگیا۔
قاضی وقت نے کہا ، اے نالائق آدمی بہت اعلا درجے کا چوکھٹا بنا ہوا ہے ڈائی مینشن اس کی درست ہے تو نے کیوں “موکھا ” اس کا ڈھیلا بنایا ، تو نے صحیح طور پر اسے فٹ کیوں نہیں کیا۔
اس نے سوچا واقعی عدالت ٹھیک پوچھ رہی ہے ۔ چوکھٹے میں اور دیوار میں فاصلہ تو ہے ۔ اس نے کہا حضور بات یہ ہے ، مجھے اب یاد آیا ، جب میں چوکھٹا لگا رہا تھا تو میں نے باہر سڑک پر دیکھا اس وقت ایک نہایت خوبصورت عورت اعلا درجے کا لباس پہنے ، بے حد رنگین لہنگا اور بے حد رنگین دوپٹہ اوڑھے جا رہی تھی ، مزے سے اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی ، تو میری توجہ اس کی طرف ہو گئی ۔ جب تک وہ سڑک پر چلتی رہی میں اس کو دیکھتا رہا میں پوری توجہ نے دے سکا اور چوکھٹے کو صحیح طرح سے نہ لگا سکا ۔
انھوں نے کہا اس عورت کو بلاؤ ، عورت کو سب تلاش کرنے لگے ، شہر میں سب جانتے تھے جو چھمک چھلو تھی کہ وہ وہی ہوگی سو عدالت میں پیش کر دیا گیا۔
پوچھا گیا کیا تم یہاں سے اس روز گزری تھیں ؟ کہا ہاں میں گزری تھی ۔ اس نے کہا تم نے ایسا لہنگا پہنا ، ایسا غرارہ پہنا تھا ، تو کیوں پہنا تھا ؟
حضور بات یہ ہے کہ میرے خاوند نے مجھ سے کہا یہ تم کیا ڈل کلرز پہنتی ہو ۔ یہ کچھ اچھے نہیں لگتے ، تمہارے رخ زیبا کے اوپر یہ کپڑے سجتے نہیں ہیں ۔ بہت اعلا قسم کے شوخ ، اور بھڑکیلے قسم کے پہنو ۔
عدالت نے کہا اس خاوند کو حاضر کیا جائے ، چنانچہ وہ اس کے خاوند کو پکڑ کر لے آئے ، عدالت کے سامنے پیش کر دیا ۔ وہ خاوند وہی شخص تھا ، جو روشن دان سے چوری کرنے کے لئے اترا تھا۔
اس کی خواہش میں وہ خود کھڑا تھا ۔ اتنا چکر کاٹ کر آدمی کو پتا نہیں چلتا کہ اس کے ساتھ کیا گزر رہی ہے ۔ وہ کہاں پر اپنی ہی خواہش ، اپنی ہی آرزو کے درمیان کھڑا تھا۔
اردو کی سچی کہانیاں گــــروپ★